اللہ کا تصور اور بچے


میری دس سالہ بیٹی نے آہستہ سے پوچھا! پاپا کیا اللہ چھوٹے چھوٹے گناہوں پر بھی لوگوں کو جہنم میں ڈالیں گے؟ میں نے کہا ہنیہ بچے۔ کبھی آپ کی ماں نے آپ کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سزا دی ہے۔ ہنیہ نے ذرا سوچ کر نفی میں سر ہلایا۔ تو بچے پھر اللہ تو ماں سے بھی 70 گنا زیادہ آپ سے محبت کرتا ہے وہ کیسے اتنی آسانی سے آپ کو سزا دینا پسند کرے گا۔ وہ مسکرا کر مطمئن سی ہو گئی۔

میں نے بعد میں سوچا۔اللہ کی کتاب کی ابتداء رحمان اور رحیم سے ہوتی ہے۔ اور جگہ جگہ اللہ کی اس رحمت، محبت کرنے والی اور معاف کرنے والی صفات کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ تو پھر ہم کیوں نہ اپنے بچوں کو دین کا تعارف انہی صفات سے کریں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ اس چھوٹی سی عمر میں ہم انہیں جہنم اور اللہ کے عذاب کے قصے سنائیں۔ یہاں مغربی ممالک میں بھی بچوں کے لیے اسلامی کتابوں کی ابتدا بھی اکثر قرآنی کہانیوں سے ہوتی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ آپ دین کا تعارف نوح ع اور شعیب ع کے قصوں سے کریں۔

کیا ضروری ہے کہ اپنے نبی مہربان ص کے تعارف کی ابتدا جنگ بدر اور جنگ احد کی تفصیلات سے کریں؟ کیا اس کے لئے تھوڑا انتظار نہیں کر سکتے؟ جب بچپن میں اللہ کا تعارف اوردین کا آغاز اللہ کے غضب، انتقام اور عذاب سے ہو تو بچوں کے معصوم اور ڈیولپنگ دماغ میں اللہ کا ایک خوفناک تصور بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے نفسیاتی اثرات پھر ان کی شخصیت اور پوری زندگی پر حاوی ہوتے ہیں۔ وہ اثرات آپ کو شاید اپنے آس پاس نظر بھی آرہے ہوں۔

یہاں خواتین کے ایک حلقے میں ایک محترمہ نے دوزخ کا ایسا ہیبتناک نقشہ کھینچا کہ جیسے خود دیکھ کر آئی ہو۔ سامعین میں بیٹھی ایک بچی بہت خوف زدہ ہو گئی اور بیچاری پر ذہنی دباؤ کا دورہ پڑ گیا۔ کئی دن تک اس کو چپ لگ گئی اور۔ نفسیاتی علا کرانا پڑا۔ کیوں نہ ہم اپنے بچوں کو اللہ کے رحم کرنے والا، معاف کرنے والا اور اپنے بندوں سے بے حد محبت کرنے والے رب کے تصور سے دین کا تعارف کرائیں۔

اسی طرح بچوں کو اپنے نبی مہربان ص کی شخصیت اور پیغام کا تعارف بھی رحمت للعالمین اور خلق عظیم کی صفات سے کریں۔ وقت کے ساتھ ساتھ دین کے دوسرے جواب دہی کے پہلو بھی سمجھ لینگے۔ ان تصورات اور ہمارے دین کے بارے میں رویوں کا بچوں کے معصوم ذہن اور شخصیت سازی پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے اور ہمیں اپنے معاشروں میں صحتمند اور مثبت سوچ رکھنے والے افراد کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).