اسرائیل کیوں وٹس ایپ ہیک کرنے کی ٹیکنالوجی عرب ملکوں کو دے رہا ہے؟


واٹس ایپ

اخبار فائنینشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیکرز نے واٹس ایپ کی سکیورٹی میں پائی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند صارفین کے موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز تک رسائی حاصل کر کے ان میں نگرانی کے سافٹ ویئر انسٹال کیے۔

اس حملے کی تصدیق واٹس ایپ نے بھی کی اور تسلیم کیا کہ کچھ ’مخصوص صارفین‘ کو نشانہ بنایا گیا ۔اطلاعات کے مطابق یہ حملہ ایک اسرائیلی سکیورٹی فرم ’این ایس او گروپ‘ کی جانب سے بنائے گئے سافٹ ویئر سے کیا گیا ہے۔

اب اس سارے معاملے میں کڑیاں ملانے کا وقت ہے۔

واٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو ‘سبوتاژ’ کرنے کی کوشش، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کی کڑیاں ہیں اور مشرق وسطیٰ میں تنازع کے مرکزی کردار اسرائیل، ایران اور سعودی عرب ہیں۔

واٹس ایپ

واٹس ایپ حملے میں ہوا کیا تھا؟

فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں ہیکرز نے واٹس ایپ کی وائس کال سروس کو استعمال کرتے ہوئے صارفین کے آلات کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں کال نہ بھی اٹھائی جائے تو بھی سافٹ ویئر انسٹال ہو جائے گا اور فون سے اس کال کا ریکارڈ بھی غائب ہو جائے گا۔

واٹس ایپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی سکیورٹی ٹیم نے پہلے اس خامی کی شناخت کی جس کے بعد یہ معلومات انسانی حقوق کی تنظیموں، چند سکیورٹی فرموں اور امریکی محکمہ داخلہ کو بھی دی گئیں۔

کمپنی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’اس حملے میں اس نجی کمپنی کی مہرِ تصدیق موجود ہے جو حکومتوں کے ساتھ مل کر ایسے جاسوسی کے نظام پر کام کرتی ہے جو موبائل فون کے آپریٹنگ سسٹم پر قابو پا لیتا ہے۔‘

فرم نے سکیورٹی کے ماہرین کے لیے ہدایات بھی شائع کیں جس میں ان خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔

جبکہ اسرائیلی این ایس او گروپ، جو ماضی میں ’سائبر آرمز ڈیلرز‘ کے طور پر پہچانا جاتا تھا، کا ایک بیان میں کہنا تھا ’این ایس او کی ٹیکنالوجی لائسنس یافتہ ہے اور اسے حکومتوں اور ایجنسیوں کو استعمال کرنے کا اختیار ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’ادارہ اس سسٹم کو نہیں چلاتا اور لائسنسنگ اور چھانٹی کے کڑے مراحل کے بعد خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ عوامی تحفظ کے مشن کے دوران کیسے ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے۔ ہم غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کرتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو کارروائی بھی کرتے ہیں جس میں نظام کی بندش بھی شامل ہے۔‘

اسرائیلی فوج اور این ایس او گروپ

اسرائیلی فوج اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ اسرائیل کے بہت سے صنعتی کاروباری اداروں کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کیونکہ جو تعلق ان کا قومی فرض ادا کرنے کے دوران قائم ہوتا ہے وہ تاحیات قائم رہتا ہے۔

اسرائیل

اسرائیلی فوج ہر سال نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے اور جب وہ فوج چھوڑتے ہیں تو وہ تمام مہارت اور تعلقات جو انھوں نے فوج میں کام کے دوران بنائے، اپنے ساتھ لے جاتے ہیں

ایک نوجوان شخص کی زندگی میں یہ سب سے اہم وقت ہوتا ہے جو اس پر یونیورسٹی کی تعلیم سے بھی زیادہ اثر چھوڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا مخصوص گروہ ہے، جو کہ اسرائیلی فوج میں کام کرنے والوں کا خاص گروپ ہے۔

اسرائیلی فوج ہر سال نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے۔ ان کی سب سے اہم طاقت کا اندازہ لگاتے ہی اور ان کو اس جگہ بھیج دیتی ہے جہاں وہ قومی خدمت سے لیے سب سے زیادہ کارآمد ہوں۔

وہ کمپیوٹر ماہر جو ویسے تو ہر وقت اپنے گھروں کے تہہ خانوں میں بند رہتے ہیں، انھیں قومی خدمت کے لیے سائبر جنگ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اور جب وہ اسرائیلی فوج چھوڑتے ہیں تو وہ تمام مہارت اور تعلقات جو انھوں نے فوج میں کام کے دوران بنائے انڈسٹریل سیکٹر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور وہاں وہ این ایس او گروپ جیسی کمپنیاں بناتے ہیں۔

این ایس او گروپ ہیکنگ کے سافٹ ویئرز بناتی ہے اور اسے حکومتوں کو بیچتی ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔

ایران

واٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو ‘سبوتاژ’ کرنے کی کوشش کرنا، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کے کردار ہیں

