نہ پائے ماندن، نہ جائے رفتن


 چئیرمین ماؤ نے کیا خوب زندگی گزاری، آئے چین کو دنیا کے افق پر ایسا پیوست کیا جیسے ترقی کے افق اور چین کا رشتہ ابدی ہو۔ صرف قول کے نہیں فعل کے بھی کمال کے تھے۔ کیا خوب کہا موصوف نے ”عوام کبھی غلط نہیں ہوتے راہنماؤں کو عوام کے فیصلوں سے اپنی حرکیات ٹھیک کرنی چاہئیں“ بات کمال کی ہے لیکن سننے اور پرکھنے کے لئے دل و دماغ کا ملاپ ضروری ہے جو ہمارے مقدر میں ٹہرا ناممکن۔ سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ یہاں البتہ قوم کا وجود دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس گئیں، نسلیں ختم ہوئیں اور نجانے اور کتنی قربانیاں، پریشانیاں اور اضطراب کی گھڑیاں محرومیوں، بھوک اور پریشانیوں سے بھری آنکھوں کو نصیب ہوں گی۔

غضب کہانی میں ستّر کی دہائی میں ملک دولخت ہوا توقافلے کے تمام سالار منکر ٹہرے۔ کسی نے ذمہ داری پلّے نہیں باندھی۔ عوام کا خیال کیا خوش فہمی تھی کہ چلو حادثہ ہوا اب تذبذب سے ناتہ ٹوٹ ہی جائے گا لیکن 1977 ء کے الیکشن کے بعد آگے چل کر پتا چلا راہنماؤں کو الیکشن پر اعتراض ہے۔ اب اس غضب سے بھرپور کہانی کے انوکھے کرداروں کے دو گروپس تھے ایک کے پاس عنان اقتدار تھی اور دوسرے کے پاس یہ خواہش کہ کاش ایک دن اس گدی پر وہ بھی تشریف فرما ہوجائیں تو ڈرے سہمے بے چارے عوام زندگی جینا شروع کردیں گے۔

بات نہ بنی تو مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا۔ مہینے بھر مذاکرات کے دور ہوتے رہے لیکن کوئی ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ تھا اور پھر ہوا کیا۔ تیروں کی زبردست بارش جس کے بعد نہ کسی نے حق دیکھا نہ باطل بس جیل کی کالی کوٹھڑیاں تھیں اور اس میں پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والے دنیا کے عجیب و غریب راہنما جو کبھی بھی ایک نظر پیچھے دیکھنے کی جسارت نہیں کرتے۔ پھر کیا تھا یہ منطق گویا یہاں لمحہ بہ لمحہ ٹھیک ثابت ہونے لگی کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔

کچھ صدیاں پہلے زمین پر بستے انسان شازونادر ہی کوئی ناخوشگوار واقعہ دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھر کر مکافات عمل کی جھولی میں سب کچھ ڈال کر یُوں کہتے ”تاریخ خود کو دہرارہی ہے“ لیکن یہاں تو ہر دوسرے دن تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن وہی المیہ برقرار رہتا ہے کہ دل و دماغ کا ملاپ ضروری ہوتا ہے اور جو یہاں ناپید ہے۔ ہماری تاریخ میں خود کو ٹھیک کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی اگرچہ مواقع بہت ملے۔ میں ٹھیک تو غلط کی فلاسفی نے بہت تباہی مچائی اور اگر سلسلہ یوں دراز ہوتا رہا تو قوم بننے کی خواہش مند یہ ہجوم جو تھک گئی ہے بے قابو ہوجائے گی اور پھر لازم ہے ایک اور فلاسفی آئے گی جس کو ظالموں نے ”نہ رہتا ہے بانس اور نہ بجتی ہے بانسری“ جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے۔

آج کہانی میں آئی ایم ایف کا ذکر ہے اور ستم ظریفی عید کے بعد دما دم مست قلندر کا فیصلہ۔ دونوں طرف سے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ عجیب رشتہ ہے ان کا ایک دوسرے کے ساتھ۔ مل بیٹھ کر مسائل کے حل کا رجحان بنانے کی کوشش سے کوسوں دور، برداشت کی اہلیت سے نابلد اور عزت نفس کو جوتی کی نوک پر رکھنے میں ماہر یہ راہنما کیا حقیقت میں کسی اور حادثے کے منتظر ہیں؟ ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ بالکل ”تار عنکبوت“ جیسا بے چارے عوام سمجھنے سے قاصر ہیں اس تارعنکبوت کو۔

