وہ برقعے والی لڑکی کون تھی؟


یوں تو اس دن موسم گرم ہی تھا۔ او پی ڈی میں میں کوئی تیس چالیس مریض گھسے ہوئے تھے اور بغیر نمبر کے ایک دوسرے سے پہلے میری کرسی تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کمرے میں گھٹن اور حبس بڑھتے جا رہے تھے۔ یہ اوائل جون کے دن تھے۔ میرا انہی دنوں پبلک سروس کمیشن پاس ہوا تھا اور اس دیہاتی علاقے میں بطور میڈیکل افسر میری پہلی پوسٹنگ تھی۔

وہ خاتون کافی دیر سے میری کرسی پکڑے کھڑی تھی۔ وہ ٹوپی والے برقعے میں ملبوس تھی۔ میں نے اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔ کہنے لگی میری چھاتی میں درد ہوتا ہے اور پھر میرے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ میرا سانس پھولنے لگتا ہے۔ آپ مجھے اچھی طرح چیک کریں۔ آواز سے وہ نوجوان لگتی تھی۔ میں نے اس کی نبض دیکھی۔ وہ معمول سے تیز تھی۔ میں نے سٹیتھوسکوپ اس کی چھاتی پر رکھ کر دل کی دھڑکن سننا چاہی۔ اچانک اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی ننگی چھاتی پر زور سے دبایا۔

یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ میں بوکھلا گیا۔ اس نے برقعے کے نیچے قمیص نہیں پہنی ہوئی تھی۔ مجھے ایسے لگا جیسے میرا ہاتھ کسی نوکدار پہاڑی چٹان سے ٹکرایا ہو۔ ایسے لگ رہاتھا جیسے میری ہتھیلی میں سوراخ ہو گیا ہو۔ وہ مخروتی چٹان نہیں تھی ایک سانپ کا پھن تھا جس نے میری ہتھیلی کو کاٹ کھایا تھا۔ اس سانپ کا زہر میری ہتھیلی سے بازو میں ہوتا ہوا پورے جسم میں سرایت کر گیا تھا۔ میری پیشانی پسینے سے بھر گئی تھی۔ دل کی دھڑکن تھی کہ شمار سے باہر تھی۔ زبان سوکھ کر کانٹا ہوگئی اور اس میں صدیوں کی پیاس بھر گئی۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا گہرا ہوتا چلا گیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے میں گہرے کنویں میں ڈوب رہا ہوں۔ میں ڈوبتا چلا گیا۔

ہوش آیا تو اپنے آپ کو سٹریچر پر لیٹے پایا۔ میرا سینئر میڈیکل افسر میرے سرہانے کھڑا میرے دل کی دھڑکن سن رہا تھا۔ اس نے مجھے ڈرپ لگوادی تھی۔ شاید کوئی انجکشن بھی لگائے ہوں۔ میرا چپڑاسی مجھے پنکھا کر رہا تھا۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر ڈاکٹر کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ اس نے مجھے تسلی دی اور بتایا کہ آپ کو شاید شدید گرمی کی وجہ سے ڈی ہائیڈریشن ہوگئی تھی جو ویزو واگل ریکشن کا باعث بنی۔ پھر بھی احتیاطاًاپنا ایکس رے اور ای سی جی کروا لو۔

اس گاؤں میں لڑکیوں سے لے کر بوڑھی عورتیں تک ٹوپی والا برقعہ لیتی تھیں۔ برقعوں کا ہجوم تھا مگر مجھے صرف ایک برقعے کی تلاش تھی۔ اس برقعے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں لپٹی ایک حسینہ تھی اور اس کی تنی ہوئی چھاتی۔ اس چھاتی کی مجھے تلاش تھی۔ میں اسے پھر سے چھونا چاہتا تھا۔ اس بار میں حوش و حواس میں اس لمس کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔ میں پھر سے ڈسا جانا چاہتا تھا۔ اس زہر کا قطرہ قطرہ اپنے جسم کے لویں لویں تک لے جانا چاہتا تھا۔ میں پھر سے بے ہوش ہونا چاہتا تھا۔

میری خواہش نا تمام ہی رہی، دوماہ گزر گئے۔ اسی تجسس میں وہ دو بہنیں یا یوں کہیے دو برقعے میری زندگی میں داخل ہوئے۔ شہناز اور مہناز جڑواں بہنیں تھیں۔ ان کی مترنم آواز کیا تھی جادو تھا جو کانوں سے ہوتا ہوا روح میں اتر جاتا تھا۔ دونوں ایک طرح کا لباس پہنتی تھیں۔ ان کے گورے ہاتھوں کی لمبی مخروتی انگلیاں ایک جیسی تھیں۔ مجھے شک پڑا کہ میں جس حسینہ کا متلاشی ہوں وہ انہی میں سے ہے۔

شہناز کو بخار تھا اور وہ شام کو گھر پر چیک کرانے آئی تھی۔ اس دیہاتی علاقے میں یہ خیال عام تھا کہ ڈاکٹر کو شام کے وقت گھر پر چیک کرانا زیادہ بہتر ہوتا ہوتا ہے کہ ہسپتال میں ڈاکٹر صحیح چیک نہیں کرتے۔ تین چار دن وہ دونوں آتی رہیں۔ میں غور سے ان کی آواز سنتا اور اس آواز کا موازنہ اس حسینہ کی آواز سے کرتا۔ کبھی مجھے لگتا یہ وہی ہے کبھی لگتا نہیں یہ کوئی اور ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوتا جیسے وہ میرے دل و دماغ کو پوری طح سے جکڑے بیٹھی ہو۔ اس کی تلاش میری مجبوری میری کمزوری بن چکی تھی۔ میں ہر برقعے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا۔

ایک ہفتے بعد وہ دونوں پھر آئیں۔ اس بار مہناز کے سر میں درد تھا۔ وہ میرے لئے رات کا کھانا لے کر آئی تھیں۔ ان دونوں کا آنا جانا بڑھتا گیا۔ وہ دونوں پڑھی لکھی لڑ کیاں تھیں۔ زمیندار گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ سلجھی گفتگو کرتی تھیں اور تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کو آگے بڑھاتی تھیں۔ ہر بار وہ میرے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آتیں۔ میری بھی آہستہ آہستہ ان میں دلچسپی بڑھتی جارہی تھی۔ ایک دن بالآخر وہ موقع آگیا جس کا مجھے انتظار تھا۔

اس دن شھناز اکیلی آئی تھی۔ میرے دل کی دھڑکن خود۔ بخود تیز ہوتی جا رہی تھی۔ آج اس کی آواز پہلے سے کہیں زیادہ مترنم تھی اور اس کے ہاتھوں کی گوری انگلیاں پہلے سے زیادہ سڈول۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس کے ہاتھوں سے بھینی بھین خوشبو آرہی تھی۔ میں نے اس کے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوا۔ اس ہاتھ کو چوما اور کافی دیر لبوں سے لگائے رکھا۔ وہ خاموش رہی۔ اس نے کوئی بات نہیں کی۔ نہ اس نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا نہ میرے قریب آئی۔

میں نے اس سے محبت کی قسم کھائی۔ وہ تمام جھوٹی باتیں کیں جو ہر مرد اپنی محبوبہ کا دل جیتنے کے لئے کرتا ہے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی خاموشی اس کا اقرار تھا یا وہ احتراماً خاموش تھی۔ میری خواہش تھی کہ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتی پر رکھے۔ میں اس سڈول تنی ہوئی چھاتی کا لمس محسوس کرنا چاہتا تھا جس نے میرے دل و دماغ پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ یہ خواہش تو پوری نہ ہوئی۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور چلی گئی۔ اس کی خاموشی دل میں مچلے طوفانوں کو اور بڑھاوا دے گئی۔ ناتمام خواہشیں اور زیادہ مچلنے لگیں۔ کشمکش بڑھ گئی۔ بے چینی میں اضافہ ہوا۔ وہ قریب آکے مزید دور ہو گئی تھی۔

ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ مہناز آگئی۔  وہ بھی اکیلی۔ اس نے ذرا تیز فرفیوم لگایا ہوا تھا جس کی خوشبو پورے کمرے کو معطر کیے ہوئے تھی۔ اس کا حسن بھی برقعے کی قید میں مبحوس تھا۔ اس کے گورے ہاتھ آزاد تھے۔ ان ہاتھوں کی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے انہیں تھام لیا۔ جذبات سے عاری ان ہاتھوں کو تھام کر میں محبت کے گیت گاتا رہا۔ وہی جھوٹ بولتا رہا جو شہناز سے بولا تھا۔ اس نے نہ ہاتھ کھینچا نہ تھاما۔ میری حسرتیں تمام ہوئیں۔ وہ برقعے مجھے ہوا میں معلق کر گئے۔ اس کے جانے کا مجھے علم ہی نہ ہوسکا۔ وہ ہوا کے دوش آئی تھی ویسے ہی چلی گئی۔

وہ معمہ حل ہونا تھا نہ ہوا۔ کتنے ہی برقعوں کے اندر میں نے سٹیتھوسکوپ لگا کر دیکھی۔ ہر دھڑکن ایک جیسی۔ ہر لمس ایک جیسا۔ پسینے کی بدبو سے تر وہ چھاتیاں میری تلاش نہ تھیں۔ شہناز اور مہناز نے بھی آنا چھوڑ دیا تھا۔ کوئی ایک ماہ کے بعد ایک دن وہ دونوں آگئیں۔ ان کے ہاتھوں پہ مہندی رچی ہوئی تھی جس کی میٹھی خوشبو خاصی بھلی لگ رہی تھی۔ آج ان کا جنم دن تھا اور وہ کیک ساتھ لے کر آئی تھیں۔ ہم نے ان کی سالگرہ کا کیک کاٹا۔

آج دونوں نے اپنا حسن طشت از بام کردیا تھا۔ برقعے کی قید سے آزاد۔ وہ دونوں بہت خوبصورت تھیں۔ شہناز نے بولنے میں پہل کی۔ کہنے لگی آپ آج فیصلہ کریں ہم دونوں میں سے آپ کس کو چاہتے ہیں۔ وہ سوال آسان تھا مگر اس کا جواب بہت مشکل۔ میں نے اقرار کیا کہ میں دونوں کو چاہتا ہوں۔ لیکن ہم سگی بہنیں ہیں آپ کو کسی ایک سے پیار کرنا ہوگا۔ میں فیصلہ نہیں کر پایا۔ میں فیصلہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ فیصلہ کن موڑ تک پہنچ چکی تھیں۔ وہ موڑ مڑ گئیں۔

میرا پوسٹ گریجوئیٹ ایڈمشن ہوا تو لاہور چلا آیا۔ چار سالہ ٹریننگ کے بعد شیخ زائد ہسپتال میں پوسٹنگ ہو گئی۔ یہیں نسرین سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ دراز قد خوش جمال و خوش اطوار لڑکی تھی۔ اس کی گھنی سیاہ لمبی زلفیں اسے دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ کالج میں لیکچرر تھی۔ خوبصورت باتیں کرتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں حددرجہ اپنائیت تھی۔

ایک دن جب ہم بہت ہی خوشگوار موڈ میں تھے، اس نے چہکتے ہوئے کہا ”میرے دل کی دھڑکن اتنی تیز کیوں ہو جاتی ہے؟ ذرا سنو تو۔“ اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر زور سے اپنی تنی ہوئی چھاتی کے ساتھ لگا دیا۔ اف میرے خدا! میں یہ لمس زندگی میں دوسری بار محسوس کر رہا تھا میں نے حیرت و استعجاب میں ڈوبے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ بولی ”آپ کو تلاش کرتے دس سال لگائے ہیں۔ اب مزید انتظار مشکل ہے۔“ بے اختیار میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور گلے سے لگا لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).