ایک دن ماں کا


تین چار دن سے فیس بک پر رولا پڑا ہوا ہے ہر کسی کو اپنی ماں سے محبت ٹوٹ ٹوٹ کر جاگ رہی ہے۔ خیر ہم کون سے مولوی ہیں جو فتویٰ لگائیں گے بلکہ ماں تو ایسی ہستی ہے جسے خراج دینے کے لئے کسی وقت، کسی لمحے یا دن کی کوئی قید نہیں۔ پھر صرف ایک دن کیوں ماں کی تصویریں لگاکے اپنی عقیدت پیش کی جائے؟ ماں نے تو ہمارے ہونے کے احساس کو نو مہینے خود میں رکھ کر لمحہ لمحہ، پل پل جیا تھا۔ پھر جس تکلیف سے وہ ہمیں اس دنیا میں لاتی ہے کیا اس کی قدر فیس بک پہ ہوسکتی ہے۔ نہیں۔ ہر لمحہ ماں کا ہے کہ ہم اس کے پر توہیں۔ جو اس نے ہمیں دیا آج ہم وہ دنیا کو لوٹارہے ہیں۔

اور ماں کو خراج بھی اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ اسے ہم پہ فخر ہو کیونکہ محبت تو ہر ماں کی جبلی کیفیت ہے۔ عمران خان کی ماں کینسر سے مر گئی تو اس نے کینسر ہسپتال بنوادیا۔ یہ ہے خراج۔ نپولین نے کہا کہ مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی نسلیں دوں گا۔ امید ہے کہ نپولین نے ہی کہا ہوگا۔ اف یہ یادداشت۔

کیا آج ہم خود اچھی مائیں ہیں۔ کیا ہم اپنے بچوں کو واقعی وہ کردار، اخلاقیات دے رہی ہیں کہ کل کو ہمیں بھی اصل خراج مل سکے۔ یا پھر بس خالی سوشل میڈیا والا خراج ہی ہمارا نصب العین ہے۔ میں روز اپنا محاسبہ کرتی ہوں اور روز مجھے خود میں بہت سی کمیاں محسوس ہوتی ہیں۔ بچہ ہمارے پاس سلیٹ کی مانند ہوتا ہے ہمیں اس پہ سب لکھنا ہوتا ہے درحقیقت یہ سلیٹ ہماری آزمائش ہے۔ ہمیں بچوں کو مشکل اور مضبوط راستے پر چلنا سکھانا ہوتا ہے اس کی بقا کے لئے مگر بحیثیت ماں اپنی نرمی سے مجبور ہوجاتی ہیں۔ بس یہی ماں کی اصل ہییت ہے نرمی۔ کبھی گرم کبھی چھاؤں۔

میں نے فیس بک پہ ماں کے لئے کوئی پوسٹ نہیں لگائی اس لئے نہیں کہ میں اس سب کے خلاف ہوں بلکہ مجھے لگاکہ میں اپنی ماں کے بارے میں چند الفاظ میں لکھ ہی نہیں سکتی۔ اور مجھے یہ بھی لگا کہ میں تو ہر روز دن میں کئی بار ان کے بارے میں سوچتی ہوں پھر اس دن میں ایسا کیا خاص ہے؟ میں نے کون سا سال میں صرف ایک بار سوچناہے ان کے بارے میں۔

میری ماں میری زندگی کی سب سے مضبوط، صابر، سب کو معاف کردینے والی ایک سیدھی سادی سی خاتون ہیں۔ خدا نے حسن بھی حددرجہ دیا سو اک بار نگاہ پڑے تو ہٹتی نہیں سب کی خدمت میں دن رات مگن، ان کو بننا سنورنا آتا ہی نہیں نہ ہی کبھی ضرورت رہی انھیں۔ سب کو پیار دینے والی شفیق ہستی ”“ میں اپنے بھائی سے بولتی ہوں ایک تو امی کو بنے بنائے رشتے مل جاتے ہیں کوئی ان کی بیٹی بن جاتی ہے تو کسی کی یہ بیٹی بن جاتی ہیں۔ ہمیں تو کوئی آنٹی نہیں ملتی ایسی ادھر۔

