ریاست کہاں ہے؟


چند دن قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا بیان میڈیا کی زینت بنا۔ ایک کیس کی سماعت کے دوران جج صاحب نے فرمایا کہ ” اس ملک میں سب سے بڑا مسئلہ جھوٹ اوردھوکہ دینے کا ہے”۔ جناب چیف جسٹس نے بالکل درست نشاندہی کی ہے۔ جھوٹ جیسی برائی (جس کی اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے) ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ اسی طرح دھوکہ دہی، جعلسازی اور فریب کاری کا نا سور ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ کم وبیش تمام شعبوں میں یہی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔

مثال کے طور پر آج کل چینی باشندوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادی کا معاملہ میڈیا پر زیر بحث ہے۔ غیر ملکی میڈیا میں بھی اس اسکینڈل کے چرچے ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے تقریبا دو درجن چینی باشندے گرفتار کیے ہیں، جو پاکستانی لڑکیوں کو شادی کا جھانسا دے کر چین لے جاتے اور وہاں انکے اعضاء اور جسم فروشی میں ملوث تھے۔ انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہ گھناؤنا دھندا مقامی ایجنٹوں (پاکستانیوں) کی مدد سے جاری تھا۔ اسی طرح چند دن پہلے کی خبر ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں ” ڈبل شاہ” کی طرح کا ایک کیس ” اسپیڈو بائیک اسکیم ” منظر عام پر آیا ہے۔ ابھی تک ڈھائی سو سے زائد متاثرہ افراد سامنے آئے ہیں جنہوں نے اپنی رقم دوگنی کرنے کے لالچ میں لاکھوں روپے اس اسکیم میں لگائے تھے۔ یہ تو صرف دو خبریں ہیں۔ ایسی کئی وارداتوں کی خبریں آئے روز ہماری نظروں سے گزرتی ہیں۔

 دھوکہ دہی کا رجحان شعبہ تعلیم میں بھی عام ہے۔ خاص طور پر ہائر ایجوکیشن سیکٹر میں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور کالجز جعلسازی میں ملوث ہوتے ہیں۔ والدین لاکھوں روپیہ فیس ادا کر کے اپنے بچوں کو داخلہ دلواتے ہیں۔ یہ نام نہاد تعلیمی ادارے نو جوانوں کا روپیہ اور قیمتی وقت ضائع کرنے کے بعد انہیں ڈگری کے نام پر بے مصرف کاغذ کا ٹکرا تھما دیتے ہیں۔ وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر بلیک لسٹ تعلیمی اداروں کی ایک فہرست آویزاں کر رکھی ہے۔ وقتا فوقتا میڈیا میں اشتہارات کے ذریعے بھی عوام الناس کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ اسکے باوجود صورتحال میں خاطر خواہ بہتری نہیں آ سکی۔ بلیک لسٹ تعلیمی اداروں میں بہت سے ادارے نامور سیاسی و سماجی شخصیات کی زیر سرپرستی یا زیر ملکیت ہیں۔ ایسے میں انہیں کام کرنے سے روکنا کوئی آسان معاملہ نہیں۔ یوں بھی ان بوگس تعلیمی اداروں کو بند کروانا ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کام نہیں ہے۔ متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے بہت سے جعلی ادارے برسوں سے تعلیم فروشی میں مصروف ہیں۔ ان میں جعلی لا کالجز بھی ہیں، جو قانون کی غیر قانونی ڈگریاں بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ اسی طرح جعلی میڈیکل کالجز ہیں، جو پی۔ ایم۔ ڈی۔ سی سے اجازت نامہ (NOC) حاصل کئے بغیر قائم ہوتے ہیں۔ کروڑوں روپیہ فیس وصول کرتے اور طمطراق سے کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بوگس ڈگریاں جاری کرتے اور جعلی ڈاکٹرز مارکیٹ میں سپلائی کر کے مریضوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں ۔ مگر بہت کم ایسا ہوا کہ کوئی جعلی میڈیکل کالج بند کیا گیا ہو۔ لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کا ایسا ہی کاروبار جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریاں بھی کر تی ہیں۔ ظلم اور بے حسی کی انتہا دیکھئے کہ جان بچانے والی جعلی ادویات تک تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود کسی کو ان فیکٹریوں کے مالکان پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کم ہی ہوتی ہے۔

