قصّہٗ قابیل و ہابیل


تب قابیل نے دیکھا کہ اس کی ہم شیر حسین ہے ہابیل کی ہم شیر سے۔ اس نے اپنی ہم شیر کی خواہش کی اور اسے حسد ہوا ہابیل سے۔ خدائی ضابطے سے وہ اپنی ہم شیر سے نہ مل سکتا تھا۔ تب خدا نے کہا دونوں بھائی نذر پیش کریں۔ ہابیل نے اپنی بھیڑوں کے گلّے سے سب سے اچھی بھیڑ نذر کی، قابیل نے اپنے کھیت سے ردّی غلّہ نکالا۔ دونوں نے ایک اونچی چوٹی پر اپنے نذرانے رکھے اور انتظار کیا کہ خدا کس کی نذر کو قبول کرتاہے۔

تب ہی آسمان سے ایک شعلہ لپکا اور ہابیل کی بھیڑ کو کھاگیا۔ قابیل کا غلّہ ویسے ہی پڑا رہا۔ اسے خدا کے حضور ہابیل کی مقبولیت ایک آنکھ نہ بھائی۔ اس نے غُصّے سے تہیہ کیا کہ وہ ہابیل سے بدلہ لے گا اور اسے نہ چھوڑے گا۔

یہ قصّہ اس زمانے کا ہے جب یہ زمین ویران تھی۔ ہوائیں درختوں سے گزرتے ہوئے سائیں سائیں کرتی تھیں۔ ہابیل اور قابیل اور ان کی ہم شیروں کے سوا کوئی نہ تھا۔ ہابیل چرواہا تھا اور سبزہ زاروں میں اپنی بھیڑیں چراتا تھا، قابیل کھیتی باڑی کا کام کرتا تھا۔ بھیڑیں معصوم تھیں، ہابیل بھی سادہ دل تھا۔ زمین محنت مانگتی تھی، قابیل محنت کرتا تھا اور اس کا دل سخت تھا۔ خدا نے ہابیل کی نذر قبول کی تو قابیل پہ کُھلا کہ وہ اپنی ہم شیر کو نہ پاسکے گا، مایوسی نے اس کے دل کو رنج سے بھردیا۔

رنج سے غُصّہ پیدا ہوا، غُصّہ نے انتقام کا روپ دھارا۔ اس نے ایک روز موقع پاکر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ اس نے قتل تو کردیا لیکن بعد قتل اسے بھائی کی یاد نے ستایا۔ وہ بھائی کی لاش کے سامنے سرجھکائے بیٹھا رہا اور سوچتا رہا۔ سوچتے سوچتے وہ بہ مشکل سمجھ پایا کہ بھائی کی یاد دل سے تبھی رخصت ہوگی جب لاش نظروں سے دور ہوگی۔ خداکے حکم سے دو کوّے کہیں سے اڑتے ہوئے آئے اور انھوں نے لڑنا شروع کیا۔ ایک کوّے نے دوسرے کو مارڈالا اور پھرپنجوں سے زمین کھود کے مقتول کوّے کو دبایا اور اُڑگیا۔

قابیل سمجھ گیا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اس نے بھی وہی کیا جو کوّے نے کیا تھا۔ بھائی کو دفنانے کے بعد اسے بھائی کی یاد نے اور ستایا اور تب وہ پچھتایا اور سمجھ پایا کہ اس نے کیا کیا ہے۔ اس کے ہاتھ اپنے بھائی کے خون سے رنگے تھے اور دفنانے کے بعد مٹّی سے لتھڑ گئے تھے۔ خون اور مٹی آپس میں ملے تو اس کا پچھتاوا اور گہرا ہوگیا۔ اس کے مُنہ سے ایک آہ نکلی کہ ہائے میں تو اس کوّے جیسا بھی نہ ہوا۔

کوئی نہیں جانتا کہ قابیل پر اس کے بعد کیا گزری۔ لیکن یوں بھی تو ہوسکتا ہے کہ جب قابیل کو پچھتاوے نے آگھیرا تو اس کے چاروں طرف گہرا سناٹا اور تنہائی تھی۔ شیطان نے جب قابیل کو اس حال میں پایا تو اسے اندیشہ لاحق ہوا کہ خدا کو کہیں قابیل کے حال پہ رحم نہ آجائے۔ اس نے قابیل کے جسم میں حلول کیا اور کہا کہ چلو شکر کرو کہ اس بھائی سے جان چھوٹی جس نے تمھیں اپنے ہم شیر کے قرب سے محروم کردیا تھا۔ وہ عورت اس تنہائی میں تمھارے دل کے بہلاوے کا سامان ہوگی۔ تم اس عورت کے پاس کیوں نہیں جاتے۔ قابیل اپنے اندر کی آواز پہ حیران ہوا۔ لیکن بات بھلی تھی۔ وہ اٹھا اور گھر کے اندر گیا۔ اس کی ہم شیر چولہے کے سامنے بیٹھی روٹیاں بنارہی تھی۔ قابیل کی سمجھ میں نہ آیا کہ کہے تو کیا کہے۔ تبھی شیطان نے کہا: ”تم اس سے کھانے کے لیے روٹی کیوں نہیں مانگتے“

قابیل نے اپنی ہم شیر عورت سے کہا: ”بہت بھوکا ہوں۔ تم میری بھوک مٹاسکتی ہو؟ “ عورت نے ایک روٹی اور کچھ سالن اس کے آگے رکھا۔ قابیل نے کھا کر جانا کہ بھوک دو طرح کی ہوتی ہے۔ دونوں آدمی کے بدن ہی میں پیدا ہوتی ہے۔ عورت کی اور روٹی کی۔ آدمی کے لیے اچھا ہے کہ وہ ایک بھوک مٹائے اور انتظار کرے۔ اس طرح اُسے قناعت کا تجربہ ہوا۔ بھوک مٹ گئی تو قابیل کو آرام کرنے کا خیال آیا۔ بستر پہ لیٹا تو اسے جلد ہی نیند نے آلیا۔

جب سویا تو اس نے اپنے بھائی ہابیل کو خواب میں دیکھا جو اس سے کہہ رہا تھا بھائی تم نے ناحق مجھے قتل کردیا۔ قابیل کی آنکھ کھُلی تو وہ مضطرب اور پریشان تھا۔ ایک بار پھر پچھتاوے نے اسے آگھیرا۔ اس نے چاہا کاش ہابیل زندہ ہوجائے اور اسے معاف کردے۔ اس سے قابیل کے اندر اپنی بے بسی کا احساس پیدا ہوا۔ اس نے جانا کہ بے بسی آدمی کا مقدّر ہے۔ جب اس نے اپنی بے بسی پر غور کیا تو اسے معلوم ہوا کہ بے بسی اس لیے ہے کہ وہ اکیلا ہے اور کوئی اس کا ساتھی ساجھی نہیں۔

کوئی ایسا نہیں جس سے وہ اپنے دل کا حال کہہ سکے۔ قابیل بستر سے اٹھا، آہستہ قدموں چلتا ہوا باہر نکل آیا۔ تب سورج پہاڑوں کے پیچھے ڈوب رہا تھا اورشام کی سنسناتی ہوائیں درختوں کے بیچ سے گزر رہی تھیں اور چاروں طرف ایک ہُو کا عالم تھا۔ قابیل نے دیکھا کائنات میں سناٹا اور مکمل تنہائی ہے۔ وہ ایک بھاری پتھر سے ٹیک لگا کے کھڑا ڈوبتے سورج کو، گھنے درختوں اور فرشِ زمین پر بچھے گھاس کے تختوں کو اور فضا میں اڑتے پرندوں کو دیکھا کیا، ایک بے پناہ حسن کے احساس سے وہ مبہوت ہوگیا، اس پہ کُھلا کہ کائنات حسین و دلکش ہے۔

مگر یہ کہ تنہائی بھی ہے جو اس کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ اسے یاد آیا کہ بچپن میں وہ ہابیل کے ساتھ ان ہی سبزہ زاروں میں کھیلتا تھا اور ان کے ننھے قہقہوں سے فضائیں گونجتی تھیں۔ بھائی ا ور بچپن کی یاد سے اسے اپنے وجود میں حافظے کی موجودگی کا احساس ہوا۔ یہ احساس کہ اس کے وجود میں کہیں کوئی ایسی جگہ ہے۔ جہاں ماضی محفوظ ہوجاتاہے اور آدمی انھیں یاد کرنا چاہے تو ماضی اندر زندہ بھی ہوسکتاہے۔ اور اسے اداس یا مسرور بھی کرسکتاہے۔

قابیل دیر تک وہاں کھڑا سوچوں میں گُم رہا۔ سوچتے سوچتے اسے ایک ایسی حقیقت کا سرا ملا جس نے اسے حیران کردیا۔ گُناہ اور پچھتاوے اور تہنائی نے مل جل کر اسے ایک نئی کیفیت سے دوچار کردیا تھا۔ اس کے دل کی سختی سوزو گداز میں بدل چکی تھی اور اب وہ، وہ نہیں تھا جس نے اپنے بھائی کا سربھاری پتھر سے کچل دیا تھا۔ گناہ پچھتاوے کے گہرے احساس نے اسے ایسی ندامت میں مبتلا کردیا تھا جس کی تلافی ممکن ہی نہ تھی۔ اس اعتراف سے ایک اور خیال نے جنم لیا۔

اب دنیا میں جتنے بھی قتل ہوں گے، جتنے ہاتھ خون سے رنگے جائیں گے اس کا ذمہ دار وہ ہوگا۔ اس خیال کے آتے ہی قابیل کے بدن میں ایک بگولہ سا اٹھا جس نے پوری طرح اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے ٹانگوں سے جیسے کسی نے کھڑے ہونے کی طاقت سلب کرلی۔ وہ اپنے ہی بوجھ سے لڑکھڑایا اور پھر بیٹھ گیا۔ ذہن اس کا دھواں دھواں سا ہورہا تھا اور اندر جیسے طوفانی جھکڑ سے چل رہے تھے۔

یہ واقعہ تب کا ہے جب انسانوں نے تاریخ لکھنے کا فن ابھی نہیں سیکھا تھا۔ نہ ایسے علوم ہی ایجاد ہوئے تھے جو قابیل کی شخصیت کا تجزیہ کرسکتے۔ ہابیل، قابیل، خدا اور شیطان کا یہ قصّہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہر زمانے میں دہرایا جاتا رہا ہے۔ خدا آج بھی ہے، قابیل اور ہابیل جیسے آج بھی ہیں۔ رہ گیا شیطان تو وہ انسان کے خون کے ساتھ، اس کے نفس یا انا کی صورت میں آج بھی اندر کہیں موجود ہے !

ڈاکٹر طاہر مسعود
Latest posts by ڈاکٹر طاہر مسعود (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).