اسدعمر کو ہٹا کر حکومت کو کیا ملا؟


واشنگٹن سے آئی ایم ایف کا جو وفد پاکستان سے مذاکرات کرنے آیا ہوا تھا دس سے زیادہ دنوں تک یہاں موجود رہا۔ ہفتے اور اتوار کی چٹھی بھی اس کے کام نہیں آئی۔ بالآخر اتوارکی رات نوبجے کے قریب اعلان کردیا گیا کہ پاکستان کو ایک اور بیل آئوٹ پیکیج دینے کی شرائط طے ہوگئی ہیں۔ IMFسے آئندہ 39 مہینوں میں قسط وار 6 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم مل جائے گی۔ دعویٰ ہے کہ اس رقم کی بدولت پاکستانی معیشت میں ’’استحکام‘‘ آجائے گا۔ ترقی کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملے گی۔

آئی ایم ایف سے طے ہوئی شرائط کی تمام تفصیلات عیاں کرنے کے بجائے وزیر خزانہ کے علاوہ ان کے حماد اظہراور خسروبختیار جیسے ساتھی وزراء یکے بعد دیگرے ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہونا شروع ہوگئے۔ تینوں کی ’’سوئی‘‘ صرف ایک کہانی سنانے پر اٹکی رہی اور وہ یہ کہ بجلی کی قیمت تو یقینا بڑھے گی۔ اس کا اثر مگر عوام کی اکثریت محسوس نہیں کرے گی۔ ان میں سے ’’75 فی صد‘‘ کی کثیر تعداد 300 یونٹ سے زیادہ بجلی خرچ نہیں کرتی۔ حکومت اس تعداد کو بھیجے بلوں کو سرکاری خزانے سے Subsidize کرتی رہے گی۔ بقیہ ’’25 فیصد‘‘ جو حکومت کی نظر میں خوش حال تصور ہوتے ہیں بجلی خرچ کرنے کی ’’اصل قیمت‘‘ ادا کریں گے۔

کئی دنوں سے اس کالم میں آپ کو متنبہ کئے چلا جارہا تھا کہ IMF اصرار کررہا ہے کہ بجلی کے صارفین سے حکومتِ پاکستان کم از کم اتنی قیمت ہر صورت وصول کرے جو وہ اسے IPPs سے خریدنے پر خرچ کرتی ہے۔ معاشی زبان میں اسے”Cost Recovery”کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح بہت معقول اور سادہ سنائی دیتی ہے۔ اس کا عملی اطلاق مگر صارفین کو بلبلانے پر مجبور کردے گا۔

اس سال کے آغاز کے ساتھ ہی جنوری،فروری اور مارچ کے مہینوں میں آپ کے گھروں میں سوئی گیس کے جو بل آئے تھے انہیں یاد کرلیجئے۔ حکومت یہ اصرار کرتی رہی کہ ان بلوں میں ناقابلِ برداشت اضافے کا بوجھ صرف 26 فی صد صارفین کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ یہ ’’26 فی صد‘‘جب بلبلا اُٹھے تو اعتراف کرنا پڑا کہ سوئی نادرن کے بھیجے بلوں نے کم از کم 60لاکھ گھرانوں کو پریشان کردیا۔ ان گھرانوں کی اکثریت تنخواہ دار افراد یا چھوٹے کاروبار سے متعلق تھی۔ مزید تکلیف دہ حقیقت یہ بھی تھی کہ راولپنڈی،اسلام آباد اور مری جیسے شہروں میں یہ گھرانے 25 جولائی 2018 کے روز ہوئے انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو کامیاب کروانے میں متحرک رہے تھے۔

حکومت ان کی پریشانی سے گھبرا گئی۔اعلان ہوا کہ وزیر اعظم نے ان کی پریشانی کا ادراک کرتے ہوئے انہیں’’ریلیف‘‘ پہنچانے کے لئے 5ارب روپے کی رقم مختص کردی ہے۔ ہم سادہ لوح اس امید میں مبتلا رہے کہ ہماری جانب سے ادا ہوئی رقم شاید ہمیں نقدی کی صورت واپس تو نہ ملے لیکن آئندہ گیس کے جو بل ہمارے گھروں میں آئیں گے وہ ’’تلافی‘‘ (Compensation) کی کوئی صورت نکالتے پائے جائیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔

فقط غلام سرور خان سے گیس کا محکمہ لے کر انہیں کمرشل جہازوں کی اڑان کی نگرانی سونپ دی گئی۔ ان دنوں گیس کے استعمال کے ضمن میں ہمیں جو ’’ریلیف‘‘ مہیا ہے بنیادی سبب اس کا موسم ہے جس میں گیزر اور ہیٹر چلانے کی ضرورت نہیں۔ سردی شروع ہوتے ہی اس ضمن میں ہماری اذیت لوٹ آئے گی۔

