کپتان تمہاری تبدیلی مر رہی ہے



جب کہیں کوئی اپنے نقصان کو رو رہا ہوتا ہے ۔ تب وہیں کوئی اپنے فائدوں کا جشن منا رہا ہوتا ہے۔ ایک کمپنی جب اپنے آدھے ملازم فارغ کر دے تو ان کے گھروں میں روٹی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کمپنی کے شئر کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔

کیوں ؟ اس لیے کہ آدھے ملازموں کو فارغ کر کے کمپنی خرچہ بچا لیتی ہے پرافٹ میں چلی جاتی ہے۔

آئی ایم ایف آیا بھوک لایا تو پکا گیت ہے ، گانا چاہئے ۔ پر جب آئی ایم ایف آتا ہے ساتھ ہی یہ بات بھی طے ہو جاتی ہے کہ یہ جس ملک میں پہنچا ہے۔ وہ اب دیوالیہ نہیں ہونے والا ۔ وہ اپنے قرضوں کی ادائیگی وقت پر کرے گا۔ وہ ملک اپنے اخراجات کم کرے گا ۔ اس کی حکومت کے مالی نقصانات میں کمی آئے گی۔

یہ سب دیکھ کر سٹاک مارکیٹ اٹھ جاتی ہے۔ سیٹھوں کے منہ پر رونق آ جاتی ہے۔ ہماری سٹاک مارکیٹ بے دم ہو کر مری پڑی ہے۔ اٹھنے کا نام تک نہیں لیا مزید لمبا لیٹ گئی ہے۔

ضرورت مند دیوانہ ہوتا ہے ۔ سٹاک مارکیٹ کا ایک بڑا پلئر ان حالات کا اندازہ پہلے ہی لگا چکا۔ وہ کب سے پیروں کے گوڈے پکڑتا پھر رہا کہ سرکار معافی دے دیں ۔ اک بار ہمارے کپتان سے مل لیں اس کو معاف کر دیں۔

ہماری تبدیلی سرکار رج کے ڈھیٹ ہے۔ وہ حالات اپنے بیانات سے بے پروا ہو کر اب اک ٹیکس ایمنسٹی سکیم لا رہی ہے۔

ایسی بہترین مزاحیہ سکیم سے سیاستدان فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ جس بھی بندے نے کسی طرح چار پیسے کمائے ہیں اور کامیابی سے چھپا رکھے ہیں یا پاکستان سے باہر لے گیا ہے۔ اسے چار سے چھ فیصد ٹیکس ادا کر کے اپنا پیسہ حلال کرنے کا موقع دے رہی ہے حکومت۔

یہ ٹیکس کا صدمہ بھی وقتی ہے۔ آپ ٹیکس دے کر پیسے حلال کرو ۔ ان حلال پیسوں سے پاکستان سرٹیفیکیٹ خریدو اس پر آپ کو منافع بھی ملے گا۔

سیاستدان اس سکیم کا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے انہیں چاہئے کہ وہ وسی بابے جیسے کسی اعتباری بندے کے نام پر اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ ہزار پانچ سو اس کو بھی دے دیں جس کے نام پر اثاثے ہوں ۔ وہ غریب دوڑ کر کدھر جائے گا ، خیر۔

یہ سکیم بھی ناکام ہو گی اس کے ساتھ ہی حکومت بھی دم پر لگ جاوے گی۔ کی دم دا بھروسہ یار دم آوے نہ آوے۔

صحافیوں کے دادا استاد ضیاالدین صاحب کا عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں ویڈیو کلپ دیکھنے والا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قریشی صاحب وزیراعظم کے سنجیدہ امیدوار ہیں۔ کوئی این آر او نہیں ہو رہا۔ ڈیل کی ضرورت نوازشریف کو نہیں ہے ان کو ہے۔ یہ خود چل کر ڈیل مانگنے جائیں گے۔
ویڈیو کلپ دیکھا ملتان اپنے گرو سے بات کی کہ قریشی صاحب کیا کر رہے ہیں۔ پتہ لگا کچھ نہیں کر رہے بس منہ پہ رونق ہے۔ جہاں بھی جائیں جتنا بھی ضروری کام ہو اک منٹ ضائع نہیں کرتے سیدھا ملتان واپس آتے ہیں۔ اپنے حلقے پر توجہ دے رہے ہیں۔

اسلام آباد میں خاموشی سے ایک پاور شو کر چکے ہیں۔ جس کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔

زمینداروں کی اک انجمن بنا رکھی ہے۔ اس کا کوئی کھانا اور پروگرام کیا قریشی صاحب نے۔ ڈھائی تین سو بڑا زمیندار اکٹھا کر کے دکھایا۔ اگلوں کو کچھ بھی کہے بغیر بتا دیا کہ اتنا بھی ترین اور زراعت کے پیچھے نہ لگو۔ ہم بھی سجنو بیلیوں والے ہیں۔

