عمران خان کے وعدے اور حقیقت


‏‎بلا شبہ عمران خان کا شمار دنیا کے بہترین کرکٹرز میں ہوتا ہے اور وہ پاکستان کے بہترین کپتان بھی رہ چکے ہیں۔ مگر 25 سال کے طویل سیاسی تجربہ کے باوجود عمران خان ابھی تک سیاسی نا بالغ لگتے ہیں۔ ‏‎ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کچھ طاقتور قوتوں کی جانب سے عمران خان نیازی کو کرکٹ کے میدانوں سے نکال کر سیاسی اکھاڑے میں دھکیلا گیا۔ ‏‎عمران خان نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز تو 1997 میں ہی کردیا تھا مگر مقبولیت ان کو 2011 کے مینار پاکستان کے جلسے میں ملی۔

‏‎کیونکہ اس جلسہ میں اور اس کے بعد انھوں نے اپنی ہر تقریر و جلسہ میں الیکٹیبلز، خاندانی موروثی سیاست کے خلاف اور نئی صاف ستھری پڑھی لکھی قیادت کو آگے لانے کی بات کری۔ ‏‎ان کے اس بیانیے کو عوام میں بہت پزیرائی ملی اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اس وقت ہمیں عمران خان میں ایک نظریاتی لیڈر کی جھلک نظر آئی کیونکہ اس کا نظریہ اس کا بیانیہ ایک نظریاتی لیڈر جیسا تھا۔ ‏‎بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو انٹرویوز دیتے ہوئے بھی انھوں نے اپنے آپ کو ایک نظریاتی لیڈر ثابت کرنے کے لیے کئی مواقعوں پر پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی مخالفت کری۔

‏‎عمران خان کی نظریاتی سوچ اور اس کے فلسفہ کو دیکھتے ہوئے ابتدا میں نظریاتی سوچ رکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کری۔ جن میں کامریڈ معراج محمد خان، جسٹس وجیہہ الدین، احسن رشید مرحوم، فوزیہ قصوری جیسے صاف ستھرے نظریاتی نفیس لوگ شامل تھے۔ ‏‎مگر آہستہ آہستہ تحریک انصاف اپنے مرکز سے دور ہوتی چلی گئی اور ایک ایک کر کے نظریاتی لوگوں کی ایک کثیر تعداد عمران خان کا ساتھ چھوڑتی چلی گئی یا جسٹس وجیہہ الدین کی طرح ان کو فارغ کردیا گیا۔

‏‎ان نظریاتی صاف ستھرے نفیس لوگوں کی جگہ وہ ہی آزمودہ چہرے خان صاحب کے نزدیک ہوتے گئے جو ایک عرصے سے پارٹیاں بدل بدل کر مفاد پرستی کی سیاست کرتے چلے آرہے ہیں۔ جن کے پاس نا نظریہ ہے نا سوچ اور نا ہی فلسفہ ہے۔ اور وہ ہر بار کٹھ پتلی کی طرح سیاسی جماعتوں کی تقسیم میں استعمال ہوتے آئے ہیں۔ 2018 کے ‏‎ الیکشن سے پہلے ایک سوچے سمجھے ‏‎منصوبے کے تحت عمران خان کو ایک مسیحا کے روپ میں ہمارے میڈیا میں پیش کیا گیا۔

‏‎دن رات عمران خان کے قصیدے سنائے گئے۔ عوام کا برین واش کیا گیا کہ پاکستان کو صرف عمران خان ہی بچا سکتا ہے۔ وہ اقتدار میں آجائے گا تو یہاں دودھ کی ندیاں بہنے لگیں گی۔ بیرون ملک کی ترقی کی راہوں پر چل نکلے گا۔ بدعنوان اور کرپٹ سیاسی مافیہ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ‏‎مگر 2018 کے الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم نے ہی یہ ثابت کردیا کہ تحریک انصاف اپنے نظریہ سے منحرف ہوچکی ہے۔ جو عمران خان خاندانی موروثی سیاست اور الیکٹیبلز کی جگہ صاف ستھرے نفیس نوجوان پڑھی لکھی قیادت کی بات کرتا تھا۔

اس کی طرف سے ان ہی کرپٹ بدعنوان موروثی سیاست دانوں کو ٹکٹ دیے گئے جو ایک نصف صدی سے پارٹیاں بدل بدل کر حکمران جماعتوں کی غلامی کر کے ایوانوں کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ ‏‎الیکشن 2018 سے پہلے واقعی انھوں نے اپنی تقاریر، وعدوں اور اپنے منشور سے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ اور کیوں متاثر نا کرتے کیوں کہ انھوں عوام کو ایک پرکشش پیکیج دیا، ان کو بتایا گیا کہ ہر پاکستانی فی کس کتنا مقروض ہے۔ ان کو بتاگیا کہ آپ کے حکمران آپ پر بادشاہت کرتے آئے ہیں۔ مگر ہم بادشاہت کا خاتمہ کردیں گے۔ ‏‎

ان کو بتایا گیا کہ ہالینڈ کا وزیر اعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے مطلب اقتدار میں آنے کے بعد پروٹوکول سسٹم ختم ہوجائے گا۔ بادشاہت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لوگ بے چارے سمجھنے لگے کہ خان صاحب بھی وزارت عظمی کا منصب ملنے کے بعد سائیکل پر دفتر جایا کریں گے۔ لوگوں نے امید باندھ لی کہ عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد بھلے خود کشی کرلے گا مگر آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لے گا۔ ‏‎ انھوں نے خان صاحب کہ انتخابی وعدوں پر یقین کرتے ہوئے اس بات پر بھی یقین کرلیا کہ اقتدار میں آنے کہ اگلے دن ہی بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس آجائے گی جو ان پر خرچ ہوگی۔ حکومت غریبوں کو پچاس لاکھ مفت گھر بناکر دے گی۔ بے روزگاروں کو ایک کروڑ نوکریاں دے گی۔ ملک اتنی ترقی کرے گا کہ لوگ بیرون ملک سے اپنی نوکریاں چھوڑ کر ان کو لات مارکر یہاں آکر سرمایہ کاری کریں گے۔

ہمارے معصوم اور سادہ عوام سوچنے لگے کہ خان کہتا ہے جب عالمی منڈی میں پیٹرول سستا ہوتا ہے تو یہاں بھی پیٹرول بھی پیٹرول سستا ملنا چاہیے۔ عوام کو خان نے یہ بھی امید دلا دی کہ جب ملک میں مہنگائی بڑھنے لگتی ہے تو اس کامطلب ہوتا کہ آپ کا وزیر اعظم چور ہے۔ لہذا صادق و امین خان اقتدار میں آکر مہنگائی ختم کر ڈالے گا۔

‏‎ایسا لگتا ہے کہ عمران خان عامر لیاقت صاحب سے زیادہ متاثر ہیں اور ان ہی موصوف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان ہی کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی شخصیت کو نقصان پہچارہے ہیں۔ آئے دن کی ان کی پھسلتی زبان اور ان کی پالیسی ان کے یو ٹرنز ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ اور رہی سہی کسر فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان جیسے کردار پوری کررپے ہیں۔ ‏‎ان کو سوچنا چاہیے کہ وہ اب نا ایک کھلنڈر نوجوان کھلاڑی ہیں نا ہی وہ اپوزیشن میں ہیں کہ جو بھی کہہ جائیں جس لہجے میں بھی کہہ جائیں۔ وہ پاکستان کہ وزیر اعظم ہیں۔ اور حکومت میں ہیں۔ احتجاجی سیاست چیخنا چلانا یہ سب اپوزیشن کیا کرتی ہے۔ مگر شاید وہ ابھی بھی خود کو اپوزیشن لیڈر ہی تصور کرتے ہیں۔ اور اپنی زوجہ کی یاد دہانی پر ہوش میں آتے ہیں کہ آپ وزیراعظم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).