ہر بیٹی بہادری کا سبق اپنی ماں سے ہی لیتی ہے اور دنیا کو اس کے ہی انداز میں برتتی ہے۔ امی کے اندر خداترسی کا جذبہ ہم سب بہن بھاؤٔں میں اتنی ہی شدت سے آیا۔ سادگی، صاف گوئی، اور کسی کے لئے بھی دل میں کدورت نہ رکھنا یہ تمام خوبیاں انہی کی ہیں۔ جو ہم میں بھی در آئیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ میری ماں بہت سادہ طبیعت خاتون ہیں انھیں آج تک دنیا کی چالاکیاں ہوشیاریاں نہیں آسکیں اور میں ان کا پرتو دنیا سے خود کو دور رکھتی ہوں اس لئے نہیں کہ مجھے کسی سے کوئی شکایت یا مسئلہ ہے بلکہ اس لئے کہ ہم دنیا کے انتہائی چالاک اور دوغلے معیار پر پورا نہیں اترتے سو خود کو تکلیف میں ڈالنے سے بہتر یہی لگتا ہے کہ سب کے ساتھ خوش اسلوبی سے ایک حد قائم رکھی جائے۔

آج جس بھی مقام پہ ہوں چند لوگ اگر کسی اچھی خصوصیت کی وجہ سے جانتے ہیں تو اس کے پیچھے سراسر میری ماں کی محنت ہے لگن ہے۔ وہ اگر نصاب کے علاوہ کوئی دوسری کتاب پڑھتا دیکھ لیتیں تو بس ادھر ہی ڈانٹ ٹائم شروع ہوجاتایہاں تک کہ ہم غیر نصابی سرگرمیوں سے نکل کر نصابی کتب کی ورق گردانی تک آجاتے۔ مطلب آج straight forward نظریات مجھ میں جو بھی نظر آتے ہیں ان کے پیچھے میری ماں کا ہی نظریہ ہے جو صرف اپنے کام سے کام رکھنے کا ہنر بخوبی سکھاگیا اور مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پہ جو پاس سے اڑتے مچھر تک کے حسب نسب اور ارادوں سے لیکے اس کے پورے خاندان شجرے سمیت ان کی ہر ہر نقل وحرکت پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں محض نیگئٹیویٹی پھیلانے کے لئے۔

ایک بچے کی نفسیاتی الجھنیں صرف ماں ہی سمجھ سکتی ہے اور آج وہ دور ہے کہ ہر بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی دباؤ میں ہے۔ یہ ایسا صرف آج نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہے۔ ہمارے بچپن میں بھی تھا یہ سب پر اس وقت نتائج اتنے خوفزدہ کرنے والے نہیں ہوتے تھے مگر آج کے دور میں ماؤں کی ڈیوٹی اور بھی زیادہ ہے خصوصاً مغربی ممالک میں جہاں فیملی سسٹم اتنا مضبوط نہیں ہے۔ یہاں پر بچہ مکمل طور ماں کی ذمہ داری ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر ہم لوگوں کے خاندان مشرق میں اور ہم مغرب میں بس رہے ہیں۔

ہمارے بچوں کے پاس پیار بھرے رشتوں کا فقدان ہے۔ باپ کمانے میں مصروف۔ پیچھے صرف ماں ہی بچتی ہے۔ یہاں پر ہر طرح کی ذمہ داری ماں پر ہے۔ آج بھی ایک لڑکی سے بات کررہی تھی پاکستان میں ٹاپ جابز کرنے والی لڑکیاں جب ادھر آکر صرف اپنے بچوں کی تربیت کی خاطر گھر بیٹھ جاتی ہیں یا کوئی چھوٹی موٹی جاب کرلیتی ہیں بچوں کی روٹین سے میچ کرتے ہوئے۔ پھر گھر، اور بچوں کے لئے اپنے کیرئر کو خیرباد کہہ دیتی ہیں۔ بہت قربانی دیتی ہیں وہ اپنی فیملی اور بچوں کی خاطر۔ مگر مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ جیسا کہ میں نے لکھا کہ آج کل کے بچوں میں نفسیاتی ایشوز پہلے سے زیادہ ہیں۔

اب یہ ماں کی زیرک طبیعت ہی سمجھ سکتی ہے کہ عمر کے مختلف ادوار اور مراحل سے گزرتے ہوئے تعلیم اور باقی شعبہ ہائے زندگی میں اپنے بچوں کو معاشرے میں سر اٹھا کے جینا کیسے سکھانا ہے، کامیابیوں کے راستے میں ان کا رہنما بننا ہے۔ اور ناکامیوں کے اندھیروں میں ان کا ہمدرد اور حوصلہ۔ یہاں تک کہ بچوں کے دوستوں تک کے دوست بن کے رہنا پڑتا ہے۔

بات لمبی ہوگئی مگر مدعا صرف یہ تھا کہ ہر روز ماں کو اتنا خراج پیش کیا جائے جتنا وہ استحقاق رکھتی ہے اور وہ اس کے رو برو ہوکر۔ نہ کہ سوشل میڈیا پر۔ اور جن کی مائیں حیات نہیں ہیں ان کے پاس عمران خان اور شوکت خانم کی زندہ مثال موجود ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).