اس وقت تک گھر کے پنکھے چلاتے ہوئے سوبار سوچنا ہوگا۔ ایئرکنڈیشنڈ کا استعمال ویسی ہی ’’عیاشی‘‘ تصور ہوگی جو گیزر کے استعمال کے ضمن میں غلام سرور خان نے دریافت کی تھی۔ بجلی استعمال کرنے والے ’’فقط 25فی صد‘‘ بلبلاتے ہوئے حکومت کو کوستے رہیں گے۔ حفیظ شیخ ،حماد اظہر اور خسروبختیار کی اتوار کی رات دی گی تسلیاں ان کے کام نہیں آئیں گی۔

عمرایوب تو آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے سے قبل ہی ہمیں خبردار کرچکے ہیں کہ بجلی کے فی یونٹ نرخ میں کم ازکم دو روپے اضافہ ضروری ہوگیا ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ دو روپے فی یونٹ اضافے کا وعدہ بھی آئی ایم ایف نے مناسب تصور نہیں کیا۔ حکومت کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دی کہ وہ صارفین سے Cost Recovery کے عمل کو قسط وار متعارف کروائے۔”Upfront” اطلاق کا تقاضہ کرتے ہوئے یکمشت عمل درآمد پر اصرار ہوا۔

فوری اطلاق کو یقینی بنانے کے لئے IMF کی جانب سے اتوار کی رات جاری ہوئی پریس ریلیز میں کمال مہارت سے یہ ’’تڑی‘‘ بھی لگادی گئی ہے کہ اس کے پاکستان آئے وفدکی جانب سے طے ہوئے معاہدے کی ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری سے قبل حکومتِ پاکستان کو طے شدہ شرائط میں سے ’’چند‘‘ کو فوری طورپر لاگو کرنا ہوگا۔ بجلی کے بلوں میں فوری اضافہ یقینا مذکورہ شرائط میں سرفہرست ہے۔

مجھے خدشہ ہے کہ آئندہ کئی دنوں تک اس کالم میں آئی ایم ایف کے ساتھ طے ہوئی شرائط کی وجہ سے میری اور آپ کی روزمرہّ زندگی پر بڑھتے بوجھ کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات نہیں ہوپائے گی۔فی الوقت مگر اس سوال تک محدود رہتے ہیں جو اتوار کی رات سے میرے ذہن میں گونجے چلاجارہا ہے۔

باخبر لوگوں اور اقتدار کے مراکز سے یکسو کٹا میں بدنصیب فی الوقت بہت شدت سے یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ اسد عمر کو وزارتِ خزانہ سے ہٹاکر تحریک انصاف کی حکومت نے ورلڈ بینک کے چہیتے حفیظ شیخ کی تعیناتی کی بدولت کیا ’’رعائتیں‘‘ حاصل کیں۔ اگر اتوار کی رات طے ہوئی شرائط من وعن وہی ہیں جن کی مزاحمت نظر بظاہر اسد عمر کررہے تھے تو انہیں وزارتِ خزانہ کے منصب سے ہٹاکر حکومت کو کیا ملا۔ بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم اپنے ہی ایک وفادار اور تحریک انصاف کے دیرینہ رکن کے ذریعے عوام کو کڑوی گولی نگلنے کو مائل کرتے۔

حفیظ شیخ کی تعیناتی درحقیقت یہ پیغام دیتی ہے کہ آئی ایم ایف کو اعتبار نہیں تھا کہ اسدعمر ’’کڑوی گولی‘‘ واقعتا استعمال کرواپائیں گے۔اس گولی کو میرے اور آپ کے حلق میں زبردستی ٹھونسنے کے لئے ورلڈ بینک کے تربیت یافتہ حفیظ شیخ کی تعیناتی ضروری تھی۔ حکومت کی جانب سے انہیں ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کی تلقین ہوئی تو وہ اپنا بریف کیس اٹھاکر کابینہ سے رخصت ہوجائیں گے۔

آصف علی زرداری کے ساتھ بھی حفیظ شیخ صاحب نے ایسا ہی سلوک روا رکھا تھا۔تین سال تک وہ گیلانی حکومت کے طاقت ور ترین وزیر خزانہ رہے۔صدر اور وزیر اعظم کے دفترسے آئی ’’فریاد‘‘ کو نظرانداز کرتے رہے۔بالآخر جب معاملہ RGSTکے اطلاق تک پہنچا تو ایم کیو ایم اور پی ایم ایل (ن) کی جانب سے آئی مزاحمت سے گھبراگئے اور بریف کیس اٹھاکر کابینہ سے رخصت ہوگئے۔ اس بار شاید اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اگر IMF سے طے شدہ معاہدے کے اطلاق میں لیت ولعل سے کام لیا گیا تو ’’کسی اور‘‘ کو حکومت اور کابینہ سے رخصت ہونا پڑے گا۔ حفیظ شیخ کو نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).