نو بیاہتا جوڑا اور ٹیکسی ڈرائیور


”کیسی لگ رہی ہوں میں؟ “ شمائلہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ”یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے، خوبصورت لوگ تو اچھے ہی لگتے ہیں؟ “ شان نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔

”بتاؤ ناں! گول مول جواب کیوں دے رہے ہو۔ “ شمائلہ نے اترا کر کہا۔ ”اچھا تو یہ بات ہے تم چاہتی ہو کہ میں تمہاری تعریف کروں، خیر ایسی بات ہے تو سنو بہت پیاری لگ رہی ہو۔ “ شان مسکرا اٹھا۔ ”یہ ہوئی نا بات، اب ٹھیک ہے۔ “ شمائلہ نے مطمئن ہو کر کہا۔ وہ دونوں ہوٹل کے کمرے سے باہر آ گئے۔

شان اور شمائلہ کی شادی چند دن پیشتر ہی ہوئی تھی اور وہ سیر و تفریح کے لئے مری آئے تھے۔ مال روڈ کے ایک ہوٹل میں ان کا قیام تھا۔ پہلے دن تو مری میں ہی گھومتے رہے تھے۔ آج انہوں نے سوچا تھا کہ ایوبیہ اور نتھیا گلی کی سیر کی جائے۔ جی پی او چوک میں ایک ٹیکسی کے قریب پہنچے تو فوراً اندر موجود ڈرائیور باہر آ گیا۔

”جناب سیر کے لئے کہیں جانا چاہتے ہیں تو گاڑی حاضر ہے۔ “ ڈرائیور نے فوراً اپنی خدمات پیش کر دیں۔ ”بھئی تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے فری سیر کراؤ گے۔ “ شان نے مذاق کے انداز میں کہا۔ ”کوئی بات نہیں جناب! آپ اگر کرایہ نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں۔ آخر آپ ہمارے مہمان بھی تو ہیں“ ڈرائیور نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

”خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ ہمیں ایوبیہ اور نتھیا گلی جانا ہے کرایہ بتاؤ۔ “

”جو مناسب ہو دے دیجیے گا۔ “ ڈرائیور نے کہا۔ تھوڑی بات چیت کے بعد معاملات طے پا گئے۔ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو ڈرائیور رک گیا۔ اس کی نگاہیں شمائلہ پر تھیں۔ ”پتا نہیں میری بات آپ کو اچھی لگے گی یا بری لیکن آپ نے زیورات کچھ زیادہ پہنے ہوئے ہیں، انہیں اتار کر کمرے میں رکھ دیں تو بہتر ہے۔ “ اس نے کہا۔

شمائلہ نے سونے کا بھاری سیٹ، انگوٹھیاں اور سونے کی چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں۔ ”بھائی کیا بات کر رہے ہو، میں نے زیورات رکھنے کے لئے تو نہیں بنوائے پہننے کے لئے ہیں۔ تم گاڑی چلاؤ۔ “ وہ بول اٹھی۔ ڈرائیور چپ چاپ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گاڑی سفر پر روانہ ہو گئی۔ ایوبیہ کی طرف جانے والی سڑک بڑی خوبصورت تھی۔ شان اور شمائلہ باہر دیکھتے ہوئے، خوش گپیاں کر رہے تھے۔ ایسے میں اچانک شمائلہ کی نظر ڈرائیور پر پڑی وہ مرر سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ شمائلہ جھینپ گئی ڈرائیور بھی فوراً سامنے دیکھنے لگا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔

”کیا ہوا بھائی گاڑی کیوں روک دی؟ “ شان نے چونک کر کہا۔ ”جناب یہ بندر پوائنٹ ہے۔ لوگ یہاں رک کر تصویریں بناتے ہیں۔ ڈرائیور نے جواب دیا۔ “ اوہ! اچھا ٹھیک ہے۔ ”وہ گاڑی سے باہر آ گئے۔ آپ تصویریں وغیرہ بنا لیں میں یہیں نزدیک ہی ہوں گا۔ جب بلانا ہو آواز دے لیں میرا نام واجد ہے۔ “ ڈرائیور نے کہا پھران کے جواب کا انتظار کیے بغیر ایک طرف کو چل دیا۔ شان نے دائیں بائیں دیکھا ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی جہاں بیسیوں بندر بیٹھے تھے اور بہت سے پہاڑی کے ساتھ اور سڑک پرچل پھر رہے تھے۔ کئی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ لوگ ان بندروں کو مکئی کے بھٹے ڈال رہے تھے ان کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے لیکن شمائلہ کی توجہ اس طرف نہیں تھی وہ ڈرائیور کے انداز و اطوار کا جائزہ لے رہی تھی ڈرائیور چپ چاپ ایک طرف جاکر ایک بڑے پتھر کے پیچھے غائب ہو چکا تھا۔

شان نے اسے گم سم دیکھا تو بولا۔ ”تم کہاں کھو گئیں، آؤ ہم بھی تصویریں بنائیں۔ “ شان نے سمارٹ فون نکالا۔ ”مجھے یہ ڈرائیور مشکوک لگ رہا ہے۔ اب یہ کہاں گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے کچھ ساتھی ہوں اور ہمیں لوٹ لیں۔ شمائلہ نے اپنے زیورات کی طرف دیکھ کر کہا۔ “ ارے نہیں تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو، ہو سکتا ہے وہ سگریٹ وغیرہ پینے گیا ہو۔ ”شان نے فوراً کہا اور سیلفی بنانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب اس نے واجد ڈرائیور کو بلانے کے لئے ادھر ادھر دیکھا تو اچانک وہ ایک پتھر کے پیچھے سے نکل آیا۔

”واجد میاں چلو اب آگے چلو۔ “ شان نے کہا اور وہ سر ہلاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ سفر شروع ہوا۔ راستے میں کئی جگہ گاڑی رکوا کر انہوں نے تصویریں بنائیں۔ وہ پہلے نتھیا گلی نکل گئے پھر ایوبیہ آ گئے۔ گاڑی ایک جگہ پارک کرنے کے بعد ڈرائیور نے کہا۔ ”آئیں میں آپ کو چئیر لفٹ تک لے چلوں۔ “

شان اور شمائلہ نے سر ہلا دیا کیوں کہ وہ اس سے پہلے ان علاقوں میں نہیں آئے تھے۔ ایک جیپ بڑی آہستہ رفتار سے ان کے پاس سے گزری۔ شمائلہ کی نگاہ پڑی تو اس نے دیکھا کہ اس میں دو نوجوان سوار تھے جو اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ شمائلہ نے منہ پھیر لیا۔ ”گھٹیا لوگ۔ “ اس نے زیر لب کہا۔

”کیا کہا؟ “ شان چونکا۔ ”کچھ نہیں۔ “ شمائلہ نے نفی میں سر ہلایا۔ چئیر لفٹ کے قریب پہنچ کر وہ رک گئے وہاں بہت سی دکانیں بھی تھیں۔ ”واہ کتنی پیاری شالیں ہیں۔ “ شمائلہ بول اٹھی۔ ”تم ان کا جائزہ لے لو میں چئیرلفٹ کے ٹکٹ لے کر آتا ہوں۔ “ شان نے کہا۔ شمائلہ دکان کے اندر چلی گئی۔ ڈرائیور بھی واپس چلا گیا۔ شمائلہ ایک خوبصورت شال دیکھنے لگی۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ پلٹ کر دیکھا تو دو نوجوان دکھائی دیے۔

شمائلہ نے پہچان لیا یہ وہی نوجوان تھے جو جیپ میں تھے۔ شمائلہ اس دکان سے نکل کر اگلی دکان میں آ گئی۔ محض چند سیکنڈ کے بعد وہ نوجوان بھی اسی دکان میں آگئے۔ وہ اس کا پیچھا کر رہے تھے۔ شمائلہ کو بہت غصہ آ رہا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ انہیں کھری کھری سنا دے لیکن تماشا کھڑا نہیں کرنا چاہتی تھی لہٰذا چپ رہی۔ شان ٹکٹ لے کر آ گیا تو وہ دونوں چئیر لفٹ کی طرف بڑھ گئے۔

چئیر لفٹ کی سیر کے بعد وہ ایک ریسٹورانٹ میں آ گئے۔ کھانا کھانے کے بعد جب وہ باہر نکل رہے تھے تو اچانک شمائلہ نے دیکھا وہ دونوں نوجوان بھی اسی ریسٹورانٹ سے باہر نکل رہے تھے۔ اب شمائلہ سے رہا نہ گیا اس نے شان کو بتایا کہ وہ نوجوان ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ شان کو بہت غصہ آیا۔ ”میں ابھی ان کی طبیعت صاف کرتا ہوں۔ “

شمائلہ نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

”رہنے دو ایسے گھٹیا لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہیے۔ ویسے بھی اب ہمیں یہاں سے نکلنا ہے۔ “

شان ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔ وہ گاڑی کی طرف آ گئے۔ واجد ان کا انتظار کر رہا تھا۔ ”خوب انجوائے کر رہے ہیں؟ “ واجد ڈرائیور نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

”چھوڑو یار، اب واپس مری لے چلو۔ “ شان نے کہا۔

”ضرور۔ “ وہ گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی چل پڑی۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ واجد کے ماتھے پر بل پڑ گئے وہ زیرلب بڑبڑایا۔ شان چونک اٹھا۔

”کیا ہوا واجد بھائی؟ “ اس نے پوچھا۔

”ایک جیپ ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔ خدا خیر کرے۔ “ ڈرائیور بولا۔

شان اور شمائلہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ یہ وہی جیپ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نوجوان ان کا پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ واجد نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی لیکن جیپ کی رفتار بھی بڑھ گئی۔ واجد نے رفتار کم کر دی تاکہ جیپ آگے نکل جائے لیکن جیپ کی رفتار بھی کم ہو گئی۔ اب واجد کے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار نمایاں ہو گئے۔

اتنے میں گاڑی کوزہ گلی تک پہنچ گئی۔ یہاں سڑک پر رش کم تھا۔ اچانک جیپ کی رفتار بڑھی اور اس نے ان کی گاڑی کو اوورٹیک کیا۔ انہوں نے سمجھا کی جان چھوٹ گئی اب یہ جیپ آگے نکل جائے گی لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ جیپ ان کی گاڑی کے آگے آ گئی اور راستا بلاک کر دیا۔ اس کے بعد انہیں رکنے پر مجبور کر دیا۔ ”میں دیکھتا ہوں انہیں۔ “ واجد نے گاڑی سے اترتے ہوئے غصے سے کہا۔

”واجد بھائی میں بھی آتا ہوں۔ “ شان نے کہا۔ ”نہیں صاحب آپ بیٹھیے۔ “ واجد نے مڑ کر کہا۔ جیپ سے ایک نوجوان نکلا اس سے پہلے کہ واجد کچھ کہتا نوجوان پستول نکال کر آگے بڑھا اور سخت لہجے میں بولا۔ ”ہاتھ اٹھا کر چپ چاپ سائیڈ پر کھڑے ہو جاؤ۔ “

”کیا مطلب کیا چاہتے ہو تم؟ “ واجد نے غم وغصے کے عالم میں کہا۔

”تم سے کچھ نہیں چاہیے۔ اس لڑکی کے سارے زیوارت چاہییں۔ “ نوجوان آگے بڑھا۔ شمائلہ کانپ گئی۔ یہ تو ڈاکو تھے۔ زیورات تو ہاتھ سے نکل ہی رہے تھے جان کے لالے بھی پڑ گئے تھے۔ شان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ ڈاکو کے ہاتھ میں پستول تھا اور وہ خالی ہاتھ تھا۔

”خبردار! یہ ہمارے مہمان ہیں انہیں چھوڑ دو۔ “ واجد ڈرائیور نے چیخ کر کہا۔

”تم تو اپنا منہ بند کرو۔ چلو لڑکی جلدی سے سارے زیورات میرے حوالے کر دو۔ ورنہ تم سب کو گولیوں سے بھون دوں گا۔ “ ڈاکو نے سخت لہجے میں کہا۔ شان نے اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش کی تو ڈاکو نے پستول کا رخ اس کی طرف کر دیا۔ ”اے تم اپنی جگہ چپ چاپ بیٹھے رہو، ہلے تو جان سے جاؤ گے۔ “ وہ غرایا۔

”گولی مت چلانا میں دی رہی ہوں سارے زیور۔ “ شمائلہ چیخ اٹھی۔ اتنے میں موقعے سے فائدہ اٹھا کر ڈرائیور اچانک جھکا اور نیچے سے ایک پتھر اٹھا کر ڈاکو کو دے مارا۔ اس نے نشانہ تو اس کے ہاتھ کا لیا تھا تاکہ پستول گر جائے لیکن ڈاکو خطرے کا احساس ہوتے ہیئی مڑا تو پتھر اس کے بائیں کندھے سے ٹکرا گیا۔ ڈاکو بے اختیا کراہ اٹھا۔ اس نے غصے سے ڈرئیور کی طرف دیکھا اور گالیاں بکتے ہوئے فائر کھول دیا۔ چھ فائر ہوئے اور واجد کی دردناک آوازیں فضا میں گونج اٹھیں اس کے پیٹ سے خون بہنے لگا۔

شمائلہ بھی چیخنے لگی۔ ”خاموش“ ڈاکو نے چیخ کر شمائلہ کی طرف رخ کیا۔ عین اسی وقت دو تین گاڑیاں ان کے قریب آ گئیں۔ شاید ڈاکو نو آموز تھے۔ ”بھاگو“ جیپ والے ڈاکو نے چیخ کر کہا۔ فائرنگ کی آوازوں سے لوگوں کے اکٹھا ہونے کا بھی خدشہ تھا۔ دونوں ڈاکو افراتفری کے عالم میں فرار ہو گئے۔ شان اور شمائلہ تیزی سے واجد کی طرف بڑھے۔ وہ زمین پر پڑا تھا۔ سرخ خون اس کے پیٹ سے نکل کر سڑک کو رنگین کر رہا تھا۔ وہ ابھی زندہ تھا۔

”واجد بھائی یہ آپ نے کیا کیا؟ “ شان نے اسے تھامتے ہوئے کہا۔ ”آپ ہمارے مہمان ہیں۔ میں آپ کو لٹتے ہوئے کیسے دیکھتا۔ “ واجد نے تکلیف سے کہا۔ گاڑیوں سے کئی لوگ نکل کر ان کے پاس آ گئے۔ ”ان کو فوراً ہسپتال پہنچانا ہو گا۔ “ شان نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ فورا دو ادھیڑ عمر آدمی سامنے آ گئے۔ ”آپ ڈرائیو کر سکتے ہیں تو گاڑی لے آئیے۔ ہم انہیں ہسپتال پہنچاتے ہیں۔ “

گاڑیاں روانہ ہو گئیں۔ واجد کو ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ اس کے پیٹ میں چار گولیاں لگی تھیں۔ ڈاکٹرز نے فوراً آپریشن کر کے گولیاں نکال دیں لیکن وہ بچ نہ سکا۔ اس کی موت پر اس کے رشتہ داروں کے بعد اگر کوئی پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا تو وہ شان اور شمائلہ تھے۔ انہیں رہ رہ کر یاد آتا تھا کہ واجد نے سفر شروع کرنے سے پہلے ہی کہا تھا کہ زیورات اتار دیں۔ کاش انہوں نے اس کی بات مان لی ہوتی۔ مری کے اس ڈرائیور نے اپنی جان دے دی لیکن سیاحوں کو لٹنے سے بچا لیا تھا۔ اب اس واقعے کو چار برس بیت چکے ہیں۔ شمائلہ اس دن کے بعد ان زیورات کوکبھی نہیں پہن سکی۔ جب زیورات کو دیکھتی ہے اس کی آنکھوں کے سامنے واجد کا چہرہ آ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).