مایوسی کفر ہے مگر کیا کیجئے


باقیوں کا مجھے نہیں پتہ مگر زندگی نے مجھے ہمیشہ فریب میں رکھا۔ بچپن سے بہت سے لوگوں کو آئڈیل مانا اور وقت کے ساتھ ساتھ ان سے دل اچاٹ ہو گیا۔ تب جو حقیقتیں تھی وہ سب وقت کے ساتھ ساتھ جھوٹ اور فریب میں بدل گئیں۔ یہ تب کی بات ہے جب ٹیلیوژن پہ صرف ایک چینل نشر ہوتا تھا اور وہی دیکھنے کو ملتا تھا جو حکومت دکھانا چاہتی تھی اور ہمیں بھی وہی سچ لگتا تھا۔ ایک طرف ملک کو انڈیا سے خطرہ تھا اور دوسری طرف ہماری فصلوں کو امریکن سنڈی کا خطرہ تھا اس کے علاوہ سب کچھ بہترین چل رہا تھا۔

ڈرامے اور ان کے کردار اتنے پسند آتے کہ دن رات ان کی باتیں کرتے رہتے اور گھر پہ بچوں کہ اس بات پہ لڑائی ہوتی کہ میں نستور ہوں اور تم زکوٹا جن ہو۔ دھواں ڈرامہ چلتا تو سب میں اے ایس پی اظہر ہونے پہ تکرار ہوتی۔ جب سے ہوش سنبھالا پہلا چینل پاکستان ٹیلیوژن دیکھا اور اس میں نشر ہونے والے ڈرامے اور پروگرام دیکھتے ہوئے بچپن گزرا۔ فلم کا نام اتنا بدنام تھا کہ عید کے دنوں میں محمد علی یا شان کی کوئی فلم لگتی تو ٹیلیوژن والے کمرے میں گھسنے پہ پابندی لگ جاتی تھی اور بڑھے بھائی صاحبان کی اس دن ڈبل عید ہو جاتی تھی۔

ملک کی معیشیت، سیاست اور غمِ روازگار کے وجود سے بھی نا آشنا تھے سو کوئی فکر بھی نہیں تھی۔ بس ایک سکول جانے کی پریشانی تھی سو وہ تھی۔ جن بھوتوں اور پریوں کی کہانیوں پہ پورا ایمان ہوتا تھا۔ اپنے ہی اندر مافوق الفطرت دنیا قائم کی ہوئی تھی۔ یہ یقین تھا کہ کچھ منتر پڑھنے سے سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ بچپن سارا اسی چکر میں گزر گیا کہ کب کوئی ایسا مظہر دیکھنے کو ملے مگر وقت نے کبھی اس یقین کو قائم رکھنے کے لئے کوئی عینی مشاہدہ بھی نصیب نہیں ہونے دیا۔

جنید جمشید کے گانوں میں پتہ نہیں ایسا کیا جادو تھا کہ آواز سنتے ہی دل ایک عجیب کیفیت میں چلا جاتا تھا۔ دل دل پاکستان کی آواز سنتے تو دل کی ہر دھڑکن ساتھ گانے لگتی۔ نازیہ حسن کا ”کرئیے پیار دیا گلاں“ سن کے جسم خود بخود مستی میں جھومنے لگتا۔ اب کبھی ان گانوں کو سنوں تو دل افسردھ ہوجاتا ہے اور ایک لمحے کے لئے اس زمانے کے خیالات اور احساسات لاشعور سے شعور کی حد میں داخل ہونے لگتے ہیں اور آج کل کے حالات و حقائق اس سلسلے کو منقطع کر دیتے ہیں۔ ماضی کی یاد اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ہم ناسمجھ ہوتے ہوئے بھی کتنے خوش تھے۔ ٹینا ثانی کی غزل ”بہار آئی“ سنتے تو ٹیلیوژن توڑنے کا من کرتا تھا مگر اب جب کچھ نہ اچھا لگے تب وہی غزل سنیں تو سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے۔

جنید جمشید نے کسی دن گانا چھوڑ دیا اور اس دن بھی مایوسی ہوئی۔ ہمہیں نہر والے پل تے بلا کے خود واپس اپنے ماضی کی طرف چل دیا۔ ناہید اختر نے کب گلوکاری چھوڑ دی یہ تو نہیں جانتا مگر جب اس کے گانے سنے تو مایوسی تب بھی بہت ہوئی۔ قدرت کے عطا کیے ہوئے فن کو کوئی کیسے اتنی آسانی سے چھوڑ سکتا ہے۔ عاشر عظیم ایک ڈرامہ بنا کے غائب ہو گیا اور ہم اس انتظار میں رہے کہ کب کوئی اور اچھا سا ڈرامہ لے کر واپس آئے گا۔ سالوں بعد واپس آیا تو دو گھنٹے کی فلم لے کر جس نے پندرہ بیس سالوں کا مزہ بھی خراب کر دیا۔

الفا براوو چارلی جیسے ڈرامے دیکھ کے دل کرتا کہ ہمیں بھی کبھی ملک کی خاطر لڑنے کا موقع ملے اور ہم سر پہ کفن باندھ کے نکلیں مگر وقت کے ساتھ وہ جنون بھی مایوسیوں میں ڈوب گیا۔ کرفیو کے دوران جب ہمارے محلے کے کسی جوان کو دیوار پہ نکلنے کی وجہ سے گولی مار دی گئی اور ہڑتال کرنے والوں کو گھروں سے پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا گیا تب سارے جنون نکل گئے۔

کبھی کسی اخبار میں کوئی قتل کی خبر نظر آتی تو ڈر سا لگتا کہ ایسے لوگ بھی ہیں دنیا میں جو کسی کو قتل کر سکتے ہیں۔ اور وقت کے ساتھ ایسی خبریں سننے کی بھی عادت ہو گئی۔ عشرت ثاقب کی آواز میں خبرنامہ سنتے جس میں نواز شریف کی کسی سے تبادلہ خیال یا خیر مقدم کرنے کی خبر ضرور ہوتی تھی۔ حالانکہ تب مجھے خیر مقدم کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا۔ بینطیر کی حکومت ختم ہو چکی تھی مگر سب گھر والے اسے پسند کرتے تھے اور نواز شریف سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ نام کے ساتھ گنجا ضرور لگاتے تھے۔

بینظیر اور نواز شریف کے بارے میں ہمیں کچھ پھی معلوم نہیں تھا۔ کیسے ان کے درمیان سیاسی اختلافات آئے کس نے بینظیر کے باپ کو پھانسی پہ لٹکایا اور بینظیر کو عہدے سے ہٹا کر نواز شریف کو کون اقتدار میں لایا کچھ بھی نہیں معلوم تھا۔ بس گھر کے بڑے جن کو پسند کرتے تھے ہمیں بھی وہی پسند آگئے۔ ایک طرف عمران خان بہت پسند تھا۔ سکول کی کتابوں اور کاپیوں میں عمران خان کے تصاویر لگی ہوتی تھیں جو کسی آخبار سے کاٹ کے گوند سے چپکائی ہوتی تھیں۔

جنید جمشید اور عمران خان جیسے ستاروں کو دیکھ کے رشک آتا کہ کتنے کامیاب لوگ ہیں۔ اس وقت بہت دکھ ہوا جب عمران خان کو بری طرح الیکشن میں شکست ہوئی۔ بینظیر کی شکست سے زیادہ عمران خان کی شکست کا دکھ ہوا کیونکہ میں چاہتا تھا عمران خان ایک عظیم اور ہینڈسم ہیرو ہے اسے وزیر اعظم بننا چاہیے۔ ملک کیسے چلتا ہے کس طرح کے لوگ چلا سکتے ہیں یہ نہیں معلوم تھا بس اپنی پسند کی وجہ سے خواہش تھی کہ وہ وزیراعظم بنے۔ قسمت میں تب بھی مایوسی لکھی تھی سو وہ خواہش خواہش ہی رہی اور اتنے سالوں بعد جب اس پسند کا بھوت اتر گیا تب جا کے عمران خان الیکشن جیتا۔ جیتا یا جتایا گیا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن مایوسی اس بار اور زیادہ ہو گئی۔

وقت گزرتا گیا اور ملک کے حالات سے آگاہی ہوتی گئی۔ ملک کن کن مشکلات میں ہے اندازہ ہوتا گیا۔ بیرونی قرضوں اور مہنگائی کا شور تب بھی تھا اور ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید زور شور سے ہوتا آیا ہے۔ پے درپے دہشتگردی کے واقعات اور مذہبی انتہا پسندی کے واقعات نے بھی بہت مایوس کیا۔ اس سب کے باوجود دل میں ایک امید تھی کہ کبھی کوئی ایسا لیڈر آئے گا جو عوام کے لئے کام کرے گا، ہر طرح کے انتہا پسندوں کو لگام دیگا، انسانیت کے لئے کام کرے گا، دشمنوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا۔ مگر یہ جان کر پھر مایوسی ہوئی کہ اس ملک میں صرف وہی لیڈر بن سکتا ہے جو اشاروں کی زبان خوب سمجھتا ہو اور اشاروں کے سوا کچھ نہ سمجھتا ہو۔ اب بندہ مایوس نہ ہو تو کیا کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).