ہمیں اپنے بچوں کو کس قسم کی مذہبی تعلیم دینی چاہیے؟


کینیڈا میں جب میری کتاب FROM ISLAM TO SECULAR HUMANISM چھپی تو مجھے بہت سے لوگوں کے فون آئے اور انہوں نے مجھے اپنے گھروں میں کھانے پر بلایا تا کہ وہ مجھ سے مذہب اور انسان دوستی کے موضوعات پر تبادلہِ خیال کر سکیں۔ ان لوگوں میں سے ایک جنوبی افریقہ کے ڈاکٹر بھی تھے جن کی ایک پاکستانی خاتون سے شادی ہوئی تھی۔ کہنے لگے

’ ڈاکٹر سہیل۔ میں ایک دہریہ ہوں جبکہ میری بیگم بہت مذہبی ہیں۔ وہ نماز بھی پڑھتی ہیں اور روزے بھی رکھتی ہیں۔ میں ان کے اعتقادات کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن آج کل میں ایک عجب تضاد کا شکار ہوں‘

’وہ کیا؟ ‘ میں متجسس تھا

’اب ہمارا بیٹا چودہ برس کا ہو گیا ہے۔ میری بیگم چاہتی ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو جمعے کی نماز پڑھنے مسجد لے کر جاؤں‘

’اور آپ کا کیا خیال ہے؟ ‘

’ اگر میں لے کر گیا تو میں منافقت کروں گا کیونکہ میں خدا اور مذہب پر ایمان نہیں رکھتا‘ ٓ

’اگر آپ نے اپنی بیوی کو بتا دیا کہ آپ دہریہ ہیں تو وہ کیا کریں گی؟ ‘

’ وہ مجھے چھوڑ کر چلی جائیں گی۔ اور میں یہ نہیں چاہتا کیونکہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔ ان کی عزت کرتا ہوں۔ وہ میرے بیٹے کی ماں ہیں۔ میرے لیے ان کا مذہبی ہونا کوئی مسئلہ نہیں لیکن ان کے لیے میرا دہریہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے‘

اس کے بعد میری ایک پاکستانی نرس سے ملاقات ہوئی جو ایک ہیومنسٹ تھیں اور ان کے شوہر ایک روایتی مسلمان تھے۔ وہ اپنے بیٹے کو مسجد لے کر جاتے تھے۔ بیوی نے کہا کہ ہم کینیڈا میں رہتے ہیں جہاں بہت سے مختلف مذاہب کے پیروکار بستے ہیں۔ میں اپنے بیٹے کو مسجد کے علاوہ مندر ’گردوارے‘ سیناگاگ اور چرچ بھی لے جانا چاہتی ہوں تا کہ وہ سب مذاہب کے بارے میں جانے اور جب عاقل و بالغ ہو تو خود فیصلہ کرے کہ اس نے کس مذہب کو اپنانا ہے یا سب سے علیحدہ ہو جانا ہے۔ اس موضوع پر میاں بیوی کا سخت جھگڑا ہوا۔ شوہر کا کہنا تھا کہ اگر اس کا مذہب سچا ہے تو انہیں اپنے بیٹے کو دیگر مذاہب سکھانے کی کیا ضرورت ہے؟

جب میں نے یہ واقعات سنے تو مجھے کینیڈا کے ایک ہائی سکول کا واقعہ یاد آ گیا جس میں ایک اٹھارہ سالہ طالب علم نے عیسائیت کی کلاس میں عیسیٰ کے احترام میں کھڑے ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ استاد نے پوچھا تو شاگرد نے کہا۔ ’میں عیسائیت کو مذہب کے طور پر نہیں، تاریخ کے حوالے سے پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں (حضرت) عیسیٰ کی ایک ریفارمر کے طور پر عزت کرتا ہوں لیکن انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتا۔ میں عیسائی نہیں، ہیومنسٹ ہوں‘ ۔

اس شاگرد کی باتوں سے استاد اتنا ناراض ہوا کہ اسے کلاس سے نکال دیا۔

شاگرد نے گھر جا کر والدین سے شکایت کی۔ وہ بھی انسان دوست تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی حمایت کی اور CBC کو خبر دی۔ چنانچہ ٹی وی کے جرنلسٹوں نے آ کر اس نوجوان کا بھی انٹرویو لیا اور اس کے والدین کا بھی اور وہ خبر نیشنل نیوز کا حصہ بنی۔ اس خبر کے بعد سکول کے پرنسپل نے معافی مانگی اور اس شاگرد کو واپس سکول بلایا گیا۔

