یہ ایاز امیر کے لیے مشکل وقت ہے


ایاز امیر صاحب ایک خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں، خوشبو میں لپٹی ہوئی گفتگو کرتے ہیں، انگریزی میں بات ہو تو شیکسپئیر سے نیچے نہیں اترتے اور اگر پنجابی میں شروع ہو جائیں تو بلھے شاہ یاد دلا دیتے ہیں۔ گرمیوں میں شلوار کرتا پہنتے ہیں اور کرتے کے کف کہنیوں تک موڑ لیتے ہیں، سردیوں میں عموماً کوئی شال یا کوٹ کے ساتھ مفلر لپیٹ لیتے ہیں، یہ ان کا مخصوص انداز (signature style ) انداز ہے، اگر بڑھاپے میں شان کونری کے سر پر بال ہوتے تو وہ سفید داڑھی کے ساتھ بالکل ایاز امیر لگتا۔

ایاز امیر ڈان میں انگریزی کالم لکھا کرتے تھے تو ہم ان کی انگریزی کے دلدادہ تھے، اب وہ اردو میں کالم لکھتے ہیں تو اب بھی ہم ان کا کالم پڑھے بغیر صفحہ نہیں پلٹتے، ان کے نظریات سے مجھے اختلاف ہے اور اس اختلاف کا اظہار میں کرتا رہتا ہوں، ان سے زیادہ ملاقات نہیں رہی مگر جب کبھی ملے تو محبت سے پیش آئے، آخری ملاقات گزشتہ سردیوں میں ہوئی تھی، دلیل سے گفتگو کی، جہاں انہیں لگا کہ ان کا موقف درست نہیں تو برملا اس کا اعتراف کیا، یہ بڑے آدمی کی نشانی ہوتی ہے۔

ایاز امیر پاکستان کے غالباً واحد لکھاری ہیں جو اپنے ’لبرل‘ ہونے کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں اور اس ضمن میں وہ طاقتور مذہبی طبقے کی بھی پروا نہیں کرتے، یہاں لبرل کو واوین میں بوجوہ لکھا گیا ہے، وہ اپنے شوق اور مزاج کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھتے بلکہ برملا بات کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں شخصی آزادی ہونی چاہیے اور ریاست کو فرد کے معاملات میں دخیل نہیں ہونا چاہیے۔ کسی زمانے میں انہیں میں نے ایک ٹی وی پروگرام کی تجویز دی تھی جس میں وہ سقراط کے انداز میں نوجوانوں کے درمیان بیٹھے ہوں اور ان سے مکالمے کے انداز میں گفتگو کریں لیکن یہ تجویز ان کے اور میرے درمیان ہی رہی، کسی ٹی وی چینل کو نہیں پیش کی گئی۔

عوام میں ایاز امیر کا تاثر ایک ایسے لکھاری کا ہے جو آزاد خیال ہے، بیباک ہے، پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف لکھتا ہے، اس ملک میں لبرل اور سیکولر اقدار کے فروغ کا حامی ہے اور تاریخ، موسیقی اور ادب کا دلدادہ ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں جب یہ خبر ملے کہ اس کی بہو سارہ، جو کینیڈا کی شہری تھی، کا قتل ہو گیا ہے اور قتل کرنے والا خود اس کا اپنا شوہر یعنی ایاز صاحب کا بیٹا ہے تو بندہ سکتے میں آ جاتا ہے کہ ایسے نفیس آدمی کے بیٹے نے اس قدر خوفناک جرم کیوں کر کیا! کیا ایاز امیر، جو ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ معاشروں میں کس قسم کی اقدار کو پروان چڑھانا چاہیے، اپنے ہی بیٹے کی صحیح تربیت نہ کرسکے؟ کیا اس میں ایاز امیر کا قصور تھا؟ اگر ایاز امیر خود اس جرم پر آزردہ ہیں تو کیا یہ آزردگی سارہ کے والدین کا دکھ کم کرسکے گی؟

شاہنواز کی یہ تیسری شادی تھی، اس سے پہلے وہ دو بیویوں کو طلاق دے چکا تھا، سارہ کے ساتھ شادی کی اس کی ویڈیو اب سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ بے حد خوش دکھائی دے رہی ہے، اس بیچاری کو کیا پتا تھا کہ وہ اپنے نکاح نامے پر نہیں بلکہ موت کے پروانے پر دستخط کر رہی ہے۔ اس قتل کی تفتیش جاری ہے، مقدمہ چلے گا تو مزید حقائق سامنے آئیں گے، فی الحال اس کا سماجی پہلو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سارہ کے قتل نے نور مقدم کے قتل کی یاد تازہ کردی ہے، اسے بھی ایسے ہی سفاک انداز میں قتل کیا گیا تھا، اس وقت بھی ایک مخصوص طبقے نے، حسب عادت، وکٹم بلیمنگ کی اور نور مقدم کو قصور وار ٹھہرایا کہ وہ غیر مرد کے گھر اکیلی کیوں گئی حالانکہ اس ملک میں چار چار سال کی بچیوں کو، جو کسی غیر مرد کے گھر نہیں جاتیں، بے دردی سے ریپ کر کے قتل کر دیا جاتا ہے، ادھیڑ عمر شادی شدہ عورتوں کو گھر بیٹھے قتل کر دیا جاتا ہے اور تو اور برقع پوش اور پردہ دار لڑکیاں بھی خونخوار مردوں سے محفوظ نہیں رہ سکتیں۔

مجھے یہ حسن ظن تھا کہ اس مرتبہ سارہ کو اس کے اپنے قتل کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا مگر افسوس کہ کچھ لوگ اس مرتبہ بھی لڑکی کا ہی قصور نکال کر لے آئے ہیں کہ اس نے دیکھ بھال کے اور اپنے والدین اور بڑے بزرگوں کے مشورے سے شادی نہیں کی لہذا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ اول تو یہ بات مفروضے پر مبنی ہے کہ اس نے والدین سے مشورہ نہیں کیا اور دوم، اگر نہیں بھی کیا تو اسے قتل کر دیا جانا چاہیے تھا؟ جب وکٹم بلیمنگ کرنے والوں سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ رٹا رٹایا جواب دے دیتے ہیں کہ کوئی بھی اس قتل کی حمایت نہیں کر رہا۔ بہت شکریہ جناب۔ ان لوگوں کو یہ ادراک نہیں کہ قتل کا قصور مقتول کے سر ڈال کر وہ دراصل قتل کا جواز ہی فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔

سارہ کے قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی کیونکہ وہ ایاز امیر کی بہو تھی، پولیس نے شاہنواز کو تو گرفتار کیا مگر ساتھ ایاز امیر کو بھی حراست میں لے لیا، ان سے پوچھ گچھ کی، دو چار دن وہ حوالات میں بھی بند رہے، اس دوران کچھ صحافیوں نے ان سے سوالات کیے تو انہوں نے نہایت تحمل سے جوابات دیے، ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ صدمے کی حالت میں ہیں مگر خود کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس پورے واقعے کے دوران انہوں جس بردباری سے کام لیا وہ قابل ستائش ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ سارہ کے والدین کے لیے اب ساری عمر کا غم ہے جس کا کوئی مداوا نہیں۔

جہاں تک ایاز امیر پر ہونے والی تنقید کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس کے سزاوار نہیں، ان کا بیٹا اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے، شکل سے وہ پینتیس چالیس برس کا لگتا ہے، ایسے بندے پر والدین کی مرضی نہیں چلتی۔ اور رہی یہ بات کہ ایاز امیر خود تو دنیا بھر کا ادب چھان کر بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن اپنی اولاد کی تربیت ٹھیک نہ کرسکے تو اس میں بھی دم نہیں۔ اگر کوئی شخص اچھا لکھاری ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک مثالی والد بھی ہو گا۔

اولاد کی تربیت، گھر بار، رشتہ داریاں، شادی نبھانا۔ یہ ہر گھر کے کے مسائل ہیں، دنیا کا کوئی شخص ان مسائل سے آزاد نہیں، فرق صرف یہ ہے کہ کوئی ان مسائل کو سلجھا لیتا ہے اور کوئی سلجھا نہیں پاتا۔ اولاد کی تربیت دنیا کے چند مشکل ترین کاموں میں سے ایک کام ہے اور یہ زندگی کا سب سے اہم کام بھی ہے، لیکن اس کام کے لیے نہ تو ہم کسی کالج میں داخلہ لیتے ہیں اور نہ ہی کوئی تربیتی کورس کرتے ہیں، یہ کام بس تیر تکے سے کیا جاتا ہے۔

ایاز امیر اس معاملے میں بے بس تھے اور بے بس ہیں۔ جو کچھ ہو گیا اسے وقت کا پہیہ گھما کر واپس نہیں کیا جا سکتا، سارہ کے والدین کو اب زندگی بھر کا روگ لگ چکا ہے، ایسا غم خدا کسی دشمن کو بھی نہ دے۔ اب ایاز امیر کو چاہیے کہ وہ تفتیش میں پولیس کے ساتھ بھرپور تعاون جاری رکھیں اور اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں سارہ کے والدین کا ساتھ دیں، اس سے ان کا غم کسی قدر ہلکا ہو گا۔ ایاز امیر کے بیٹے پر سارہ کے قتل کا الزام ہے اور بظاہر یہ الزام درست ہے، یہ بات ایاز صاحب کے لیے دہری اذیت کا باعث ہے، ایک طرف ان کی بہو قتل ہو گئی اور دوسری طرف ان کا بیٹا ہے جس کا انجام بھی نور مقدم کے قاتل ظاہر جعفر جیسا ہی ہو گا۔ ایاز امیر کے لیے یہ مشکل وقت ہے، انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ عمر کے اس حصے میں انہیں اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ زندگی ایسے ہی غیر متوقع واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے انسان مستقبل کے خوف کا شکار رہتا ہے۔ اس خوف کا کوئی اوپائے نہیں۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments