مائیں کیوں مر جاتی ہیں؟


 ادھر 22 فروری 2006 کا سورج مارگلہ کے پہاڑوں کی اوٹ میں غروب ہو رہا تھا اور ادھر پمز ہسپتال کے میڈیکل وارڈ کے ایک کمرے میں ماں نے آخری ہچکی لی۔ ماں جی کے جسمانی عوارض، قلبی نا آسودگیوں اور روحانی بے قراریوں کو گویا قرار آ گیا تھا۔ کم و بیش بیس برس سے بے شمار بیماریوں کا پا مردی سے مقابلہ کرتے کرتے وہ بہت تھک گئی تھیں۔ اس تھکن اور بیماری کے آزار کے اثرات ان کے چہرے سے بھی ہویدا تھے۔

مگر اب ان کے چہرے پر جیسے ابدی سکون کے اثرات تھے۔ سورج کے ساتھ سائے کی رخصتی تو فطری امر ہے مگر ماں کے زندگی کے آفتاب کے غروب ہونے سے ہم بھائیوں کے سر سے سائبان بھی چلا گیا تھا۔ اس شام احساس ہوا کہ ماں کی پلکوں کاسایہ ہی اصل میں وہ مضبوط اور مشفق سائبان تھا، جس نے ہمیں زمانے کے دکھوں اور آلام سے محفوظ رکھا تھا۔ وہ شام میری زندگی کی اداس ترین شام بن کر تا حیات ساتھ ساتھ چلتی رہے گی۔

گھر سونا کر جاتی ہیں، مائیں کیوں مر جاتی ہیں
سبز دعاوں کی کونجیں کیوں ہجرت کر جاتی ہیں

شام ہی نہیں وہ رات بھی بڑی بھاری تھی۔ جاتی سردیوں کی رات ٹھنڈی ہو رہی تھی اور ہم ہسپتال سے ابدی نیند سونے والی ماں جی کو لے کر اسلام آباد کے نواح میں اپنے کزن کے یہاں آ گئے تھے۔ گہری دن سوئی ماں جی کو صحن میں رکھا تھا اور تمام عزیز و اقارب وہاں جمع ہو رہے تھے۔ ماں کو لے کر آبائی شہر راولا کوٹ روانہ ہونا تھا اور رات کے آخری پہر کا انتظار تھا۔ تا کہ سپیدہء سحر نمودار ہوتے وقت وہاں پہنچا جا سکے۔ مقصد یہ تھا کہ جس طرح ہماری ماں نے زندگی میں کسی کو تکلیف نہیں دی، اسی طرح ہم بھی چاہتے تھے کہ ان کے گزرنے کے بعد کسی کو مشکل میں نہ ڈالیں۔

ماں سے دائمی وچھوڑے کا قلق دامن گیر تھا، اشک رواں کی نہر جاری تھی، دل میں ہول اٹھ رہے تھے، جسم بخار سے تپ رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے یادوں کی پوٹلی کھلتی گئی۔ گزرا وقت یادوں کے دریچوں سے جھانک رہا تھا۔ وقت کی ٹہنی پر لمحوں کے پھول ایک ایک کر کے کھلنے لگے اور پرانی یادیں وادی پرل کی گل پوش اور خوش رنگ وادیوں میں بھٹکنے لگیں۔ جب تنگ دستی و عسرت کے ڈیرے تھے مگر ماں زندہ تھی۔ سر چھپانے کو چھوٹی سی چھت مگر ماں کا مضبوط سہارا میسر تھا۔

کڑی دھوپ میں ماں کی شفقتوں کا سائبان اور دعاوں کا حصار مہیا تھا۔ انواع و اقسام کے الوان نعمت نا سہی ماں کے ہاتھ کے پکی دال روٹی کی لذت میسر تھی۔ ویسی لذت جو اس کے بعد پنج ستارا ہوٹلوں کے خاصوں اور خوانوں میں بھی نصیب نہ ہوئی۔ ہمارے سکول کے راستے میں ایک خطرناک نالہ پڑتا تھا، جس پر پل نہیں تھا۔ ہمارے سالانہ امتحانات مارچ کی طوفانی بارشوں میں ہوا کرتے تھے۔ نالہ اکثر بپھر جاتا تھا اور ماں کبھی خود اور کبھی محلے سے کسی ہم درد کو بھیج کر ہماری دست گیری کرتی تھیں۔ کئی بار دروازے پر ہماری راہ تکتے تکتے خود بھی بھیگ جاتی تھیں۔

