چار درویش اور ایک کچھوا


لڑکا کتابوں کی دکان میں داخل ہوا اور دکاندار سے کہنے لگا، کھچوے پر کوئی کتاب موجود ہے؟ دوکاندار نے نیچے کیبن میں کئی کتابیں کھنگالنے کے بعد سر اٹھا کر پوچھا، ”ہارڈ بیک آر پیپر بیک“؟ لڑکے نے سمجھتے نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا، ”آف کورس ہارڈ بیک ود فور کیوٹ لٹل لیگز“۔ اس کو مطلوبہ کتاب مہیا کی گئی تو میری باری آئی۔ عرض کیا حضور مجھے بھی وہ کھچوے والی کتاب دیجیے۔ دکاندار نے شرارتاَ مسکرا کو پوچھا، ”کیا آپ کو بھی چار ٹانگوں والا کھچوا چاہیے“؟ عرض کیا نہیں مجھے چار درویشوں والا کچھوا درکار ہے۔ یوں کاشف رضا کی کتاب لے آیا۔

سید کاشف رضا کا ناول پڑھنے کے بعد جو پہلا تاثر قائم ہوا، اس پس منظر میں کہ ادب کا کوئی بھی بڑا شہ پارہ کسی کائناتی موضوع سے کتنا متعلق ہے؟ دو چیزیں سامنے آئیں۔ کاشف نے ’سچائی کو دیکھنے کا مختلف تناظر اور اس سے سچائی کی بدلتی صورت‘ اور ’جنس‘ کو موضوع بنایا ہے۔ یہ دونوں بڑے موضوعات ہیں۔ جہاں تک سچائی کو دیکھنے کے تناظر کی بات ہے تو اس باب میں کاشف سے اختلاف یا اتفاق رکھنا اصولاَ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔

 دونوں صورتوں میں، چاہے مجھے یا کسی کو اور قاری کو کاشف سے اختلاف ہو یا اتفاق ہو، چونکہ سچائی اپنی تمام معروضیت کے باوجود بھی موضوعی ہوتی ہے۔ اس لئے دو تین چار افراد کا کسی سچائی پر متفق ہو جانا اسے مطلق سچائی قرار نہیں دیتا۔ تاہم کاشف نے اس موضوع کو باریکی سے بار بار بیان کرنے سے یہ کامیابی تو حاصل کر لی کہ قاری سچائی کے مختلف پرتو دیکھ سکے۔ جہاں تک جنس کا تعلق ہے تو یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ فیس بک تبصروں سے میرا تاثر یہ بنا تھا کہ کاشف نے جنس کو موضوع بنایا ہو گا۔

 جنس کو موضوع بنانے سے میری مراد جنسیات کے عمومی علم میں کسی نظریے سے اتفاق یا اختلاف کر کے ایک نیا نظریہ یا کم ازکم نکتہ نظر پیش کرنا ہے۔ کیونکہ علم کے مجموعی سفر کا راستہ بہرحال یہی ہے۔ آپ کسی نظریے یا فکر پر تحقیق کر کے اسے مزید نتائج پیدا کرنے کے لئے آگے بڑھاتے ہیں یوں علم اپنی ارتقا میں تخلیقی ہوتا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں آپ کسی نظریے یا فکر کو رد کر کے اس کے مقابلے میں نیا نظریہ یا فکر پیش کرتے ہیں۔

 یوں علم کی نئی جہتوں کا آغاز ہوتا چلا جاتا ہے۔ کاشف رضا جنس کو اس کی epistemology یا اس کی ontology سے کم دیکھتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے جنس کے عمومی نظریات (ان سے اتفاق اور اختلاف سے بالکل پرے ) پر بہت کم بحث کی ہے بلکہ جنس کو جنسی عمل سے عمومیت میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ راوی کے اپنے بیان یا ارشمیدس کے چند جملوں کے علاوہ جنس کی بحث جنسی عمل کے پس منظر میں ہی مخصوص انداز میں چلتی جاتی ہے اور قاری کو مجبور کرتی ہے کہ وہ جنس کو جنسی عمل کی جانب جانے والے واقعات کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے اپنا نکتہ نظر خود طے کرے۔

