جدید دور کے ٹھگ اور تبدیلی سرکار کی چھنچھناتی چوڑیاں


پرانے وقتوں میں لوگوں کو بیوقوف بنا کر مال بٹورنے کے لیے ایک گروہ ہوا کرتا تھا اس گروہ سے وابستہ لوگ ٹھگ کہلاتے تھے،انہی ٹھگوں کا ایک واقعہ ہے کہ

”ایک دیہاتی بکرا خرید کر اپنے گھر جا رہا تھا کہ چار ٹھگوں نے اسے دیکھ لیا اور ٹھگنے کا پروگرام بنایا۔ چاروں ٹھگ اس کے راستے پر کچھ فاصلے سے کھڑے ہو گئے۔ وہ دیہاتی کچھ آگے بڑھا تو پہلا ٹھگ اس سے آکر ملا اور بولا“ بھائی یہ کتا کہاں لے کر جارہے ہو؟ ”دیہاتی نے اسے گھور کر دیکھا اور بولا“ بیوقوف تجھے نظر نہیں آرہا کہ یہ بکرا ہے کتا نہیں ”۔ دیہاتی کچھ اور آگے بڑھا تو دوسرا ٹھگ ٹکرایا۔ اس نے کہا“ یار یہ کتا تو بڑا شاندار ہے کتنے کاخریدا؟

”دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا۔ اب دیہاتی تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا مگر آگے تیسرا ٹھگ تاک میں بیٹھا تھا جس نے پروگرام کے مطابق کہا“ جناب یہ کتا کہاں سے لیا؟ اب دیہاتی تشویش میں مبتلا ہو گیا کہ کہیں واقعی کتا تو نہیں۔ اسی شش و پنج میں مبتلا وہ باقی ماندہ راستہ کاٹنے لگا۔ بالآخر چوتھے ٹھگ سے ٹکراؤ ہوگیا جس نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی اور بولا: جناب کیا اس کتے کو گھاس کھلاؤ گے؟ اب تو دیہاتی کے اوسان خطا ہو گئے اور اس کا شک یقین میں بدل گیا کہ ”یہ واقعی کتا ہے۔ “ وہ اس بکرے کوچھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا یوں ان چاروں ٹھگوں نے بکرا ٹھگ لیا۔

آج کے دور میں ان ٹھگوں کا نام ایمپائر کی وہ انگلی ہے جس کے اٹھنے پر تبدیلی سرکار معرض وجود میں آئی، جبکہ سادہ لوح دیہاتی ہم عوام ہیں جو ہر بار بار ایمپائر کی باتوں میں آکر اپنے بکرے کو تن تنہا چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اور بکرے سے مراد وہ ترقی ہے جو پاکستان مسلم لیگ کے مختلف ادوار میں اس ملک نے کی ہے اور جیسے ہی پاکستان مسلم لیگ اپنے بیانیہ ووٹ کو عزت دو کیطرف گامزن ہوئی جدید دور کے ٹھگوں نے پھر سے بکرا چرانے کی تدبیر کرنا شروع کی اور اس کے لئے ان کے ہاتھ ایسا کھلاڑی لگا جس نے زندگی بھر کرکٹ کھیلنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں کیا تھا لیکن اسے ایسے ہیرو بنا کر پیش کیا گیا جیسے 92 کا ورلڈ کپ تن تنہا اس نے مدمقابل تمام ٹیموں کو ناک آٶٹ کرتے ہوئے جیتا ہو، اس تناظر میں اسوقت کے وزیراعظم نواز شریف کی کرکٹ کی بہتری کے لئے کیے گئے اقدامات و خدمات کو ایسے بھلا دیا گیا جیسے شوکت خانم ہسپتال بنانے کے لیے نواز شریف کی خدمت کو بھلا دیا گیا تھا۔

اب جب پاکستان مسلم لیگ ن کے گزشتہ ادوار کی طرح اس بار بھی ملک معاشی، سیاسی، تجارتی سطح پر ترقی کر رہا تھا اور دنیا کے تمام سروے پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک میں تیز ترین ترقی کرنے والا ملک قرار دے رہے تھے اور تسلیم کر رہے تھے کہ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن 2013 ء کے مقابلے میں 2018 ء کو بہتر پاکستان دے کر جا رہی تھی۔ ایسے میں جدید دور کے ٹھگوں المعروف ایمپائر کی انگلی نے حسب سابق کرپشن اور غداری کے سرٹیفکیٹ کے چورن ایسے بیچنا شروع کیے جسطرح لیاقت علی خان شہید، فاطمہ جناح یا ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بارے میں ان کے بیانیے ”ووٹ کو عزت دو“ کے خلاف بیچنا شروع کیے تھے۔

افسوس یہ چورن ایسے وقت میں بیچنا شروع ہوا جب پاکستان مسلم لیگ ن اپنے تیسرے دور اقتدار میں نواز شریف کی قیادت میں نیشنل گرڈ اسٹیشن میں 11 ہزار 400 میگاواٹ بجلی کا اضافہ کر چکی تھی، پشاور سے کراچی تک موٹروے مکمل کی جا چکی تھی، فاٹا کو مین سٹریم میں لانے کا اعزاز حاصل کیا جا چکا تھا اور اتحادی جماعتوں کی ناراضگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فاٹا کو کے پی کے میں انضمام کے لئے آئین میں 31 ویں ترمیم منظور کروائی جا چکی تھی۔

2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس وقت دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، معیشت کی بدحالی، توانائی بحران اور امن و امان کی صورتحال اور خار جہ تعلقات جیسے کئی چیلنجز کا سامنا تھا۔ لیکن نواز شریف کی قیادت میں اور پاکستان مسلم لیگ کے وژن کیمطابق ملک کی ترقی و استحکام کے لئے بیش بہا اقدامات کیے گئے جس میں سرفہرست دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن اقدام اور اتفاق رائے کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں پاکستان کے ماتھے کا جھومر افواج پاکستان کے تعاون سے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا جس کی وجہ سے ملک میں امن و امان میں نہ صرف بہتری آئی بلکہ دہشت گردی کے ناسور کو ناکام بنا دیا گیا۔

اس لیے ہمیں یہاں یہ تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے ہمیشہ پاکستان کو آگے بڑھایا ہے، گزشتہ پانچ سالہ دور میں لوڈ شیڈنگ اور دہشتگردی کا خاتمہ کیا، عالمی سطح پر پاکستان کو ایمرجنگ اسٹیٹ کہا گیا، مسلم لیگ (ن) ہی نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، مسلم لیگ (ن) ہی نے اقتدار میں آ کر مہنگائی کی کمر توڑی۔ مسلم لیگ (ن) ہی نے لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کاخاتمہ کیا، بجلی کے کارخانے لگائے، اس لیے پاکستان مسلم لیگ ن کی ترقی کو عالمی سطح پر مانا گیا، (ن) لیگ کی حکومت نے ہمیشہ ملک و قوم کی خدمت کی اور ملکی دفاع کو مضبوط کیا۔

اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ میاں نواز شریف نے اپنے تیسرے دور حکومت میں ”جدید پاکستان“ کی بنیاد رکھی ہے انہوں نے اپنے دور حکومت میں اس قدر میگا ترقیاتی منصوبے شروع کیے کہ ان کا نامزد وزیراعظم ان منصوبوں کا افتتاح کرتے کرتے تھک گیا جس کا شاہد خاقان عباسی نے میاں محمد نواز شریف سے ذکر بھی کیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اقتدار کے آخری 10 ماہ کے دوران ریکارڈ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہر ہفتے دو تین ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرتے رہے اور آخری دنوں میں تو وزیراعظم نے ایک دن میں دو، دو ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا۔ حتیٰ کہ وہ اپنی حکومت کے آخری دن بھی بے پناہ مصرف رہے۔ شاہد خاقان عباسی نے ایک دن میں پانچ سے چھ اجلاسوں کی صدارت کرنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ حتیٰ کہ منگل کو وفاقی کابینہ اور قومی سلامتی کے اہم اجلاس منعقد کرنے کے بعد جمعرات کو وفاقی کابینہ کا آخری اجلاس بھی طلب کیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس آخری روز تک جاری رکھا۔ وزیراعظم نے حکومت ختم ہونے سے چند گھنٹے قبل قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس منعقد کرکے فاٹا کو ٹیکس کی 5 سال کی چھوٹ دینے کی منظوری بھی دی۔

