چالیس امریکی ریاستوں اور مغربی ملکوں میں پاکستانی ٹرک آرٹ کے استاد کا جادو


شہر کی کِسی بھی سڑک پر محوِ سفر ہوں آپ بھلے اردگرد آنے والے مناظر میں دلچسپی رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں آپ اُن ٹرکوں اور گاڑیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے جو ہمارے مُلک کی سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ کو کبھی ان کی آہستہ رفتار پر غُصہ آتا ہو تو کبھی ڈرائیورز کی لاپرواہ بلکہ خطرناک ڈرائیونگ پر خُون کھولتا ہو لیکن آپ اِن ٹرکوں پر موجود آرٹ، پینٹنگز، ڈیزائنز اور لکڑی پر کاروڈ اینڈ اینگریوڈ carved and engraved پرندوں کی تصاویر کو نظر انداز نہیں کرسکتے اور نہ ہی ٹرکوں کے پیچھے بنی شخصیات کی تصاویر کو دیکھے بِنا رِہ سکتے ہیں۔

ٹرک آرٹ تقسیمِ ہند سے قبل ہی ٹرک ڈرائیورز کا شوق رہا ہے۔ پہلے پہل سِکھ ڈرائیورز اپنا ٹرک سجاتے تھے اُس پر اپنے مذہبی گُروؤں کی تصاویر بناتے اور پُھول وغیرہ بناتے۔ اُن کی دیکھا دیکھی مُسلمانوں نے بھی مشہور صُوفیاءاکرام کی پینٹنگز اور سجاوٹ شُروع کردیں۔ پاکستان بننے کے بعد یہ سلسلہ کہیں رُکا نہیں بلکہ اِس میں جِدت اور خُوبصورتی آتی گئی۔ اُنّیس سو ستر سے پہلے ٹرکوں پر زیادہ لکھائی یا شعر و شاعری کا کام نہیں ہوتا تھا۔

ایوب صاحب کے مارشل لاء دور میں خیبرپختونخواہ کے صُوبے کے ٹرک ڈرائیورز اپنے ٹرکوں کی پچھلی طرف اُن کی باوردی تصویر پینٹ کراتے تھے۔ پھر اُنّیس سو ستر کے بعد جب بُھٹو صاحب سیاست میں بُہت پاپُولر تھے تب اُن کی پینٹنگز بھی بننے لگیں۔ بُروس لِی وُہ پہلا غیر مُلکی تھا جِس کی پینٹنگز ہمارے پاکستانی ٹرکوں پر نظر آنے لگیں۔ اِس کے بعد ستر کی دہائی میں بننے والی فلم ہیر رانجھا کے کردار اعجاز اور فردوس کی پینٹنگز بھی پنجابی ٹرک ڈرائیورز کی فیورٹ ٹھہریں۔

ستر اور اَسی کی دہائی میں کفیل بھائی گھوٹکی والے رائیٹ آرم لیفٹ آرم سپنر نے اپنے ٹرک آرٹ میں بُہت نام کمایا۔ وُہ کبھی اچھے لیول پر کرکٹر تو نہ بن سکے یعنی کُچھ چھوٹے لیولز کے کلبوں کی طرف سے کرکٹ کھیل سکے لیکن بہرحال ٹرک آرٹ میں اُن کا نام ہمیشہ زِندہ رہے گا۔

ستر کی دہائی کے بعد ٹرکوں پر زندگی کی حقیقتوں پر مبنی اشعار یا دیگر کئی طرح کی خطاطی بھی ہونے لگیں۔ پرندوں کی اشکال جیسے مور، طوطے، کبوتر، عُقاب اور شاہین وغیرہ بھی بنائے جانے لگے۔ ڈرائیور کیبن بھی اندر سے خصوصی طور پر سجایا جاتا ہے۔ بُہت ساری تحاریر اور چھوٹے چھوٹے اشعار ٹرک ڈرائیورز کی اپنی تلخ زندگیوں کی تلخیاں بھی سامنے لاتے ہیں۔

کراچی کے پُرانے گولیمار کے علاقے میں تین دہائیوں سے ایک گیراج اپنے ٹرک آرٹ کے لئے مشہور ہے۔ اُستاد حیدر علی نے اپنے فن کا مُظاہرہ امریکہ کی چالیس ریاستوں سمیت کینیڈا، برازیل، جرمنی، فرانس انڈیا اور کئی یورپی ممالک میں کیا ہے۔ اُنھیں کئی ممالک کی آرٹ یُونیورسٹیز میں اپنا فن سکھانے کے لئے بُلایا جاتا ہے۔ کئی بار اپنے غیرمُلکی طُلباء کو حیدر علی نے مُفت میں اپنا کام سکھایا اور بدلے میں یہ کہا کہ جہاں بھی جائیں پاکستان کے بارے میں ایک مثبت پیغام دیں۔

اُستاد حیدر علی یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں پہلے پہل ٹرک آرٹ کی قدرو قیمت نہیں تھی لیکن جب غیر ممالک نے اِس کام میں دلچسپی لینی شُروع کی تو پھر پاکستان میں بھی لوگوں کو اِس کی قدروقیمت کا اندازہ ہُوا۔ ایک ٹرک دوسے تین ہفتوں میں مکمل ہوتا ہے اور اُس پر ڈیڑھ سے دو لاکھ پاکستانی روپے کا خرچہ آتا ہے۔ ایک پینٹر تقریباً پندرہ سو اور اُس کا ہیلپر چار سو کے قریب دیہاڑی لیتا ہے۔ ایک ٹرک کی سجاوٹ پندرہ سے بیس لوگوں کی کفالت کر جاتی ہے۔

پاکستانی ٹرک آرٹ کئی ممالک میں مشہور ہے جیسا کہ آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کُچھ عرصہ چلنے والی ٹرام Z 1 81 ہے جِسے کراچی کے مشہور رُوٹ W 11 پر چلنے والی بسوں کی طرز پر سجایا گیا ہے۔ ٹرام 2006 / 7 کامن ویلتھ گیمز کے دوران شہر میں چلائی گئی جِس کو بعد ازاں مُستقل طور پر ٹرام میوزیم میں نُمائش کے لیے رکھ دیا گیا۔ اِسی طرح پیرس میں موجود سکوٹر، برطانیہ میں موجود ٹرک، یہ سب پاکستانی ٹرک آرٹ سے متعلقہ ہیں۔

نئے تعمیر ہونے والے اِسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی کئی اندرونی دیواروں کو پاکستانی ٹرک آرٹ سے سجایا گیا ہے، بالخصوص جہاں بین الاقوامی پروازوں سے آنے والے مُسافر اپنا سامان لیتے ہیں۔ یہ سب آرٹ ہمارے مُلک کا ایک سوفٹ چہرہ دُنیا کے سامنے لاتے ہیں، دُنیا ہمیں مہمان نوازی، خُوش رہنے والی فطرت، کھیلوں بالخصوص کرکٹ سے پیار کرنے والے مُلک کے طور پر بھی دیکھتی ہے۔ اب ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ سب پاکستانی مِل کر پاکستان کا ایک اچھا اور سافٹ امیج دُنیا کے سامنے لائیں۔ مسائل پر بھی باتیں ہوتی رہیں گی لیکن اُس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے مُلک کا نام بھی روشن کرنا ہے۔

This slideshow requires JavaScript.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).