مگر یہ بھی اہم ہے کہ ان کو اس ٹیکنالوجی کو دیگر ممالک کو بیچنے کا برآمدی لائسنس اسرائیلی حکومت سے صرف اس صورت میں ملتا ہے جب یہ باور ہو جائے کہ اس کی فروخت سے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔

اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں ایران اور خلیجی ممالک کو اس کی فروخت نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ ماضی میں خلیجی ریاستوں کا فلسطین اسرائیل تنازع میں اسرائیل کے خلاف ہونا ہے۔

عرب سپرنگ کے بعد خلیجی ریاستوں (ماسوائے قطر) نے مسئلہ فلسطین کو ترک کر دیا اور ایران کے خلاف اسرائیل کی طرف ہو گئے۔

اس سست رفتار تبدیلی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب اور ان کی جانب سے اپنی انتظامیہ میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور مشیر قومی سلامتی جون بولٹن جیسے متعدد ایران مخالف نمائندوں کی تعیناتی سے تیز کر دیا تھا۔

اس متعلق بہت سی قیاس آرائیاں ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے خلیج میں اپنے نئے دوستوں سے تعلقات بنانے کے لیے این ایس او گروپ کو اپنے ان ہیکنگ سافٹ ویئرز کو خلیجی ممالک کو بیچنے کی اجازت دی ہو گی۔

اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ اتفاق نہیں ہے کہ اطلاعات کے مطابق اس واٹس ایپ ہیکنگ حملہ کا نشانہ بننے والے وہ وکلا تھے جو خلیجی ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہے تھے۔ جن میں ایک سعودی نژاد اور دوسرا قطری شہری ہے۔

ایران

ٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیں

ایران سے سالمیت کو خطرہ

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی زندگی اور سیاسی جدوجہد کا واحد مقصد ایران کو محدود کرنا بنا لیا ہے۔ اور وہ اسے اسرائیل کی سالمیت کے لیے واحد خطرہ قرار دیتے ہیں۔

سعودی حکمرانوں کو دو خطرات کا سامنا ہے، ایک بیرونی اور ایک اندرونی۔ بیرونی خطرے میں ایران جبکہ اندرونی خطرہ اخوان المسلمین سے ہے۔

سعودی حکمران ایران کی فوجی قوت سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ اخوان المسلمین سے بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ شاہی خاندان کی حکمرانی کے متبادل کے طور پر سیاسی اسلام پیش کرتے ہیں.

ٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیں۔

لہٰذا، اس نئی ’اناؤں کی جنگ کے محور‘ میں سب ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہوئے خود کو مجموعی طور پر ایران کے خلاف مکمل طور پر متحد کر رہے ہیں.

بہت سی تجارت ہو رہی ہے

کچھ ہتھیاروں کی تجارت کر رہے ہیں، کچھ تیل اور گیس کی قیمت میں ملوث ہیں اور چند سیاسی تجارت میں مصروف ہیں جیسا کہ امریکہ سعودی عرب کے لیے کر رہا ہے جب اس نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوشش کی۔

ایران

اب وہی ہو رہا ہے جو عراق پر حملے سے قبل ہوا تھا۔ جو بھی خفیہ معلومات ایران کے خلاف گھما پھرا کر استعمال کی جا سکتیں ہیں انھیں ایران پر دباؤ یا قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

حالات بھی ویسے ہی بنائے جا رہے ہیں جیسے عراق جنگ کے وقت بنائے گئے تھے۔

اب فرق یہ ہے کہ اُس وقت امریکی صدر جارج ڈبلیو بش تھے جو اس جزوی نظریے کے حامی تھے کہ یہ ان کی قسمت ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت لائیں۔ اور اس میں صدام حسین کو نکالنا شامل تھا۔

مگر امریکہ کے موجودہ صدر بالکل بھی نظریاتی شخصیت کے مالک نہیں۔ ان کے دور صدارت میں امریکی سیاست لین دین کے تعلق پر چل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی خارجہ امور پالیسی میں ’سب سے پہلے امریکہ‘ ہے اور اگر انھیں اکسایا نہ جائے تو وہ مشرق وسطی میں ایک اور جنگ شروع نہیں کریں گے۔

اس کے لیے تہران پر کسی بہت برا الزام لگانے ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ انٹیلی جنس جمع کرنا ہے اور انٹیلی جنس جمع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے اتحادیوں کے لیے خطے کے بہت سے لوگوں پر جاسوسی کرنے کی کوشش کریں۔

ایسا کرنے کا بہترین طریقہ ٹروجن ہارس نامی وائرس کی مدد سے ہمارے سمارٹ فونز ہیک کرنا ہے جن کو ہم سب رضاکارانہ طور پر ساتھ لیے گھومتے ہیں۔

نامہ نگار پال دانهار واشنگٹن میں بی بی سی امریکہ کے بیورو ایڈیٹر ہیں اور سنہ 2010 سے 2013 کے درمیان بی بی سی مشرق وسطی کے بیورو چیف بھی رہ چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp