کیا حوالہ دینا لازم نہیں ہے؟


آپ نے اکثر ٹیلی وزن پر خبریں سنتے دیکھا ہوگا اگر کوئی ایک ادارے کی رپورٹ کو اپنے پروگرام میں نثر کر رہا ہے تو وہ پی ٹی وی کے علاوہ کسی اور چینل کی خبر کو اگر اپنا حصہ بناتے بھی ہیں تو اُس کا حوالہ دینا گوارا نہیں کرتے۔ شاید اُن کو یہ لگتا ہے کہ محنت صرف سرکاری اداروں میں کام کرنے والے لوگ کرتے ہیں باقی لوگوں کو تو ہر چیز واٹس ایپ پر آتی ہے، خیر اگر اس بات کو مان بھی لیں کہ اُن کو واٹس ایپ پر سب کچھ مل بھی جاتا ہے تو کیا قانونی طور پر حوالہ دینا لازم نہیں؟

نہ جانے کیوں موت پڑ جاتی ہے لوگوں کو حوالہ دینے سے، وہ ہر چیز اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر استعمال کر رہے ہوتے ہیں، اُنہیں اس بات کا اندازہ تو کبھی بھی نہیں ہوتا کہ آیا ہم جس لکھاری کی تخلیق کو سماجی رابطہ کاری کے مختلف سائیٹس پر شیئر کر رہے ہیں اگر وہ چیز آپ کے نام سے اُس حقیقی تخلیق کار کے نظروں سے گزرے تو اسے کیسا محسوس ہوگا!

میں نے دیکھا کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں بیٹھے دوست جن کو تصویر نگاری سے بہت دلچسپی ہے اور خصوصی طور پر وہ صحرائے ِ تھر کے فطری حُسن کو اپنی کئمیرا کی آنکھ میں قید کرنا چاہتے ہیں تو اُن میں کچھ لوگ ایسا بھی کر لیتے ہیں اور کِیا بھی ہے کہ منوج کمار، ایمینیول گڈو، دلیپ پرمار اور ڈاکٹر راجا شاد کے فیس بوک پیج سے تصاویر ڈاؤنلوڈ کرکے واٹر مارک ہٹا دیا اور لکھ دیا اپنا نام۔ ہوگئے مالک بس فوٹوشاپ کرکے۔

لیکن کبھی چند گھڑیوں کے لیے بھی ان کا تصور اپنے ذہن میں لے کر سوچا بھی ہے کہ وہ جن کو پارکر کے پتھروں میں چُھپی خوبصورتی کو کٹ لینس میں بھی فوٹو نکالنے کی اجازت نہیں ملتی، اور وہ اُس بارڈر ایریا میں جو بھی کمال کرتے ہیں وہ ان سمارٹ فون کی بدولت ہے، اور وہ جو سنجھورو سانگھڑ سے ایک عکس بنا کر نکلا مسافر آپ کی ایسی حرکتیں دیکھتا ہوگا تو یہ سوچ کر پھر بھی نکل رہا ہے؟

ابھی سندھ کی ایک آواز سوشل میڈیا کی زینت بنی، اور وہ آواز ایک ایسی پکار تھی جس میں تمام سندھی بھائیوں کو ہوشو شیدی کی گونج بھی سُنائی دی تھی اور سندھیت کی مثال بھی، ایک تتلی جس کی اُڑان میں ”سندھ نہ ڈیسون“ کی خوشبو آ رہی ہو تو، ظاہری طور ہر وہ ایک ویڈیو کی صورت میں آئے تھے لیکن اس بات کا کسی کو مطلب نہیں تھا کہ آیا وہ ویڈیو کس نے رکارڈ کی تھی؟

کبھی کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ ہم فیس بوک یا ٹویٹر پر کی گئی ٹویٹس کو بغیر پڑھے اپنے وال پر شیئر کر دیتے ہیں اور حوالہ دینا غیرت کا مسئلہ سمجھ لیتے ہیں، جب کہ معاملہ گلے تب پڑتا ہے جب چیزیں جھوٹ ثابت ہوتی ہیں اور آپ نے تحریر میں درستگی کو بالکل بھی اہم نہیں سمجھا۔ اکثر صحافتی ادارے ایک مخصوص الفاظ ”ذرائع کے مطابق“ استعمال کرتے ہیں۔

یہ بھی تو ایک قسم کی مزدوری ہے ذہن کی مزدوری جس میں قلم سے لے کر جو بھی صلاحیتیں استعمال کرکے کوئی تخلیقی شکل آپ کے سامنے آتی ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ پکی پکائی روٹی دیکھ کر محنت کرنا ئی چھوڑ دیں۔ یقین کرو تو آپ سے بہتر وہ چاچی سمینا ہے جو اگر پڑوس میں کسی ایک عورت سے کوئی بات سُنتی ہیں تو حوالہ دے کر ہی آگے آگ لگاتی ہیں۔

خدارا یہ ٹرینڈ ختم کریں اور جس طرح گھگھو گھوڑے اور سرکار شاہ کو تعلیمی تباہی کا ذمیدار سمجھ کر اُنگلی اُٹھاتے ہو تو خود بھی اس نقل سازی سے پرہیز کرو اور کسی دوسرے کی تخلیق، محنت کو اپنے اولاد مت سمجھو کہ نام بھی خود رکھنے کا حق بھی آپ رکھتے ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).