بارش ہوتی ہے تو دونوں بھیگتے ہیں
میں بارش میں ماں دروازے پر

ماضی کے کتنے منظر، کتنی یادیں، کتنے رنگ، کتنے جگنو، کتنے ستارے، کتنے گلاب، کتنی تتلیاں اور کتنے خواب آنکھوں میں جگ مگ جگ مگ کرنے لگتے ہیں۔ مجھے یہ سب رنگ ماں کے حوالے سے بھاتے تھے۔ مائیں تو سبھی شفقت، محبت، مہربانی، خلوص، ایثار اور قربانی کا پیکر ہوتی ہیں۔ دنیا بھر کی مائیں ہر دور میں ایسی ہی رہی ہیں۔ جانے والی ماؤں کے لیے بچے تو بلکتے ہی ہیں۔ ہم جیسے بڑی عمر کے لوگ بھی سسکتے ہیں۔

ہم جگنو تھے ہم تتلی تھے
ہم رنگ برنگ پنچھی تھے
کچھ ماہ و سال کی حالت میں
ماں ہم دونوں بھی سانجھی تھے
اک خوابوں کا روشن بستہ
تو روز مجھے پہناتی تھی
جب ڈرتا تھا میں راتوں میں
تو اپنے ساتھ سلاتی تھی
میں تیرے ہاتھ کے تکیے پر
اب بھی رات کو سوتا ہوں
ماں میں چھوٹا سا اک بچہ
تیری یاد میں اب بھی روتا ہوں

ہماری ماں نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ رسمی تعلیم بالکل نہیں تھی۔ گو زندگی کی کتاب میں شامل تمام باب از بر تھے۔ زندگی کے بدلتے تقاضوں اور رنگ ڈھنگ نے ان کی شخصیت میں رچے بسے خلوص، سادگی اور فطری معصومیت کی رعنائی کو داغ دار نہیں ہونے دیا تھا۔ میری شادی ہوئی تو کچھ مدت اہلیہ کو گاؤں میں چھوڑ کر پنڈی روز گار کی گاڑی چلانے آنا پڑا۔ ایک بار کوئی مہینے بھر بعد جب گھر گیا تو ایک دن نے پاس بٹھا کر رازدارانہ انداز میں کہا کہ بہو نے وحید (میرا چھوٹا بھائی) کو انگریزی میں لعن طعن کیا ہے۔

میں نے تجسس سے پوچھا کہ ماں جی آپ کو کچھ تھوڑا بہت یاد ہے کہ اس نے کیا کہا تھا؟ ماں نے ا دھر ادھر دیکھ کر اپنا منہ میرے کان کے پاس لا کر کہا کہ اس نے وحید کی کسی بات کے جواب میں اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا کہ او مائی گاڈ۔ ماں جی کی اس سادگی، معصومیت، اپنائیت اور اخلاص پر مجھے قدرت اللہ شہاب کی ماں جی یاد آ گئیں، جنہوں نے اپنے شوہر کے مذاق پر ایک مدت تک غالباً کمشنری کو اپنی سوکن سمجھ کر دل ہی دل میں شکوے شکایت پال رکھے تھے۔

عمر کے آخری حصے میں ماں جی کی بصارت خاصی حد تک زائل ہو گئی تھی۔ مگر اس کے باوجود ہمیں ہمارے قدموں کی آہٹ سے پہچان لیتی تھیں۔ ماں کی شخصیت میں بے شمار رنگ و آہنگ تھے مگر سب سے اجلا اور بھلا رنگ بیس سال تک طرح طرح کی بیماریوں کا نہایت صبر و استقلال نیز عزم و ہمت سے مقابلہ کرنا تھا۔ دنیا کے ہر مذہب اور خطے میں ماں کا رشتہ انمول، مقدس اور عقیدت و محبت کا مرکز ہے۔ عالمی طور پر اس عظیم اور بے بدل رشتے کے لیے ایک دن مختص کر کے مختلف تقریبات کے ذریعے اس کے شعور کو اجاگر کرنا ایک مستحسن اور قابل تقلید کام ضرور ہے مگر ماں کی یاد کے لیے صرف ایک دن ہی کیوں، ہر دن کیوں نہیں؟

وہ دن ہماری زندگیوں سے ریت کی طرح پھسل گئے کہ جب گاؤں پہنچنے پر ماں باپ باہیں پھیلا کر ہماری بلائیں لیتے اور دعائیں دیتے تھے۔ اب تو وہاں مٹی کی دو ڈھیریاں زمین کے سینے پر ابھری ہیں۔ انہی کے پاس کچھ گھڑیاں بیٹھ کر اپنے دکھ سکھ کھول لیتے ہیں۔ کسی نے بالکل سچ کہا ہے

اس توں ٹھنڈی چھاں نئیں لبدی
دوجی واری ماں نئیں لبدی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).