ایمنسٹی کی الف، ب ت


یونانی اصطلاح ’ایمنیژیا‘ کا مطلب ہے بھول جانا۔ ’ایمنیژیا‘ سے نکلی ’ایمنسٹی‘، جو 16ویں صدی سے انگریزی اصطلاحات کا حصہ بن گئی۔ عام طور پر ایمنسٹی (مشروط عام معافی) اور پارڈن (معافی) کے تحت ملنے والی معافی کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایمنسٹی کا استعمال سزا سے پہلے ہوتا ہے اور پارڈن سزا سنائے جانے کے بعد مل سکتی ہے۔

پارڈن کا اختیار عام طور سے بادشاہ یا سربراہِ مملکت کو حاصل ہوتا ہے۔ پارڈن کا اختیار دستوری ہے مگر ایمنسٹی ایک محدود وقت میں مخصوص حالات سے نمٹنے کے لیے پارلیمانی قانون سازی یا آرڈیننس کے ذریعے دی جاتی ہے۔

ایمنسٹی کا اطلاق عام طور پر ہتھیار بند بغاوت، سول نافرمانی کے مرتکب افراد، غیرقانونی تارکینِ وطن، ٹیکس چور اور کالا دھن پوشیدہ رکھنے والوں پر ہوتا ہے۔ انھیں ایک مخصوص وقت میں اس شرط پر تائب ہونے کا قانونی موقع دیا جاتا ہے کہ آئندہ وہ ریاستی قوانین کے تابع رہیں گے۔

مثلاً امریکہ میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد وفاق پرست صدر اینڈریو جانسن نے شکست خوردہ جنوبی ریاستوں کے بیشتر مسلح افراد کو سنہ 1865 میں عام معافی دے کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے وفاداری کا حلف اٹھانے کا موقع دیا۔

متعدد امریکی حکومتوں نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو عام معافی دی تاکہ وہ خود کو باقاعدہ شہری بنا سکیں۔اس تناظر میں سب سے بڑی ایمنسٹی امیگریشن کنٹرول ایکٹ سنہ 1986 کے تحت دی گئی۔ اس ایکٹ کا فائدہ تین ملین سے زیادہ تارکینِ وطن کو پہنچا۔

ویتنامِ کی جنگ کے دوران امریکی فوج میں لازمی بھرتی سے انکار کرنے والے شہریوں کو سنہ 1970 کی دہائی میں کارٹر حکومت نے ایمنسٹی دی اور جبری بھرتی کا قانون ختم کر دیا۔ امریکہ میں جارج واشنگٹن سے ڈونلڈ ٹرمپ تک کل ملا کے اب تک مختلف مدوں میں 346 بار ایمنسٹی قوانین کا استعمال ہو چکا ہے۔

محمد علی

ویتنامِ جنگ کے دوران لازمی بھرتی سے انکار کرنے والے امریکی شہریوں کو کارٹر حکومت نے ایمنسٹی دی۔ مشہور باکسر محمد علی بھی ان شہریوں میں سے ایک تھے

سپین میں ڈکٹیٹر جنرل فرانکو کی موت کے دو برس بعد سنہ1977 میں متنازع ایمنسٹی قانون نافذ کر کے فرانکو دور میں ریاستی جبر کے آلہِ کار لوگوں کو مقدمات سے استسنی دے دیا گیا۔ (فرانکو دور میں سیاسی بنیادوں پر ایک لاکھ سے زیادہ شہری ہلاک کیے گئے۔)

سنہ 2012 میں انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر نے سنہ 1977 کے ہسپانوی ایمنسٹی قانون کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی روح سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔

جنوبی افریقہ میں سماج کے مختلف طبقات کے مابین کشیدگی کے خاتمے کے لیے منڈیلا حکومت نے سنہ 1986 میں سچائی و مصالحت کا کمیشن بنایا اور ماضی کی نسل پرست انتظامیہ کے نسلی و انتظامی جرائم میں ملوث اہلکاروں کو موقع دیا کہ وہ اس کمیشن کے روبرو اپنی غلطیوں پر پشیمان ہوں اور معافی مانگیں۔

وسطی امریکی ملک کولمبیا کی شہرت جرائم، منشیات اور قتل سے عبارت ہے۔

نومبر سنہ 2016 میں 50 سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے صدر ہوان سانتوز نے بائیں بازو کی ملیشیا ریولوشنری آرمڈ فورسز آف کولمبیا (فارک) کو ہتھیار رکھنے کی شرط پر ایمنسٹی دینے کا اعلان کیا مگر یہ اعلان خاصا متازع ثابت ہوا کیونکہ اس ملیشیا کے کوکین مافیا کے ساتھ روابط تھے۔ کوکین کی پیداوار میں تو کوئی خاص کمی نہ آ سکی مگر ایمنسٹی کے نتیجے میں خانہ جنگی تھم گئی۔

فروری سنہ 2018 میں افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو ہتھیار رکھنے کی شرط پر سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی پیش کش کی۔ جواباً طالبان نے ایسے سرکاری اہلکاروں اور فوجیوں کے لیے ایمنسٹی کا اعلان کر دیا جو طالبان سے آن ملیں۔

سنہ 2015 میں بلوچستان کی ایپیکس کمیٹی نے مسلح تحریک میں شامل بلوچوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا مگر اس کا اثر جزوی ہی رہا۔

جہاں تک کالے دھن کو رعائتی ٹیکس کے ذریعے سفید کرنے اور اس کے بعد ٹیکس گوشوارے باقاعدگی سے داخل کرنے کے عہد کے عوض ٹیکس ایمنسٹی کا معاملہ ہے تو دنیا کے متعدد ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک ٹیکس ایمنسٹی کو بطور ترغیب استعمال کرتے آئے ہیں۔

مثلاً انڈونیشیا میں سنہ 1964 سے سنہ 2017 تک چار بار ٹیکس ایمنسٹی دی جا چکی ہے۔ اٹلی سنہ 2001 اور 2009 میں ، جنوبی افریقہ سنہ 2003 میں ، بیلجئیم اور جرمنی سنہ 2004، پرتگال سنہ 2005 اور 2010، روس سنہ 2007، امریکہ سنہ 2007 اور 2009، یونان سنہ 2010، سپین سنہ 2012 اور ملیشیا اس سال ٹیکس ایمنسٹی کا اعلان کر چکا ہے۔

پاکستان میں ایوب خان سے عمران خان تک 11 بار ٹیکس ایمنسٹی کا اعلان ہو چکا ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ یعنی پانچ ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں مسلم لیگ نواز حکومت نے متعارف کروائیں۔ ایک سنہ 1997 میں اور چار سنہ 2014 سے 2018 کے تیسرے دورِ حکومت میں۔

ان تمام سکیموں سے پچھلے 61 برس کے دوران 250 سے 275 ارب روپے کے درمیان ٹیکس ہی جمع ہو پایا۔اس اعتبار سے دو سکیمیں سب سے کامیاب رہیں۔ سنہ 2000 میں مشرف حکومت کی ٹیکس ایمنٹسی سکیم کے نتیجے میں تقریباً 115 ارب روپے اور اپریل سنہ 2018 میں خاقان عباسی دور کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے 124 ارب روپے حاصل ہوئے۔

پاکستان

پاکستان میں ایوب خان سے عمران خان تک 11 بار ٹیکس ایمنسٹی کا اعلان ہو چکا ہے

عام طور سے ریاستی جرائم، بغاوت، غیرقانونی تارکین ِ وطن اور ٹیکس چوروں کو دی جانے والی معافی پر بنیادی اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس سے قانون پسند شہریوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور جرائم پیشہ افراد قانون کو کھلواڑ سمجھ کر اس امید پر اپنی حرکتیں جاری رکھتے ہیں کہ کل کلاں انھیں پھر ایمنسٹی مل جائے گی۔

مگر ایمنسٹی کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ اگر کسی معاملے میں ہزاروں لاکھوں افراد ملوث ہوں تو ان پر فرداً فرداً مقدمات چلانے اور سزا دینے پر اتنے اخراجات آئیں گے کہ ریاستی معیشت ایک اور سنگین بحران سے دوچار ہو جائے گی۔

لہٰذا اگر ایمنسٹی کے نتیجے میں امن قائم ہو جائے، یا لوگ کالا دھن سامنے لانے یا پشمیانی ظاہر کر کے قومی دھارے کا حصہ بننے پر آمادہ ہو جائیں تو اس میں برائی کیا ہے؟

قانون کا یقیناً سختی سے نفاز ہونا چاہیے لیکن سختی مطلوبہ نتائج نہیں دے رہی تو پھر تدبر اور حکمتِ عملی سے کام لینا چاہیے۔

مقصد نہ صرف قانون کی پاسداری بلکہ مسئلے کا حل بھی ہے۔ اگر قانون کے دائرے میں کوئی لچک دکھانے سے مسئلہ کلی یا جزوی طور پر سلٹ جائے تو کیا قباحت ہے۔ یقیناً ایمنسٹی کا تصور کوئی مثالی تصور نہیں ہے مگر یہ دنیا اور اس کا نظام بھی تو مثالی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).