والدین اور اساتذہ کے لیے یہ سوال اہم ہیں کہ

کیا بچوں کو کسی بھی مذہب کی تعلیم نہ دی جائے؟

کیا بچوں کو صرف ایک مذہب کی تعلیم دی جائے؟

کیا بچوں کو بہت سے مذاہب کی تعلیم دی جائے؟

کیا بچوں کا مذاہب سے INDOCTRINATION (تلقین) اورعقائد کے طور پرتعارف کروایا جائے یا انہیں تاریخ اور کلچر کا حصہ بنا کر پڑھایا جائے؟

یہ بات والدین اور اساتذہ کے لیے اہم ہے کہ وہ بچے جو کسی عقیدے کو اندھے ایمان کا حصہ بن کر اپناتے ہیں ان کے لیے اسے بعد میں بدلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مذہب کے ساتھ گناہ اور ثواب ’جنت اور دوزخ کے نظریات بھی جڑے ہوئے ہیں۔

بہت سے لوگوں کے لیے اس حقیقت کو ماننا مشکل ہے کہ اخلاقیات کا ایک تصور ایسا بھی ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اور مختلف مذاہب کی اخلاقیات بھی جدا ہے۔ ایک مذہب کا حلال دوسرے مذہب کا حرام ہو سکتا ہے۔ مسلمان سور کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتے لیکن گائے کا گوشت بڑے شوق سے کھاتے ہیں دوسری ہندو گائے کا گوشت کھانا سخت برا سمجھتے ہیں۔

جب سے دنیا کے مختلف ممالک میں روایتی مذاہب کا زور کم ہو رہا ہے، ساری دنیا میں سیکولر اخلاقیات کا تصور بڑھ رہا ہے۔ سیکولر ممالک میں لوگ گنہگار نہیں ہوتے، مجرم ہوتے ہیں۔ سیکولر ممالک میں آہستہ آہستہ سیکولر قوانین مذہبی روایات کے نعم البدل بن رہے ہیں۔ سیکولر ممالک میں قانون کو توڑنے والوں کا نفسیاتی علاج کیا جاتا ہے تا کہ وہ ایک صحتمند زندگی گزار سکیں۔

چین کے پہلے انسان دوست فلاسفر کنفیوشس نے پانچ سو قبل مسیح میں انسانوں کو ایک سنہری اصول دیا تھا جو کہتا ہے۔ دوسروں سے ویسا ہی سلوک کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو وہ تماہرے ساتھ کریں۔ بیسویں صدی میں اقوامِ متحدہ نے انسانی حقوق کی قرارداد پاس کی جس سے ساری دنیا کے انسانوں کو چند بنیادی حقوق ملے۔ یہ علیحدہ بات کہ بہت سے مذہبی ممالک میں آج بھی عورتوں، بچوں اور اقلیتوں کو وہ بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔

بعض انسان دوست دانشوروں کا خیال ہے کہ ہمیں ساری دنیا کی جو بھی مذہبی اور روحانی ’سیکولر اور سائنسی روایات وراثت میں ملی ہیں ہمیں وہ سب روایات اپنے بچوں کو وراثت میں دینی چاہئیں تا کہ وہ جب جوان ہوں تو خود فیصلہ کر سکیں کہ کون سی روایت انہیں عزیز ہے اور ہمیں سب انسانوں کو حق دینا چاہیے کہ وہ جس روایت کو صحیح سمجھیں اس پر عمل کریں۔

ہمیں اپنے بچوں اور بچیوں کو گھروں اور سکولوں میں یہ سکھانا اور پڑھانا ہے کہ مذہب ایک ذاتی فیصلہ ہے لیکن قانون ایک اجتماعی عمل ہے۔ مذہب انسان کا ہوتا ہے۔ ریاست کا نہیں۔ ریاست کی نگاہ میں سب شہری برابر ہوتے ہیں اور انہیں اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اور مذہب کو ماننے یا نہ ماننے کا حق ہوتا ہے۔ یہی ایک مہذب ملک اور معاشرے کی روایت ہے یا ہونی چاہیے۔ آپ کا والدین یا اساتذہ ہونے کی حیثیت سے اس اہم مسئلے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail