پاکستان نہیں بدلے گا


عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی زبان ہے۔ وہ ان کے قابو میں نہیں ہوتی۔ کبھی پھسل جاتی ہے، کبھی بے دھڑک دعوے کر جاتی ہے۔ ان کے ہمدرد اور پیروکار بعد میں ان کی زبان کی پھسلن کا تو دفاع کرتے ہیں مگر ان کے بلندوبانگ دعویٰ جات کا دفاع کرنا ان کے لئے ممکن نہیں رہا۔ اب ان کے جاں نثار اور وفادار کارکنوں کی تان پچھلے ستر سالہ گند پر ٹوٹتی ہے۔ پاکستان کا ہر وہ شہری جس کو اخبار پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے سے شغف ہے اس کے لئے یہ جملہ نیا نہیں۔ پاکستان کی تاریخ کو جہاں سے دل کرے وہاں سے شروع کر لیں۔ ہر آنے والی حکومت نے اپنے پیش رو حکمرانوں سے متعلق اسی طرح کے انکشافات کئے ہیں۔

میری اور آپ کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ یہاں کسی حکمران کی ترجیح ہم عوام کبھی نہیں رہے۔ ہر کسی نے جانے والے کا سیاپا کیا، اپنی مجبوریوں کی طویل فہرست سنائی اور خالی قومی خزانے کا نوحہ پڑھا۔ کسی بھی ایک حکمران نے عام آدمی کی قوت خرید بڑھانے اور غربت کے خاتمے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ وہ سارے مسائل جن میں ہم گھرے ہوئے ہیں ان کا تدارک صرف ایک ہنر یا صلاحیت میں پوشیدہ ہے اور وہ ہے پیداواری صلاحیت۔ اس صلاحیت کے براہ راست تعلق تعلیم سے ہے۔ تعلیم ہوگی تو ہنر ہاتھ میں آتا ہے، ہنر ہو تو انسان دوسروں کی مجبوری بنتا ہے، یہ ہنر سائیکل کو پنکچر لگانے سے گوگل جیسی کمپنی بنانے تک انسان کے ہاتھ سے معجزے کرواتا ہے۔ لیکن ہمیں وقت کے جغادریوں نے ہمیشہ اسی خوف میں مبتلا رکھا بھارت اب آیا کہ اب آیا۔ اسرائیل اور امریکہ پاکستان کو ختم کرنے کے سازشوں کے تانے بانے بن رہا ہے۔ وجہ پوچھو تو کہا جاتا ہے۔۔۔ کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا۔۔۔ اس تھا کے آگے ہزار من گھڑت کہانیاں ہیں جو محراب و منبر سے ناکے تک ہمیں سنائی جاتی ہیں۔ ہمیں بھی یہ کہانیاں لبھاتی ہیں، یہ وہ فکری دغا بازی کی افیون ہے جس کی لت ہمیں پڑ چکی ہے۔

جمہوریت نوازی اور آمریت سے بیزاری کو ایک طرف رکھتے ہوئے پاکستان کے معروف حکمرانوں کے ادوار کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ کونسا حکمران تھا جس نے تعلیم اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کی پالیسی اختیار کی ہو۔ اول تو کوئی بھی نہیں اور اگر کسی نے کی بھی تھی تو محض جعلسازی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ نئی روشنی سکول اورمسجد مدرسہ پالیسی اتنی سطحی تھی کہ افسر شاہی نے اسے مذاق سے اہمیت نہیں دی۔ ایوب خان سے شروع کرتے ہیں۔ ہمارے سادہ لوح بزرگ اس دور کو یاد کرتے ہیں۔ یہ ایوب خان کی حکومت کی فنکارانہ صلاحیت تھی کہ اس نے دریا فروخت کئے، پاکستان کو قرض لینے کی راہ پر ڈالا، کچھ ڈیم بنائے اور کچھ صنعتیں لگائیں۔ اور صنعتوں کے لئے من پسند افراد کی ریاستی سطح پر مدد کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں صنعت پھیلنے کے بجائے بائیس خاندان پھل پھول گئے۔ مگر صنعت کاری کا رجحان چل نکلا، گوجرانوالہ سے کراچی تک آج بھی جو بچھی کچھی صنعت ہے وہ ایوب خان کی صنعت کاری کی پالیسی کا ہی ثمر ہے۔ ایوب دور میں جو پیسہ پاکستان میں آیا اگرچہ وہ ورلڈ بنک کا دیا ہوا قرض ہی تھا مگر وہ بھی دراصل امریکی عنایت تھی جو ہمیں روس کے خلاف امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے نصیب ہوئی۔

جنرل یحیی کا دور سیاسی منافقتوں کا دور تھا۔ اس دور میں ملک ٹوٹا تھا اس دور میں تعمیر کا سوال کرنا بذات خود مذاق ہے۔ بھٹو نے نجی ملکیت کے خلاف پالیسی بنائی، ادارے قومیا لئے مگر لوگوں میں احساس ذمہ داری نہ پیدا کی جا سکا۔ نتیجہ زوال نکلا۔ وہ بڑی صنعتیں جو روزگار دے رہی تھی وقت کے ساتھ ساتھ ٹھپ ہوتی گئیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان کی آسمانوں سے مدد ہوئی۔ روس افغانستان آیا اور ہمارے بھاگ کھل گئے۔ پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل تھی مگریاد رہے یہ ریل پیل بھی قرضوں اور گرانٹوں کی مد میں تھی۔ یہ بحث الگ ہے کہ ان ڈالروں نے پاکستان میں کتنا بارود بویا۔ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے مجموعی اداور میں چونکہ پاکستان میں ڈالر آنا رک چکے تھے۔ سو قرض خوری بڑھی۔ بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگے اور موٹر وے بنی۔ موٹر وے بننے اور کارخانے لگنے کےبعد پاکستانیوں نے بجلی پیدا کرنے اور اچھی سڑکیں بنانے کا فن سیکھا۔ مگر یہ کام جو سیکھا گیا محض نقل کی حد تک تھا اس میں ہم جدت نہیں لاسکے،

پرویز مشرف سے عمران خان تک کی حکومت کا دورانیہ بیس سال ہے۔ ان بیس سالوں میں ہم نے صرف قرض لئے ہیں۔ لوگوں کی صلاحیت بڑھانے پاکستان کو پیداواری ملک بنانے کی طرف ہم نے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ عمران خان جو پاکستان تبدیل کرنے آئے تو وہ حکومت میں آنے سے پہلے ہی پرانے پاکستان کے نظام میں جکڑے جا چکے تھے اور ایسا انہوں نے بصد شوق کیا۔ وہ پرانے پاکستان کے نظام کا حصہ نہ بنتے تو وزیراعظم بننے کی ان کی خواہش کبھی پوری نہ ہوتی۔ سو خوش فہمیوں کو دل سے نکال باہر کریں۔ کچھ نہیں بدلے گا، وہی قرض لینے والی عادت ہوگی، وہی عالمی ساہوکار اور وہی حسرتوں کے جنازے روزاٹھیں گے۔ نہیں بدلے گا پاکستان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).