امریکہ ایران سے جنگ کرے گا؟


فجیرہ کے قریب آئل ٹینکرز پر حملے کے بعد سے ایران اور امریکا میں کشیدگی بہت بڑھ گئی ہے۔ یاد رہے کہ عراق کے شکست خوردہ سابق صدر صدام حسین نے امریکہ کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ امریکہ انہیں برابر دھمکی دے رہا تھا کہ اگر انہوں نے کویت سے انخلا نہ کیا تو امریکہ ان کے خلاف تباہ کن جنگ چھیڑ دے گا۔ صدام حسین کو آخری انتباہ عراق پر فضائی حملے سے چند روز قبل سوئٹزرلینڈ میں عراقی وزیر خارجہ طارق عزیز اور امریکی وزیرخارجہ جیمس بیکر کی ملاقات پر کیا گیا تھا۔ اس وقت کویت پر عراق کے ناجائز قبضے کو 5 ماہ ہو چکے تھے اور عراقی صدر کو پے در پے متعدد بار نتائج سے خبردار کیا جا چکا تھا۔

ایران کا منظر نامہ بھی اس سے ملتا جلتا ہی ہے۔ ایران کو امریکہ کئی بار خبردار کر چکا ہے کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو تباہ کن ہو گی۔ امریکہ یہ بات تو دہراتا رہتا ہے کہ وہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا تا ہم عملی طور پر وہ ایران کو جنگ کی طرف ہی دھکیل رہا ہے۔ امریکہ کی اقتصادی پابندیوں نے ایرانی نظام کو تھکا ڈالا ہے۔ یہ پابندیاں ممکن ہے ایک گولی چلائے بغیر ہی ایرانی نظام کا دھڑن تختہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ویسے ایران بھی امریکہ سے جنگ نہیں چاہتا۔ اسے پتہ ہے کہ جنگ چھڑی تو اسے تباہ کر دیا جائے گا۔ ایران ناکہ بندی ختم کرانے کیلئے طاقت کے استعمال کی دھمکی کا کھیل کھیل رہا ہے۔ ہوسکتا ہے محدود پیمانے پر طاقت استعمال کرنے کی جسارت بھی کر بیٹھے مثلا خلیجی ملک یا سعودی عرب وغیرہ کے تیل مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ ایران کے حکمراں یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جس طرح حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ محدود تشہیری جھڑپ کر لیتی ہے، ویسے ہی وہ بھی ایسا کر کے امریکہ کے ساتھ سمجھوتے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اس قسم کی سوچ پرخطر ثابت ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے یہ ایران کو جنگ کے دھانے پر لے جا کر کھڑا کر دے اور اس کا یہ کھیل مکمل جنگ بھڑکانے کا باعث بن جائے۔

قرائن ایسے ہیں کہ جنگ کا امکان نظر آتا ہے۔ اس تاثر کو اس بات سے تقویت پہنچ رہی ہے کہ امریکہ کے متعدد جنگی جہاز خلیج اور آس پاس کے سمندر میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ کوئی کھیل نہیں ہے۔ اس قسم کا اقدام جنگ کی تیاری کے لئے ہی کیا جاتا ہے۔ اعلی حکام کا اشارہ ملتے ہی کارروائی ہو سکتی ہے۔ یہ امریکہ کی جانب سے ایران کیلئے انتہائی سنجیدہ پیغام ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ بھیانک عسکری طاقت ہے۔ اس کی مثال ہاتھی جیسی ہے جو اپنے قدموں تلے آنے والی گھاس کو بن دیکھے روند ڈالتا ہے۔ کشمکش کے علاقوں میں ناقابل علاج زخم لگتے ہیں۔ نیا منظر نامہ مختلف ہے۔ ایرانی نظام کو وہی مار پر سکتی ہے جو دو جنگوں میں صدام حسین کو لگی تھی۔ تباہی اور پھر مکمل بربادی۔ ایران کو وہی چوٹ لگ سکتی ہے جو طالبان کو لگی۔ طالبان کو ستمبر 2001 کے طیارہ حملوں کے بعد کابل سے بے دخل ہونا پڑا تھا۔

سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ اتنی زیادہ تباہ کن عسکری طاقت کا مالک ہے تو اس نے اپنے اور اتحادیوں کے مفادات کو دسیوں بار ایران کی جانب سے نشانہ بنائے جانے پر ایران کے خلاف کیوں استعمال نہیں کیا؟ یہ سوال سازشی نظریے کا پرچار کرنے والے وہ حلقے بھی کر رہے ہیں جو امریکی نظام اور ایرانی نظام کے درمیان خفیہ تعلق کی موجودگی کی بابت شکوک و شبہات کھڑے کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ایران نے خطے میں یا اس کے باہر اب تک جو کچھ کیا وہ امریکہ پر براہ راست حملے کے زمرے میں نہیں آتا۔ لہذا کسی بھی امریکی صدر نے کانگریس کی حمایت حاصل کر کے ایران کے خلاف جنگ نہیں چھیڑی۔ امریکی آئین یہ پابندی لگائے ہوئے ہے۔ ایران نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو جہاں جہاں اور جب بھی کوئی نقصان پہنچایا، اس نے وہ کام انتہائی محتاط انداز میں کیا۔ احتیاط کا عالم یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ایرانی حملوں پر قانون دانوں کی منصوبہ بندی کا شک گزرنے لگتا ہے۔

دوسری جانب امریکہ بھی ایران اور اس کے مفادات کے خلاف خفیہ عسکری آپریشن کرتا رہا ہے۔ یہ کام سی آئی اے اور امریکی اتحادیوں کے ذریعے انجام دیا گیا۔ ایران کو اذیت ناک اقتصادی بائیکاٹ کا بھی سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ ایران کے خلاف جوابی آپریشن نہ کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ امریکہ کو یہ امید رہی کہ ایران اپنی سیاست تبدیل کر لے اور اس کا اتحادی بن جائے اور اس طرح ایران امریکہ کے بڑے حریفوں روس اور چین کی گود میں گرنے سے بچ جائے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ روس یا چین ایران کو حکمران نظام برقرار رکھنے کیلئے تحفظ فراہم کر دیں۔ یہ کام شطرنج کی بساط پر کھیلے جانے والے کھیل کا حصہ ہو سکتا ہے۔ بشار الاسد کے نظام حکومت کے حوالے سے روس مداخلت کر کے یہ نظیر قائم کر چکا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے جا رہا تھا۔ روس نے سہارا دے کر اسے بچا لیا۔ روس اب یہی کھیل وینزویلیا میں میڈورو نظام کے ساتھ کر رہا ہے۔

ایران کا نظام مختلف ہے۔ یہ مذہبی، انقلابی اور انتہا پسندانہ آئیڈیالوجی کے مرض میں مبتلا ہے۔ امریکہ اس کی اصلاح کے لیے ڈرانے دھمکانے اور سمجھانے کے لئے جتنی تدابیر استعمال کر سکتا تھا، کر چکا ہے۔ امریکہ کے سارے وسائل ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب فیصلے کی گھڑی آ چکی ہے۔ اس احساس کا باعث یہ بھی ہے کہ عراق میں صدام ، لیبیا میں قذافی اور سوڈان میں عمر البشیر جیسے شر پسند حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا گیا ہے۔ شام میں بشار الاسد کا نظام بھی کمزور کر دیا گیا ہے۔

(بشکریہ: اردو نیوز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).