المدثر ویلج: ایک سمند پار پاکستانی کا اپنے گاؤں کے معذور بچوں کے لیے تحفہ


‘میں نے اپنی ماں کو انتہائی اذیت ناک زندگی گزارتے دیکھا ہے۔ اُس وقت جب میرے پاس ایک پائی بھی نہیں تھی، میں نے یہ عہد کیا کہ اگر خدا نے مجھے توفیق دی تو میں ان جیسی بہت سی ماؤں کی زندگی آسان کرنے کا ذریعہ بنوں گا۔‘

یہ کہنا ہے اوورسیز پاکستانی مدثر حسین شاہ کا جو اپنے ٹرسٹ کے ذریعے بہت سی ماؤں کی زندگی میں کچھ سکون لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ان کی والدہ نے چند برس پہلے اس عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا جس کا وعدہ ان کے بیٹے نے بچپن میں اُن سے کیا تھا۔

صوبہ پنجاب کے گجرات ضلعے کی کھاریاں تحصیل میں داخل ہو کر چند ہی کلومیٹر بعد بہروال روڈ پر مڑیں تو ایک سرخ اینٹوں کی بلند و بالا عمارت آپ کی منتظر ہو گی۔

یہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات ہیں لیکن عمارت میں داخل ہوتے ہی آپ ایک نئی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔

ایک جانب چھوٹا سا چڑیا گھر ہے تو ایک طرف خوبصورت آبشار۔ کئی باغیچے، مسجد، دو ہاسٹلز اور درجنوں کمرے جبکہ ایک طرف زیر تعمیر یونیورسٹی اور دوسری جانب زیر تعمیر ہسپتال ہے۔

المدثر ویلج نامی یہ تعلیمی ادارہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے خصوصی بچوں کے لیے بنایا گیا ہے جنھیں یہاں مفت تعلیم اور رہائش دی جاتی ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جنھیں باہر کی دنیا پناہ دینے کو تیار نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

میرا بچہ اپاہج ہوتا ہے تو ہو جائے

بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کا گاؤں

‘اصل سزا اس معاشرے میں عورت کو ہی ملتی ہے‘

مدثر حسین شاہ

فرانس میں ایک کامیاب زندگی گزارنے والے مدثر حسین شاہ کو اپنے آبائی علاقے میں ایسے غریب سپیشل بچوں کے لیے ادارہ بنانے کا خیال آیا

اس ادارے کے قیام کے بارے میں بات کرتے ہوئے مدثر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ان کے چار بہن، بھائی مختلف جسمانی معذوریوں کے ساتھ پیدا ہوئے تھے اور ان بچوں میں وہ اپنے بہن بھائیوں کو دیکھتے ہیں اور جب مائیں آتی ہیں تو ان کے اندر ’میں اپنی ماں کو دیکھتا ہوں۔‘

’ہم نے اپنی ماں کو زندگی میں بہت امتحان میں دیکھا ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ میری والدہ کبھی کسی شادی بیاہ، کسی رشتہ دار کے گھر گئی ہوں۔ وہ ساری رات روتی رہتی تھیں کہ ان کے بعد ان کے بچوں کو کون سنبھالے گا’۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم آٹھ بہن بھائی تھے، جن میں سے دو ذہنی مریض تھے جبکہ ایک ہمشیرہ اور ایک بھائی نابینا تھے۔‘

مدثر حسین شاہ جوانی میں فرانس چلے گئے اور یوں یورپ میں مختلف کاروبار کرنے کے بعد انھوں نے اپنی کمائی المدثر ٹرسٹ نامی اس فلاحی مرکز کے قیام پر لگا دی۔

المدثر ٹرسٹ گذشتہ نو برس سے کام کر رہا ہے جبکہ اس کی تعمیر میں تقریباً گیارہ سال کا عرصہ لگا تھا۔ عطیات پر چلنے والے اس ادارے میں اس وقت پانچ سو سے زائد خصوصی بچے زیر تعلیم ہیں جنھیں مفت تعلیم اور رہائش دی جاتی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اسی ادارے کی دوسری شاخ میں 70 سے زیادہ خصوصی بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اس ادارے میں بینائی اور قوت سماعت و گویائی سے محروم بچوں کے علاوہ ذہنی امراض کا شکار بچوں کی بھی تعلیم و تربیت کا انتظام موجود ہے اور انھیں آسان ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں۔

المدثر ٹرسٹ

کھاریاں تحصیل میں داخل ہو کر چند ہی کلومیٹر بعد بہروال روڈ پر مڑیں تو ایک سرخ اینٹوں کی بلند و بالا عمارت آپ کی منتظر ہو گی

واضح رہے کہ پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق معذور افراد کی تعداد تقریبا دس لاکھ جبکہ غیر سرکاری اندازے کے مطابق کم از کم 30 لاکھ ہے جس میں 43 فیصد بچے ہیں۔ ان افراد کے لیے خاص طور پر سرکاری سطح پر سہولیات اور فلاحی سکیمیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

مدثر حسین کہتے ہیں کہ پاکستان میں خصوصی افراد کے حوالے سے آگاہی کی سخت ضرورت ہے۔ ‘یہاں خصوصی افراد بہت مشکل حالات میں رہ رہے ہیں، میں نے تو ایسے کیسز دیکھے ہیں جن میں ذہنی مریضوں کو باندھ کر رکھا ہوتا ہے۔ لوگوں کو شرم آتی ہے کسی کو یہ بتاتے ہوئے کہ ان کے گھر میں ایک معذوری کا شکار فرد بھی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس میں آخر شرم کی کیا بات ہے؟’

اُن کے مطابق اس معاملے میں عام طور پر سب سے بُرا رویہ مردوں یعنی ایسے بچوں کے والد کا ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ماؤں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ بچوں میں کسی بھی پیدائشی معذوری کی ذمہ دار انھیں جنم دینے والی ماں ہے، انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے اور یوں یہ مائیں ساری زندگی ٹھوکریں کھاتی ہیں۔‘

مدثر حسین کے مطابق ان کے فلاحی مرکز میں ‘ہر قسم کے والدین آتے ہیں، میں بڑے دکھ کے ساتھ بات کروں گا کہ ان میں سے زیادہ تر وہ مائیں آتی ہیں جو بہت تنگ ہوتی ہیں، جن کے خاوند ان کو گھر سے نکال دیتا ہے کہ اس عورت کے گھر میں معذور بچے پیدا ہوتے ہیں۔‘

نابینا بچے

مدثر بتاتے ہیں کہ انھوں نے ایسے کیسز دیکھے ہیں جن میں ’ذہنی مریضوں کو باندھ کر رکھا ہوتا ہے۔ لوگوں کو شرم آتی ہے کسی کو یہ بتاتے ہوئے کہ ان کے گھر میں ایک معذوری کا شکار فرد بھی ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ انھیں پاکستان میں کبھی اس کام میں مشکلات کا سامنا نہیں رہا۔ ‘میں نے یہ ادارہ تعمیر کروایا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ دنیا کے دھتکارے ہوئے یہ پھول جیسے بچے جب یہاں داخل ہوں تو انھیں یہ احساس ہو کہ وہ ہمارے لیے کتنے اہم ہیں۔ اب اس کا انتظام مخیر حضرات کے عطیات پر چلتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اب ان کے اس کام میں مختلف ادارے ان کی مدد کر رہے ہیں جنھوں نے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔

’کوئی ایک روپیہ بھی دے تو وہ بھی انھی بچوں کے کام آتا ہے۔ ہمارے ہاں مکمل چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہے، ان بچوں کے لیے آنے والی رقم کبھی کسی کی جیب میں نہیں جا سکتی’۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں عطیات میں کمی بھی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ادارے میں ہسپتال اور یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے وہ طویل مدت سے اس انتظار میں ہیں کہ انھیں سپانسرشپ ملے۔

‘پہلے تو ایک ٹرینڈ تھا یہاں بڑی بڑی کوٹھیاں بنی ہوئی ہیں، بیرون ملک مقیم پاکستانی یہاں بڑے بڑے مینشن تعمیر کراتے ہیں، لیکن وہ خالی پڑی ہیں۔ یہ ایک ‘ڈیڈ’ (بےسود) سرمایہ کاری ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سرمایہ کاری کریں (یعنی) آپ ایک بچے کو سپانسر کریں، ایک سپیشل بچے کو سپانسر کریں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp