امریکا، ایران جنگ کا طبل بج رہا ہے، پاکستان کیا کرے


اچھا بھئی۔ عید کی تیاریوں میں مصروف پاکستانیو! اگر رمضان ٹرانسمیشن فرصت مل گئی ہو تو ایک ضروری اطلاع سن لو۔ امریکا کی جانب سے ایران کی معاشی ناکا بندی کے سبب خطے میں ایک بڑی جنگ مسلط ہوا چاہتی ہے۔

امریکا نے اپنا بحری بیڑہ خلیج فارس میں تعینات کررکھا ہے اور اس کے جدید ترین ہوائی جہاز قطر کے ہوائی اڈوں پر پارک ہوچکے۔ امریکی معاشی ناکا بندی کے سبب ایران کی معیشت تیزی سے گررہی ہے، اس کے پاس کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ امریکی اقدامات کے خلاف جارحانہ اقدامات کرکے اقوام عالم کو معاشی پابندیاں ہٹوانے پر مجبور کرے۔

ایران کے سامنے اس وقت تین اہداف ہیں، ایک اپنی معیشت کو بچانے کے لیے ضروری اقدامات۔ دوسرا، امریکی جارحیت کے سامنے بند باندھے، اور تیسرا اس اہم موقع پر اپنے دیرینہ حریف سعودی عرب کو بھی ٹف ٹائم دے۔

میدان جنگ سج چکا ہے، گزشتہ روز سعودی آئل ویسلز پر حملے ہوئے تھے، آج تیل کی پائپ لائن پر ڈرون حملے ہوئے، ساتھ ہی ساتھ یمن میں حوثی قبائل جو امن معاہدے کے انتہائی قریب تھے، ایک دم سے دوبارہ صف آرا ہوچکے ہیں۔

پاکستان کے بلوچستان میں ہونے والے بم دھماکے اور گیس پائپ لائن کے معاملے پر پاکستان کو عالمی عدالت میں گھسیٹنے کی دھمکی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے امریکا سے مذاکرات کے دوران افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران کو بھی نہ چھیڑنے کی ضمانت مانگی تھی، جو یقیناً بعض عالمی تجزیہ کاروان کے لیے حیرت انگیز مطالبہ ہوگا۔ کہاں سنی طالبان اور کہاں شیعہ ایران۔

عام آدمی کے لئے یہ گیم سمجھنا مشکل ہے، اسی لیے اسے گریٹ گیم کہتے ہیں۔

اب صورتحال یہ ہے امریکا تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ایران سے پنجہ لڑائے گا، اس کی پشت پر ہوگا سعودی عرب اور اتحادی افواج۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیل بہادر بھی میدان میں آسکتا ہے۔ امریکا ایک لاکھ بیس ہزار فوجی میدان میں اتارنے کی تیاری شروع کرچکا ہے۔

دوسری جانب ایران ہے، جو بظاہر میدان میں اکیلا کھڑا ہے لیکن وہ اتنا بھی اکیلا نہیں ہے۔ روس اور چین اگر کھلے عام ایران کی حمایت نہ بھی کریں گے تب بھی اس کی مدد ضرور کریں گے۔

عالم اسلام کے موجودہ خلیفہ کو پشت کے بل گرانے کے لیے ترکی بھی اپنا وزن ایران کے پلڑے میں ڈالے گا۔ ساتھ ہی ساتھ امریکی فارمولے کو اس پر الٹاتے ہوئے اپنے جہادی نیٹ ورک کو حرکت میں لائے گا۔ ایک جانب امریکا کے پاؤں افغانستان میں پھنسیں گے تو دوسری جانب عراق اور شام میں شیعہ ملٹری تنظیموں کی سرگرمیاں تیز ہوجائیں گی، خصوصاً شام اور اسرائیل کی سرحد پر۔ یاد رہے کہ اسرائیل امریکا کی دکھتی رگ ہے۔

اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ مشکل پاکستان کے لیے ہے جس کا 1 ہزار کلومیٹر طویل بارڈر ایران کے ساتھ لگتا ہے اور یقیناً امریکا یہاں سے ایران کے خلاف دباؤ ڈالنا چاہے گا۔ سعودیہ جو کہ پاکستان کا دیرینہ دوست ہے وہ پاکستان سے امید کرے گا کہ ایران کے خلاف امریکا کی مدد کی جائے لیکن پاکستان ایسی کسی بھی سرگرمی سے پہلے سی پیک ماسٹر بیجنگ کی جانب دیکھے گا جہاں سے لبوں پر انگلی رکھ کر اشارہ کیا جائے گا کہ اس تنازع سے دور رہا جائے۔ سو ہماری حالت نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی ہوگی کہ کریں تو کیا کریں۔ ایران کے خلاف جانے کی صورت میں ملک میں داخلی انتشار کا قوی اندیشہ ہے اور نہ جانے کی صورت میں عالمی دباؤ جینے نہیں دے گا۔

یہ وہ لمحہ ہے جب پاکستان کے پالیسی سازوں کو انتہائی ذہانت کے ساتھ فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ افغان جنگ نے جتنا نقصان نہیں کیا، اس سے کہیں زیادہ نقصان ہمیں امریکا ایران جنگ سے پہنچنے کا اندیشہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).