لیکن افسوس اس سب کے باوجود جدید دور کے ٹھگوں نے ایمپائر کی انگلی اٹھنے کے منتظر تبدیلی کپتان کو اقتدار میں لانے کے لئے جس بھونڈے انداز میں نواز شریف کو بلاجواز احتسابی عمل سے گزار کر نا اہل کیا اس سے درج ذیل سوالات جنم لیتے ہیں

1۔ اگر نواز شریف نے کرپشن کی تو اقامہ پر نا اہلی کیوں ہوئی؟

2۔ اگر نواز شریف نے ملک کا پیسہ لوٹا تو 10 سال قید کی سزا فرضی بنیادوں پر کیوں دی؟

3۔ اگر نواز شریف نے منی لانڈرنگ کی تو ثبوت کہاں ہیں؟

4۔ اگر نواز شریف نے غداری کی تو ملک کو ایٹمی طاقت، سی پیک اور انڈیکس 54 ہزار تک کون لے کر گیا؟

اس کے علاوہ نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف جس تیزی سے کرپشن کا چورن بیچا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے

یہ ہمارا المیہ ہے کہ لیاقت علی خان سے فاطمہ جناح اور نواز شریف تک جس نے بھی سول حکمرانی کی بات کی اسے جدید دور کے ٹھگوں نے غداری و کرپشن کے سرٹیفکیٹ تقسیم کیے۔

اس لیے آج ہر ‎ذی شعور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی عجیب کرپٹ و غدار حکومت تھی جس نے اپنے دور اقتدار میں 30 ارب ڈالر قرض واپس کیا جس کا اعتراف گزشتہ روز خود صادق الامین حکومت کے وزارت خزانہ نے سینٹ میں کیا۔ اب یہ کیسی پچھلی کرپٹ حکومت تھی جو ملک کے طول و عرض میں میگا پراجیکٹس کا جال بھی بچھا گئی، دہشت گردی بھی ختم کر گئی، ملک کو ایٹمی قوت بھی بنا گئی، سی پیک جیسے منصوبوں کا آغاز بھی کر گئی اور لوڈشیڈنگ کے بحران کا خاتمہ کرکے بجلی کے ایسے منصوبے لگا گئی کہ اسوقت بجلی طلب سے زیادہ ہے۔

ڈالر سے لے کر آئی ایم ایف اور امریکہ تک کو اوقات میں رکھا۔ ایمپائر کی انگلی کو عوام کے انگوٹھے کے ماتحت کرنے کے عزم کا ارادہ کیا۔ اور پھر یہ شریف برادران کیسے عجیب ڈاکو تھے جو کرپشن کے باوجود ہر بار اقتدار ملنے پر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر گئے، جتنا قرضہ لیا اس سے زیادہ واپس کیا۔ اور پھر بقول کپتان صادق الامین حکومت کے کہ پچھلی حکومت روزانہ تیس ارب ڈالر کی کرپشن کرتی تھی اتنی کرپشن کرنے کے باوجود زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی اٹھارہ ارب ڈالر چھوڑ گئی۔

لیکن پھر بھی صادق الامین تبدیلی سرکار سے ملک نہیں چل رہا اور احتسابی عمل سے انتقامی جذبے کی تسکین کے سوا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔ سرمایہ کاری رک گئی۔ پیداوار میں نمو صفر ہو گئی۔ محصولات کا ہدف پورا نہیں ہوا۔ خارجہ پالیسی سے لے کر داخلی پالیسی تک سب ناکامی کا شکار ہے۔ نا کوئی طرز حکمرانی ہے اور نہ ہی کوئی نظم و ضبط ہے، بس ہر طرف نا اہل افراد کا ٹولہ بیٹھا ہے جن کے پاس نہ ہی کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی وژن بس ہر طرف بدنظمی ہی بدنظمی ہے جس کی بدولت مہنگائی اور بے روزگاری کے سونامی میں عوام ڈوب رہے ہیں اور تبدیلی سرکار بحران در بحران کا باعث بن رہی ہے المختصر یہ کہ تبدیلی سرکار کی اب تک کی کارکردگی اس دلہن کی طرح ہیں جو روٹیاں کم بیلتی ہے اور چوڑیاں زیادہ چھنچھناتی ہے تاکہ محلے والوں کو یہ پتہ چلے کہ وہ کام کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).