سابقین کہہ رہے ہیں قرضے لے کر ملک کی سلامتی داؤ پر لگائی گئی لیکن شرماتے بالکل نہیں جو یہ سوچے کہ ہم نے تو آنکھیں کھولتے ہی کشکول ہاتھ میں تھام لیا تھا پھر آج یوں گریہ زاری کیوں؟ یہ صرف آج کا نوحہ کس نے گردانا یہ تو ازل سے ہمارا اجتماعی رونا ہے۔ کوئی نیا شوشہ نیا تماشا ملنے سے رہا تو آئی ایم ایف کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ سابقین لازمی یہ خواہش پورے کرنے کے در پر ہیں کہ ہمیں بھی اقتدار کی یخ بستہ ہواؤں میں سانس لینے دیا جائے اور جو چلا رہے ہیں ملک کو ان کی آنکھوں میں غرور اور قہر کا سماں ہے۔

حکمران عاجزی کا پیکر جب بن جاتے ہیں تو بپھرا ہجوم از خود قوم بن ہی جاتا ہے۔ پرانے سالار عوام کو تباہی سے برابر باخبر رکھنے پر تلے ہوئے ہیں اور جو نئے ہیں ان کے پاس سوائے ملک کو تنگ و تاریک گھاٹی میں دھکیلنے کے اور کچھ پروگرام نہیں۔ سیانے کہتے ہیں اونٹ سے جان چھڑانی ہو تو کنویں میں پھینک دو۔ پاکستان اونٹ تو نہیں البتہ شیر ضرور ہے اور لگے ہیں بہت سارے لوگ اس شیر کو قابو کرنے میں۔ آپ بھی میری طرح حیران ہوں گے کہ ایف آر ڈی ایل ایکٹ 2005 کے تحت ہم اپنی جی ڈی پی کی شرح کے مطابق ساٹھ فی صد قرضہ لے سکتے ہیں لیکن ہمیں عوام پر خرچ کرنے اورتیز رفتار ترقی کا اتنا نشہ اور جنون چڑھا ہوا ہے کہ اس حد کو بھی کراس کرکے اسّی فی صد لے رہے ہیں۔

لازم ہے اپوزیشن والے دھاڑیں مار مار کر چیخیں ملک سے محبت کرنے والے جو ٹہرے لیکن سوچنا کیا ضروری نہیں کہ آج سے پہلے کیا قرضے نہیں لئے گئے؟ شور اس پر ہے چارسوں کہ قرضے لئے جارہے ہیں کیوں نہ شور کچھ ایسا بپا ہو کہ قرضے کیوں لئے جارہے ہیں اس میں نقصان ہے ان کا جو ٹکٹکی باندھے سات عشروں سے امید امید کہہ کر تھک گئے ہیں۔ چئیرمین ماؤ نہ رہے کاش وہ حیات ہوتے تو آج اپنے الفاظ واپس لے لیتے وجہ جس کی یہ ہوتی کہ یہاں راہنما پیدائشی ہوتا ہے وہ بنتا نہیں جو عوام کی طرف لمحہ بھر دیکھے۔

کیا مجبوری ہوسکتی ہے جو ایک نہ ہونے کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔ ہر طرف ”نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن“ نظر آرہی ہے لیکن وجہ کسی کو معلوم نہیں۔ کیا اپنی ذات کی خوش نودی، ہٹ دھرمی، انا اور ضد اس کی وجوہات تو نہیں؟ ایک ہوئے تو تاریخ یاد رکھے گی اور اگر اسی طرح بپھرے ہجوم کی طرح رہے تو تاریخ کا کوڑادان ہر دم حاضر ہی رہتا ہے ہزاروں پڑے ہیں جس میں ہم بھی ڈھکنا کھول کر شامل ہوہی جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).