میرا خیال ہے یہاں کاشف سے اختلاف بنتا ہے۔ موجودہ دور میں فرد کو درپیش وجودی بحرانوں میں سے جنس کا سوال پرائمری کی بجائے بہت ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اور خود جنس کا سوال بہت پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اب جنس کا سوال صرف جینڈر بائنریز کے درمیان نہیں رہا بلکہ اس میں کئی اور جہتیں وقوع پذیر ہو چکی ہیں، جس نے جنس کے معاملات کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ خود بائنری سطح پر پوسٹ ماڈرن پرسپیکٹیو اور فیمنزم کی تحریک نے جینڈر بائنریز کے درمیان قائم پرانے جنسی تعلق میں دونوں کے کردار کو زسر نو ترتیب دینے کا مطالبہ شامل ہو چکا ہے۔

 اس مطالبے نے جنسی معاملہ کو اب ایسا چھوڑا نہیں جیسے کہانی میں چل رہا ہے یا جیسے عموماَ روایتی سماج میں پایا جاتا ہے۔ پورن انڈسٹری، جنسی آلات کی صنعتی پیداوار، جنس عمل کی خود کفالت، فرد کی آزادی، گے رائٹس اورجنس کے ساتھ معاشی صنعت کے جڑنے نے جنس کے تناظر کو یکسر بدل دیا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ سماج اب جنس کے معاملے میں خاندان کی شرط سے آزاد ہو چکا ہے اور یا کم ازکم اس کا وجودی سطح پر مطالبہ یہی بن چکا ہے۔

 جنس اپنے ابتدائی تاریخ میں تو صرف بقا سے جڑا تھا۔ اس کے بعد جب انسان کا تہذیب سے تعلق بنا تو جنس کا تعلق آسودگی اور خوشی کے بہت قریبی تجربے کے بعد بنیادی طور پر خاندان کا ارادہ قائم کرنے کے لئے تھا۔ مانع حمل تحقیق نے جنس کے سوال بدل دیا۔ اب جنس اور اولاد یا خاندان کا آغاز بالکل دو الگ الگ موضوعات ہیں۔ ایسے میں اگر کاشف رضا کے کردار جنس کی عمومی بائنریز میں رہ کر جنسی عمل کے دوران ایک ناجائز بچے کی پیدائش (بالا) جیسے پرانے کلیشے کو لے کرجنس کے جدید موضوعات پر کسی کائناتی تناظر کے خواہاں ہیں تو میرا خیال ہے کاشف رضا یہاں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یوں یہ ناول کوئی کائناتی تناظر قائم کرنے یا اس میں کوئی قابل ذکر حصہ ڈالنے میں شاید کامیاب نہ ہو سکے۔ بطور قاری میں اسے کوئی بڑا ناول قرار دینے میں بخل سے کام لینے پر مجبور ہوں۔

جہاں تک ناول کے تیکنیک کی بات ہے تو میرا خیال ہے نئے قارئین یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ صرف اردو فکشن سے واقف قارئین کے لئے کاشف رضا کا ڈکشن بہت دلچسپ ثابت ہو گا۔ جدید عالمی فکشن میں ناول کے صنف نے غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ اس نے عملاَ شاعری، ڈرامہ، ریڈیو حتی کہ سینما تک کو اعداد و شمار کے پیمانے میں شکست سے دو چار کیا ہے۔ اس شہرت نے ناول کے نہ صرف موضوعات کی ورائٹی بڑھائی ہے بلکہ ڈکشن کے ساتھ نت نئے اور کامیاب تجرباتکیے گئے۔

 ناول اپنے روایتی ہمہ داں راوی (omniscient narrator)، یا ضمیر متکلم (First۔ Person Narration)کے پس منظر سے بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ جیمز جوائس کے stream۔ of۔ consciousness کی تکنیک نے ناول کی ڈکشن میں بلاشبہ ایک انقلاب برپا کیا۔ مختصر کہانیوں میں بورخیس نے بھی اس طرز میں لازوال تخلیقات کی ہیں۔ یوں ڈکشن کے لئے میدان کھل گیا۔ اردو میں stream۔ of۔ consciousness کی تیکنیک اگر میں غلط نہیں یا کم از کم میری معلومات کی حد تک صرف مرزا اطہر بیگ نے استعمال کی ہے بلکہ مرزا صاحب نے اس کے سٹرکچر کو مزید توڑتے ہوئے کہانی میں بطور ناول نگار باقاعدہ مداخلت بھی کی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah