روحانیت گلے پڑنے والی ہے


روحانیت سے نابلد کچھ لوگوں کا ردعمل کپتان کے اعلان کے بارے میں بڑا جاہلانہ ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ سوہاوہ میں ”القادر“ نام کی جو یونیورسٹی بنائی جارہی ہے۔ وہ چرسیوں اور موالیوں کی آماجگاہ بنے گی اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ ذاتی مشاہدوں کی بنا پر یہ بات ازراہ بغض و تمسخر کہی جاسکتی ہے، مگر حقیقت نہیں۔ اور جو لوگ تلفظ کی غلطی کو مذاق بنارہے ہیں، اُن کو نہیں معلوم کہ کپتان روحانیت کو فرط جذبات میں رعونت بول سکتے ہیں مگر ان دونوں کے معنی اور مفہوم سے وہ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ رعونت کی گردن پکڑ کر روحانیت کی چوکھٹ پہ اُس کا ماتھا کیسے ٹکایا جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کسی بزرگ کی چوکھٹ بوسی ہے، جس نے کپتان کی توجہ درسگاہ کی جانب مبذول کی ہے۔

میرے خیال میں ”القادر “جیسی درسگاہ کے قیام میں پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے۔ اس کا سنگ بنیاد قیام پاکستان کے ساتھ ہی رکھا جانا چاہئے تھا، تاکہ اُن خود رو ”باباﺅں “کی افزائش روکی جا سکتی۔ جنہوں نے ہر آمر اور آمرانہ سوچ کی پشت پناہی میں نمایاں کردار سرانجام دیا۔ جن کی معجزاتی کہانیوں نے آئین شکنی جیسے جرائم کو کرشماتی کارنامے کا چوغہ پہنایا۔ جنہوں نے ہر آمر کی وردی کو ایسی خلعت میں بدل دیا کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ عہدوں سے بالاتر ہوکر امیر المومنین کے مرتبے پر فائز ہو گیا۔ اور اُس مرتبے کے ”شایان شان “ جو کچھ اُنہوں نے کیا، اُس کو درست ثابت کرنے کے لئے آج تک وہ کہانیاں بچے دے رہی ہیں۔ انقلاب کی طرف بڑھتی ہوئی بے چینیوں کو صبر و قناعت کی جو گولیاں کھلائی گئیں، وہ چرس اور بھنگ سے زیادہ پراثر تھیں۔ جن کا نشہ آج تک کسی نئے بیانیے کو سننے سے قاصر ہے۔

افسوس کہ ”القادر“ جیسی کوئی درسگاہ نہیں تھی جو ان ”باباﺅں“ کی کرامات پر ریسرچ کرتی کہ اُن کا روحانیت کے حقیقی معنی و مفہوم سے کیا تعلق ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ عشق حقیقی کے نام پر رہبانیت کی ایسی چادریں بانٹ رہے تھے، جس میں منہ چھپا کر حقیقت سے روگردانی کی جاتی رہی۔ ذکر و فکر کی وہ محفلیں کہیں سرکاری مراقبے تو نہیں تھے، جن میں ذلتوں کے مارے لوگوں کو رحمت و برکت کے انتظار پہ لگا دیا گیا، تاکہ وہ سرکار سے اپنا حق مانگنے کا کفر نہ کریں۔

میرے خیال میں ”القادر“ کی صورت میں کپتان نے اللہ اور رسول کے نام پر اپنی دکانیں چمکانے والوں کا پکا بندوبست کرنے کا سوچ لیا ہے۔ اُنہوں نے پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی روحانی سربراہی میں اُن تمام اولیا اور بزرگان کے افکار و کردار کو زندہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جو اصل میں دین رسول کے امین ہیں۔ اور اُس انقلاب کا تسلسل ہیں، جس کے لئے محسن انسانیت ﷺ تشریف لائے۔

روحانیت کو تسبیح و تعویذ تک محدود رکھنے والے نابلد اور کم فہم لوگوں کو علم نہیں کہ یہ سب ہستیاں اپنے اپنے دور کے عوامی رہنما تھے۔ یہ اپنے اپنے دور کے سلطانوں کے ظلم و ستم اور ناانصافیوں کے پیروں تلے روندے جانے والے مظلوموں کے نجات دہندہ تھے۔

آپ سرمد کو لے لیں۔ جسے اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ مذہب کے نام پر اپنے بھائیوں کے سر قلم کر کے اپنے تخت و تاج کو بچانے والے اورنگزیب عالمگیر کو للکارتا رہا۔ آپ خود سوچیں کہ کل اس درسگاہ سے کوئی طالب علم سرمد جیسی للکار لے کر باہر نکلا تو مذہب کے نام پر یرغمال بنانے والے طالع آزماﺅں کے راستے میں کتنی بڑی دیوار کھڑی ہوجائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اُس کی آمد سے ہمیں شدت پسندی کے خلاف وہ نیا بیانیہ مل جائے، جس کے لئے بار بار ہم سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں۔

آپ تصور کیجئے کہ کسی طالبعلم میں بابا بلھے شاہ کی انسان دوستی کی ایک رمق بھی آگئی تو لوگوں کو ورغلانے والے مذہبی ٹھیکیداروں کو کتنا بڑا چیلنج درپیش ہوجائے گا۔

آپ سوچئے، کوئی طالبعلم شہباز قلندر کے افکار کی دھمال ڈالتا ہوا اس یونیورسٹی سے باہر نکل آیا، تو مذہب اور قومیت سے بالاتر مظلوم اور محکوم لوگوں کا کتنا بڑا دائرہ اُس کے گرد بن جائے گا۔ خود کپتان کے اپنے کچھ جانثاروں کی آواز بیٹھ جائے گی، جو اس ملک کے شہریوں کو اقلیت کے نام پر شٹ اپ کال دے رہے ہیں۔

آپ ذرا غور کیجئے۔ اگر بابا فرید گنج شکرؒ کا نظریہ کہ ”روٹی دین کا چھٹا رکن ہے“ کتابوں سے نکل کر طاقت کے ایوانوں کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گیا، تو پھر یہاں کوئی بھی بندہ بے روزگاری اور مفلسی کی بھوک سے نہیں مرے گا۔

اور اگر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سُر سوہاوہ سے بلند ہوکر اسلام آباد کی سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں بجنے لگے، تو عورت کی عزت و تکریم فیمنزم کے جھوٹے نعروں سے نکل کر حقیقی صورت اختیار کرجائے گی۔ پھر اس قوم کی کسی سسی کے پاﺅں میں آبلے نہیں پڑیں گے۔ کسی ماروی پہ کوئی میلی آنکھ نہیں اٹھا سکے گا۔ کوئی مومل غیرت کے نام پر واری نہیں جائے گی۔

اور اگر کسی طالبعلم کے ہاتھ میں صوفی عنایت شاہ کی تلوار آگئی تو کسی جاگیردار یا اُس کے حواریوں میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ کسان، بزگر یا مزارعے کا استحصال کرے۔

اگر کوئی طالبعلم رحمن بابا کے افکار کا ترجمان بن گیا، تو انتہا پسندی کے کاندھے پہ بندوق رکھ کر امن و محبت کو پامال کردینے والی قوتوں کی آواز دب جائے گی۔

اور تواور اگر اُس درسگاہ میں پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال کے افکار کی حقیقی معنوں میں تشریح ہو گئی تو پاکستانیوں کو اُس نیند سے جاگنے میں دیر نہیں لگے گی، جن کو اقبال ہی کی شاعری کا ایک مخصوص لہجہ سنا کر سلایا گیا ہے۔

مضمون کی طوالت اور اپنی کم علمی کے باعث میں اُن تمام ہستیوں کا احاطہ نہیں کر پایا، جو اس سرزمین کے چپے چپے میں حق، سچائی، انصاف، رواداری اور برابری کی آوازوں کی صورت میں مدفون ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کے بادشاہوں، حکمرانوں اور سلطانوں کو للکارا تھا۔ اُن کی مدح سرائی نہیں کی تھی۔ وہ کنگز کے خلاف لڑنے والے انقلابی اور نجات دہندہ تھے، کنگز میکر نہیں تھے۔ اسی لئے آج بھی اُن کے مزاروں پہ مفلس و نادار، مظلوم و محکوم اور بے بس و لاچار لوگ اپنی داد و فریاد لے کر آتے ہیں۔

جو لوگ ”القادر “ یونیورسٹی کو مذاق سمجھ رہے ہیں، وہ سنجیدہ ہو جائیں۔ اور نہایت ادب کے ساتھ یہی مشورہ میں کپتان صاحب کو بھی دینا چاہتا ہوں۔ کہ اگر وہ بھی روحانیت کو صرف تجلیات اور معجزات کی سپر سائنس کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ روحانیت کی سپر سائنس سے سوشل اور پولیٹیکل سائنس کی شاخیں بھی نکلتی ہیں۔ اور وہ حزب اختلاف کے کسی کمزور لیڈر کی طرح صرف لفاظی نہیں کرتیں۔ وہ انقلاب کے تمام تر لوازمات کو پورا کرتے ہوئے پورے سسٹم کو لپیٹ دیتی ہیں۔ اس لئے وہ ”القادر“ بنانے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ روحانیت گلے ہی نہ پڑ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).