برسوں سے ہم ایسی خبریں بھی سنتے ہیں کہ بیرون ملک نوکری یا تعلیمی داخلے کا جھانسا دے کرخواہشمندوں سے لاکھوں روپے بٹور لئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ایجنٹ مال سمیٹ کر فرارہو جاتے ہیں۔ یا پھر غیر قانونی طریقوں سے پاکستانیوں کو سرحد پار کروانے کی کو شش کی جاتی ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ بند کنٹینروں میں دم گھٹنے سے کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یا کشتی الٹنے سے ہلاکتوں کی خبریں آتی ہیں۔ اکثر و بیشتر ایسے افراد کسی ملک کی سرحد عبور کرتے ہوئے گرفتار ہوجاتے ہیں۔ ایک انگریزی روزنامے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تقریبا گیارہ ہزار پاکستانی دیگر ممالک کی جیلوں میں قید ہیں، مگر ہماری ریاست کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ (سعودی شہزادے کی پاکستان آمد پر سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی رہائی کا جو اعلان ہوا تھا اور جس کی خوب تشہیر کی گئی تھی۔ وہ وعدہ تاحال تکمیل کا منتظر ہے)۔ ہمارے ہاں بہت سی جعلی اور غیر رجسٹرڈ ہاوسنگ سوسائٹیاں بھی موجود ہیں۔ اپنا گھر بنانے کے آرزومند اپنی عمر بھر کی پونجی ان منصوبوں میں جھونک دیتے ہیں۔ اور آخر میں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ فریب کاری کا شکار ہو گئے ہیں۔ حج عمرے جیسے مقدس معاملات بھی فریب کاری سے مستثنی نہیں۔ اللہ کے گھر کی زیارت کروانے کے نام پر لاکھوں روپے وصول کئے جاتے ہیں اور عین وقت پر لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فراڈ کا شکار ہو گئے ہیں۔ جعلی پیر اور عاملوں کے قصے بھی معمول کے واقعات ہیں۔ یہ نقلی پیر حاجت مند عوام کے جذبات سے کھیلتے اورانہیں بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ ان عاملوں کی گرفت بھی کم کم ہی ہوتی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب نا جائز دھندے کسی تہہ خانے میں، چھپ چھپا کر نہیں ہوتے۔ بلکہ کھلے عام کئے جاتے ہیں۔ باقاعدہ دفاتر قائم ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے بورڈ آویزاں ہوتے ہیں۔ ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا پر تشہیر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ باقاعدہ رابطہ نمبر درج ہوتے ہیں۔ اسکے باوجود کسی روک ٹوک اور گرفت کے بغیر ایسے لوگ اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان تمام معاملات سے نمٹنے کیلئے ہمارے ہاں ادارے موجود ہیں۔ مگر اداروں کی کارگزاری کا اندازہ لگا لیجئے، جن کی موجودگی میں یہ تمام کاروبار طمطراق سے جاری ہیں۔ غور طلب بات ہے کہ جب جعلی تعلیمی ادارے قائم ہو رہے ہوتے ہیں۔ جعلی ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں۔ جعلی ڈاکٹراور وکیل مارکیٹ میں بھیجے جاتے ہیں۔ جب جعلی پیر اور عامل اپنے اڈے اور دکانیں سجاتے ہیں۔ جب بڑی بڑی ہاوسنگ سوسائٹیاں لاکھوں کروڑوں روپے کے اشتہارات کے ذریعے سادہ لوح افراد کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔ اس وقت ریاست اور متعلقہ ادارے کہاں سو رہے ہوتے ہیں؟

چلیں مان لیتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ مگر ریاست ان جعلسازوں سے کہیں زیادہ قوت اور وسائل کی حامل ہوتی ہے۔ متعلقہ اداروں کی ناقص کارکردگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان میں افسران کی کارکردگی جانچنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔ لہذا شعوری لاشعوری طور پر افسران سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ متاثرین میں سے کوئی شکایت کرتا ہے تو افسران اس شکایت پر کم ہی کان دھرتے ہیں۔ یا پھر تفتیش کے نام پر متاثرہ فرد ایک عذاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ لہذا بیشتر متاثرین سمجھتے ہیں کہ پیشیاں بھگتنے سے کہیں بہتر ہے کہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔

ضروری ہے کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے ریاست پوری قوت کے ساتھ بروئے کار آئے۔ اس ضمن میں اصولی طور پر کوئی فراڈ مینجمنٹ پالیسی وضع ہونی چاہئے۔ تاکہ عوام الناس کو جعلسازی سے بچایا جا سکے۔ اور جعلسازوں کو قانونی شکنجے میں کسا جا سکے۔ اسکے لئے مگر نظام قانون و انصاف کو بھی مضبوط بنانا بے حد ضروری ہے۔ غلط کاروں کی فوری گرفت اور سزا کا اہتمام ہو گا تو معاملات خود بخود بہتر ہو تے چلے جائیں گے۔ متعلقہ اداروں اور افسران کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے جوابدہی کا کڑا نظام بھی وضع کرنا ہوگا۔ اگرمناسب اقدامات نہ کئے گئے تو دھوکہ بازی کا سلسلہ مزید پھلتا پھولتا جائے گا۔

اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں دھوکہ دہی اور فریب کاری کا دھندہ موجود ہے۔ وہاں نیک دل افراد، اچھے ادارے اور تنظیمیں بھی موجود ہیں۔ جو ہر طرح کے سیاسی اور ذاتی مفادات سے بے نیاز فلاح انسانیت اور خدمت خلق میں مصروف ہیں۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ بھی ایسا ہی ایک انتہائی نیک نام ادارہ ہے۔ یہ ٹرسٹ گزشتہ 23 برس سے، دیہات میں بسنے والے غریب، یتیم، بے سہارا اور معذور بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ سید عامر جعفری اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی جیسی دیگر نیک نام شخصیات نے اس مشن کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ ایسے ادارے ہماری مالی اور اخلاقی امداد کے اصل مستحق ہیں۔ خاص طور پر رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہمیں ایسے اداروں کو ضرور یاد رکھنا چاہئے۔ قارئین غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ سے رابطہ کرنا چاہیں تو اسکی ویب سائٹ (www.get.org.pk) پر درج فون نمبروں پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ عطیات اور صدقات کیلئے بنک الحبیب گارڈن ٹاون برانچ لاہور۔ اکاونٹ نمبر0007-0081-047153-01-4


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).