میاں صاحب کیا کر رہے ہیں؟ آپ خود بتائیں ہر پاکستانی کی طرح آپ بھی تو مذہب سائنس کھیل حکمت کے ماہر ہونے کے علاوہ فنون لطیفہ پر بھی اتھارٹی ہیں۔ ہمارے میاں صاحب دلیپ کمار سے اچھے نہیں تو اس سے کم اداکار ہیں ؟

اگر انہیں ضمانت واقعی کروانی ہوتی۔ وہ اپنی دو فوٹو بھی ریلیز نہیں کرا سکتے تھے ہسپتال کے بیڈ سے؟ جن سے پتہ لگتا کہ میاں صاحب خدانخواستہ غصے سے فوت ووت ہونے لگے ہیں۔ انہیں نے ایسی فوٹو ریلیز کی ؟ نہیں کی تو کیوں؟ کرتے تو عدالت کا دل بھی پاٹ پاٹ جاتا اور کچھ ہفتوں کی مزید ضمانت مل جاتی۔

میاں صاحب چاہتے ہی نہیں کہ باہر رہیں اس وقت۔ وہ چاہتے ہیں کہ تسی کرو حکومت۔ بہت شوق سے آئے تھے لائے تھے اب چلاؤ۔ اوہ میں تو بولتا بھی نہیں، کچھ کر مر لو۔

ہمارے دادا استاد نے اپنے ویڈیو کلپ میں ڈیفنس بجٹ پر کٹ کی بھی بات کی تھی۔ اپنی جرات اوقات نہیں کہ یہ باتیں کروں۔

آج کل ٹی ٹی پی روزانہ کی بنیاد پر پریس ریلیز بھجوانے لگ گئی ہے۔ جن میں مختلف کاروائیوں کی غلط بھی ٹھیک بھی ذمہ داری قبول کی گئی ہوتی ہے۔
اک ہلکی سی دہشت گردی کی اٹھتی لہر سب محسوس کر رہے ہیں۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ ہمیں مشرقی سرحد پر فوکس بڑھانا پڑا ہے۔ ظاہر ہے ایسا کر کے مغربی سرحد پر فوکس کم کرنا پڑا ہو گا۔

کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو نئی فنڈنگ ملی ہے ہمارے شریکوں سے ادھر ادھر سے۔

اس بارے پتہ کرنے کی کوشش کی اس ایشو کو فالو کرنے والے رپوٹروں سے پوچھا۔ فاٹا میں چالو قسم کے کچھ لوگوں سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یرا آغوی خو بل سہ وئی لگیا دی۔ یعنی وہ تو کچھ اور کہہ رہے ہیں۔

کیا کہہ رہے ہیں کا جواب یہ ملا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس پیسے تو آئے ہیں حق حلال کے ہمارے اپنے ہیں جو ہم نے چرس پوڈر بیچ کر کمائے ہیں۔ یہ سن کر سمجھ نہیں آتی کہ ہنسنا ہے یا رونا ہے۔

کیا کرنا ہے یہ تو آپ کی اپنی مرضی بس اتنا مزید جان لیں ۔ کہتے ہیں کہ افغان طالبان کو بھی ایران نے کمائی کے لیے کچھ نئے روٹ فراہم کیے ہیں۔ وہ اب پہلے کی طرح ہماری بات نہیں سنتے نہ مانتے ہیں۔

اک موقف ان کا بھی ہو گا جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس عفریت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔

سیاست میں الجھ کر کارکردگی میں فرق آتا ہے۔ برے معاشی حالات ہوں تو وسائل کی کمی کارکردگی پر آڑے آتی ہے۔

فرسٹریشن بڑھ رہی ہے ، رپورٹ ہو رہا ہے بہت کچھ کہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں ہمارے افسر کیسے مزاحمت کر رہے ہیں یا آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں فائنانس والے کیسے ڈسٹرب رہے۔ کہ وہ اسے قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھ رہے ہیں۔

قومی سلامتی کا سیکیورٹی کا مسئلہ اتنا اہم ہے اتنا حقیقی ہے کہ اس سے نظر نہیں چرائی جا سکے گی۔ اس پہ ملاقاتیں جاری ہیں ۔ سوچ بچار جاری ہے ۔ ہو گا یہ کہ اک دن جا کر کسی کو کپتان سے یہ کہنا ہو گا کہ بس بہت ہو گئی۔ ہو سکتا کہہ بھی دیا ہو۔

ہو سکتا ہے کہ کپتان کو بھی پتہ لگ گیا ہو کہ اس کی تبدیلی مر رہی ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi