حکومت تو آسان ہوتی ہے


ہم ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں وقت اور حالات ہمیشہ ایک سے رہے ہیں۔

ہم، ہم سے پہلے اور ہمارے بعد (خواہش ہے کہ ایسا نہ ہو) وہی قصہ درد، وہی صبحِ غلامی، وہی شامِ غریباں، وہی درد آشوب نغمے، وہی دل لبھاتے نعرے، بلندوبانگ دعوے، خواب در خواب، تعبیر کی جھوٹی تسلیاں، روٹی کپڑا اور مکان، میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے، وسطی ایشیا تک موٹر ویز کا جال بچھانے کا خواب، ووٹ کو عزت دو اور پھر جب آئے گا عمران، بنے گا نیا پاکستان ۔۔۔۔۔۔

المیہ یہ نہیں کہ پی ٹی آئی کی کارکردگی کچھ اچھی نہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سوں کے خوابوں کی تعبیر کھو رہی ہے، امید ٹوٹ رہی ہے، مساوات اور انصاف کے دعوے کھوکھلے لگ رہے ہیں۔

میرے منہ میں خاک ایسا ہو مگر امید کے لئے مثبت اپروچ اور مثبت ہونے کی لئے پیٹ بھرا ہونا ضروری ہے۔ خالی پیٹ انقلاب تو لا سکتا ہے، خواب نہیں۔

کیا تحریکِ انصاف کو اس کا احساس نہیں کہ رینگ رینگ کر چلنے والی سرکار کے وزیراعظم جب عوام کو بتاتے ہیں کہ حکومت کرنا آسان ہوتا ہے اور اپوزیشن مشکل تو ایک لمحے کے لئے اُن کا ووٹر یہ ضرور سوچتا ہو گا کہ کاش تحریک انصاف اپوزیشن میں ہی رہتی۔

نو ماہ تخلیق میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں مگر ان نو ماہ میں جنم لینے والی لاغر معیشت نے مقتدر حلقوں کو بھی الجھا دیا ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی ہو یا مشیرِ خزانہ کی تقرری، معاملات کلی طور پر کسی اور ہاتھ جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ’کور گروپ` میں پہلے ہی بے چینی بغاوت میں بدل رہی ہے کہ حکومتی اور جماعتی اختیار غیر منتخب اور خصوصاً پی ٹی آئی سے غیر متعلقہ افراد کے پاس ہے۔

وزیراعظم کا خاص کمال یہ ہے کہ وہ ناخوشگوار موسم میں نامناسب پچ پر بھی سنبھل کر میچ کھیلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں تاہم اب بات ٹیم وہاڑی، لاہور، فیصل آباد کے کرکٹرز کی نہیں بلکہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے سیاستدانوں کی ہے جن کو اپنے ووٹرز اور ’سپورٹر` دونوں کو خوش رکھنا ہے۔

ان میں سے بہت سے بجٹ کے دوران اپنے تحفظات کا اظہار پارلیمان کے پلیٹ فارم پر کر سکتے ہیں۔

انصافی وزیراعظم کو گھیر رہے ہیں کہ اگر عوام ناراض ہوئے تو ان کا سیاست کرنا دُوبھر ہو گا اور بات ’ورنہ` تک جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر کے لوگ اسد عمر کے گھر بھجوائے جانے سے بھی سخت خفا ہیں۔

دوسری جانب بلاول کی جارحانہ سیاست اور مریم کا ایک بار پھر بے باک انداز میں سیاسی آغاز انصافی حلقوں میں پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔

مریم نواز والد کو جیل تو چھوڑ آئی ہیں تاہم خود آزاد ہو گئی ہیں۔ پارٹی سے رابطے بحال کر رہی ہیں اور دھیرے دھیرے حکومتی پالیسیوں کو نشانہ بھی بنا رہی ہیں۔ ن لیگ کے اندر بڑی تعداد خصوصاً نوجوان اُن کی اس جارحانہ سیاست کے حامی ہیں البتہ اُن کا بیانیہ تاحال واپس نہیں آیا۔

شاید ہائیکورٹ میں لگی اُن کے خلاف اپیل کے فیصلے کے بعد وہ مزید متحرک ہو سکیں۔ مریم کی پارلیمانی سیاست کا آغاز البتہ آئندہ چند ماہ میں ہونے کا امکان ہے۔

حکومت کے خلاف ہلکی پھلکی موسیقی عید کے بعد اپوزیشن کی ایک منظم تحریک میں بدل سکتی ہے۔۔۔ ایسے میں اگر مریم نواز اور بلاول بھٹو کی ملاقات ہو گئی تو حالات کافی حد تک تبدیل ہوں گے۔۔

بظاہر عید کے بعد اپوزیشن کے پاس نئے نعرے اور دعوے ہوں گے مگر حکومت کا اصل چیلنج معیشت کو درست سمت لے جانا اور عوامی دباؤ کو انتشار میں بدلنے سے بچانا ہو گا۔ بڑھتی مہنگائی کے مارے عوام کو سڑکوں پر لانے کے لئے اپوزیشن کو کوئی خاص محنت نہیں کرنا پڑے گی تاہم اس غیظ و غضب کا شکار کون ہو گا یہ بھانپنا بہت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).