ریاست مدینہ: معاہدے کے تحت قائم ہونے والی دنیا کی پہلی سیکولر ریاست؟


چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں یثرب کے مقامی عرب قبائل ( اوس و خزرج) نسلوں سے جاری باہمی رقابت و جنگ و جدل کا شکار تھے۔ ان کی اس باہمی نا اتفاقی کا نتیجہ تھا کہ نخلستان یثرب کے یہود معاشی، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ان کے اوپر حاوی ہوگئے تھے۔ اس زمانے میں یوں تو بلعموم پورے جزیرہ نما عربستان میں عرب قومی تشخص کا تصور پروان چڑھ رہا تھا مگر اس تحریک کا ادراکی محور خصوصا یثرب، مکہ اور نجد کے ان علاقوں میں تھا جہاں سن 70 عیسوی کے بعد سے یہود آباد تھے۔

عرب قوم پرستی کے اسی ابتدائی دور میں یثرب کے قبیلہ خزرج کے سربراہ عبدللہ ابن ابی نے نجد کے حکمرانوں کے تعاون سے یثرب کے اوس و خزرج قبائل کے بیچ جاری خانہ جنگی ختم کروا کر، انھیں باہم اکٹھا کرکے ایک عرب ریاست کے منصوبے پر غور و خوض شروع کردیا۔ اس تجویز میں اسے قبیلہ اوس کے کچھ افراد کی حمایت بھی حاصل تھی۔ تاہم اوس کے چند سرکردہ افراد اس منصوبے سے خوش نہیں تھے۔ یہ بات ان کی قبائلی حمیت کے خلاف تھی کہ ان کا مخالف قبیلہ خزرج جس سے ان کے بزرگوں نے جنگیں لڑیں اور اپنا خون بہایا اب اسی کا ایک فرد ان پر حکمران بن جائے۔ قبائلی غیرت کے تابع وہ کسی دوسرے قبیلے کے شخص کے ہاتھ پر تو بیعت کرسکتے تھے مگر دشمن کی اطاعت قبول کرنا ان کے لیے ناممکن تھا۔

اسی عرصے میں پیغام پہنچانے والوں نے ان تک یہ خبر پہنچائی کہ جنوبی شہر مکہ کے قریشی قبیلے بنو ہاشم کے کسی شخص نے پیغمبر خدا ہونے کا دعوی کیا ہے۔ اس نئے دین کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت، قیامت تو وہی تھے جو انھوں نے یہودیوں سے سن رکھے تھے تاہم اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک خالصتا عرب قومیت کا دین تھا۔ تبھی اوس کے چند لوگوں نے رسول خدا سے ملاقات کی ان کی تعلیمات دریافت کیں اور ان کے دین پر ایمان لے آئے۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی افراد نے حضرت محمد سے ملاقات کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور انھیں یثرب تشریف لانے کا مشورہ دیا اور ہر طرح سے ساتھ دینے کا عہد کیا۔

622 ء میں رسول اللہ ص نے بالا آخر اہل قریش کی شدید مخالفت سے تنگ آکر اپنے دیرینہ ساتھیوں سمیت مدینے کی طرف ہجرت کی۔ آپ ص کی آمد کو اوس و خزرج دونوں نے خوش دلی سے قبول کیا اور آپ کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ اگرچہ نبی ص کی ہجرت کے بعد عبدللہ بن ابی کا حکمران بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا تھا تاہم حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس نے بھی آپ ص کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ جس پر وہ تا دم مرگ قائم رہا۔ البتہ آپ ص کی طرف سے کیے گئے کچھ فیصلوں پر وہ اعتراض ضرور اٹھاتا رہا اور یوں اسلامی تاریخ میں حکمرانوں کے فیصلوں پہ تنقید و اختلاف کرنے کی جسارت کا آغاز کرنے والا بھی یہی پہلا شخص تھا۔

بہر حال، آپ ص کی ہجرت کے بعد، مدینے کے تمام گروہوں یعنی قریش ( مہاجرین) مقامی نو مسلموں ( انصار) اور مدینے کے یہودی قبائل کے درمیان ایک تاریخی سمجھوتہ طے پایا جسے میثاق مدینہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل ایک طرح سے ریاست کا تحریر شدہ منشور تھا جس میں طرز حکومت کے خدو خال واضح کیے گئے تھے۔ اس معاہدے کی رو سے یثرب کی تمام قومیتوں کو بلا لحاظ مذہب و عقاید نسل و قبائل ایک ریاست کے شہری گوشد کیا گیاتھا۔ معاہدے کے الفاظ تھے ”یہود و مسلم ایک ہی گروہ ( قبیلے ) کے فرد تصور ہوں گے“۔ یعنی ریاست کی نظر میں کسی بھی شخص کے عقیدے سے زیادہ اس کی ریاست سے وابستگی اور شہریت اہم تھی۔ طے پایا تھا یثرب کے تمام قبائل چاہے یہود ہوں چاہے عرب بوقت ضرورت مل کر ریاست کا دفاع کریں گے۔

جہاں تک قوانین کی عمل داری اور نوعیت کی بات تھی تو ہر تفضیے کا فیصلہ متعلقہ گروہ (یا گروہوں ) کے مروجہ قوانین کی روشنی میں ہی کیا جانا تھا۔

اس معاہدے کے تحت یثرب کے تمام شہریوں نے رسول اللہ کو اپنا متفقہ حکمران تسلیم کر لیا تھا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ بغیر جنگ و جدل کے محض مذاکرات اور معاہدے کے ذریعے ایک ریاست قائم ہو رہی تھی۔ جو کہ یقینا نا اپنے زمانے کے لحاظ سے ایک انقلابی اقدام تھا۔ ریاست کی نظر میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل تھے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی جا رہی تھی جنھیں دور حاضر میں ہم سیکولر نظریات کا نام دیتے ہیں۔ سوال صرف ایک پیدا ہوتا ہے کہ جدید جمہوری نظام میں تو قوانین اور فیصلے عوام کی منتخب کردہ مجالس طے کرتی ہیں تب ایسا کیونکر ممکن نہ ہوا اور اس سیکولر ریاست کا نظام مذہبی و روایتی قبائلی قوانین پر ہی استوار رکھا گیا۔ ؟

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے، ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں اس زمانے میں عدالتی، سماجی نیز معاشی قوانین کا ماخذ مذہبی متن ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ بھی درست ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس زمانے میں کسی بھی ریاست کی ابتدا فتوحات کے سہارے ہی ممکن ہوتی تھی جبکہ یہاں جنگ و جدل کے بغیر ایسا ہو رہا تھا۔ اگر ایک طرف اتنی بڑی تبدیلی نظر آتی ہے روایات کو توڑا جا رہا ہے تو وہیں ساتھ ہی صدیوں پرانے نظام کو تحفظ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ ؟

شاید اس کا جواب یہ ہے کہ قوموں کے نظریات و افکار کا تعین کار ان کا سماج ہوتا ہے۔ اور سماجی اقدار و رویوں کے نقش و نگار فرد اور قوم کے مزاج میں یوں پیوست ہو جاتے ہیں کہ ان سے رو گردانی موت کے مترادف ہوتی ہے۔ فرد اور سماج ووہی سوچتا، پرکھتا، دیکھتا اور فیصلے کرتا ہے جس کی معاشرتی اقدار اسے اجازت دیتی ہیں۔

اسرائیلی اور عرب دونوں خود کو حضرت ابراہیم کی اولاد کہتے تھے۔ دونوں سامی قوموں کے سماجی نظام کی بنیاد صدیوں سے چلی آرہی ( کافی حد تک مشترک) قبایلی اقدار پر قائم تھی۔ قبائلی نظام قوموں کو مرکزی وحدت میں پرونے اور امور زندگی چلانے کے لیے باہمی رضامندی سے فیصلہ سازی میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ قبایلی عصبیت ہی قومی وحدت کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ اگرچہ اس وقت تک اہل یونان عوامی خواہش و رائے پر مبنی جمہوری نظام کی داغ بیل ڈال چکے تھے تاہم ریگستان عرب اپنے مخصوص معروضی حالات اور کم یاب وسائل کے سبب اردگرد کی ترقی یافتہ بڑی سلطنتوں سے تقریبا کٹا ہوا تھا۔

روابط و کشائف ( Exposure) کے فقدان کے سبب یہ لوگ ان علوم سے بے بہرہ رہے اسی سبب یونان و روم کے جمہوری تصورات کو اپنایا نہ جاسکا۔ اسی لیے اس ابتدائی ریاست مدینہ کا ڈھانچہ سیکو لر نظریات پہ قائم ہونے کے باوجود مختلف شہری قبائل کے بیچ مذہبی و گروہی ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکام رہا۔ یہی قبائلیت و قوم پرستی بالا آخر اس بہترین انتظام کو پاش پاش کر گئی۔ اور کچھ ہی سالوں بعد یہود و عرب باہم دست و گریباں ہوگئے۔ اور یوں آنے والے زمانوں کے لیے امن و بھائی چارے کے مثالی معاشرے کا خواب جس کی تمنا تھی خاک ہو گیا۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).