کیا جی ڈی پی کا ہندسہ ترقی ناپنے کا درست پیمانہ ہے؟


آسکر وائلڈ کہتا ہے کہ ایک نقاد وہ شخص ہوتا ہے جو ہر چیز کی قیمت جانتا ہے لیکن ایک چیز کی بھی قدر سے واقف نہیں۔ قیمت کو ایک عدد سے سمجھا جا سکتا ہے لیکن قدر کی سمجھ بعض اوقات ایک پورا تبصرہ مانگتی ہے۔ دولت اور قدر برابر نہیں ہوتے اور ہر جگہ قدر کو قیمت سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آج کل ترقی یا اس کا نا ہونا بہت ہی زیر بحث موضوع ہے۔ ترقی کی فلسفیانہ بحث تو بہت پیچیدہ ہے اور بعض کے نزدیک تو ہم بحیثیت معاشرہ تنزلی کا شکار ہیں۔

لیکن کم از کم پاکستانی ٹاک شوز پر آنے والے ماہرین معاشیات اور دیگر صحافی صرف معاشی ترقی یا صرف جی ڈی پی گروتھ کو ہی ترقی کی مثال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ گویا صرف قیمت کو قدر میں بدل دیتے ہیں۔ ماہر معاشیات ڈیوڈ پلنگ اپنی کتاب the growth delusion میں لکھتے ہیں کہ economic growth یعنی کہ معاشی بڑھوتری ایک fetish یا طلسماتی قوت بن چکی ہے جس کی قربان گاہ پر ہم سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ ہر چیز کو اعداد میں بدلنے کے جنون نے معاشیات کو اصل زندگی سے دور کر دیا جس کی موجودہ مثال جی ڈی پی جیسے نمبرز ہیں۔ جی ڈی پی کیا ہے اور کس وجہ سے معیشت کو ناپنے کا یہ پیمانہ مقبول ہوا، جانے بغیر ہم نہیں سمجھ سکتے کے یہ ’ماہرین معاشیات‘ کیا بات کر رہے ہیں۔

بیسویں صدی تک معاشیات کا شعبہ باقی سوشل سائنسز کی طرح مفروضے اور اس کو reasons کے ذریعے ثابت یا غلط ثابت کرنے کے دلائل پر مشتمل تھا۔ کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب ’داس کیپیتال‘ اس کے نظریات مفروضات اور دلائل پر مشتمل ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے دوران ملکی معیشت کو ناپنے کی ضرورت آن پڑی تاکہ دشمن کی بمباری سے معیشت پر ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا سکے اور اپنی جنگی استعداد یا war potential کو ہر وقت معلوم کیا جا سکے۔

اسی کوشش میں سائمن کزنیٹس نامی ایک روسی نژاد امریکی ماہر معیشت کے 1934 میں تجویز کردہ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ یا جی ڈی پی کو مرکزی مقام حاصل ہو گیا۔ جنگ جنگ عظیم دوئم کے بعد مشہور امریکی تھنک ٹینک RAND کارپوریشن کی کاوشوں کی وجہ سے نہ صرف معاشیات میں ریاضی کے استعمال میں اضافہ ہوا بلکہ معاشیات کو سوشل سائنسز کی ملکہ کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اور پھر اس سے پالیسی تجزیہ Policy analysis کا شعبہ وجود میں آیا جس نے گورنمنٹ کو چلانے میں مرکزی مقام حاصل کر لیا اور ماہرین معاشیات انتہائی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو گئے۔

دوسرے مضامین جیسا کہ عمرانیات sociology، نفسیات اور انتھروپالوجی وغیرہ جو انسانی تہذیب اور تمدن کو سمجھنے اور بہتری لانے میں میں انتہائی اہمیت کے حامل تھے، اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے اور ان کی تجاویز کو ثانوی حیثیت حاصل ہو گئی۔ ماہرین معاشیات کی بنائی ہوئی پالیسیوں نے نہ صرف معیشت کہ دھارے کا رخ اپنے نظریات کی روشنی میں موڑ دیا بلکہ اس کی نتیجے میں پوری تہذیب و تمدن تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ جی ڈی پی کسی قوم کی مجموعی دولت ناپنے کا پیمانہ ہے اور اگر کچھ لوگ بہت امیر ہو جائیں اور باقی غریب تر، پھر بھی یہ بڑھتا دکھائی دے سکتا ہے اور پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی عدم برابری یا inequality اسی کی مرہون منت ہے۔

جی ڈی پی ایک قوم کے اخراجات، گورنمنٹ کے اخراجات، سرمایہ کاری اور تجارتی توازن کو ایک فارمولے کے تحت ایک نمبر میں تبدیل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ سائمن کزنیٹس خود ہمیشہ کہتے رہے کہ میرا بنایا ہوا نمبر صرف معاشی حرکت کو پڑھتا ہے اور مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اسے انسانی ترقی کا نمبر سمجھنا شروع کر دیں گے اور وہی ہوا۔ انتہائی پیچیدہ معاشی سسٹم میں ہر چیز کو ناپ کر قیمت تو نہیں لگائی جا سکتی لیکن جن کی لگائی جا سکتی ہے تو ان کی لگا کر باقی کو نظرانداز کر کے ماہرین معاشیات نے جی ڈی پی کی بنیاد رکھی تھی۔

جی ڈی پی پر شروع سے بہت سارے قابل ماہرین معاشیات اور بہت سارے ماہرین حقوقِ نسواں تواتر سے اعتراض کر رہے ہیں کہ اس نمبر میں دو بڑی خامیاں ہیں۔ ایک کہ یہ ماحول پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور دوسرا یہ کہ یہ گھر میں کیے گئے کام جو عمومی طور پر عورتیں کرتی ہیں، کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ کچھ ماہرین معاشیات کے نزدیک انتہائی پیچیدہ معاشی نظام کو ایک رقم سے بیان نہیں کیا جا سکتا اور یہ پوری کوشش ہی ناقص ہے اور بہت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔ لیکن معیشت کی عالمی اسٹیبلشمنٹ جیسا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ابھی تک یہ ماننے کو تیار نہیں اور وہ معاشی پالیسیوں کو جی ڈی پی کو ٹارگٹ بنا کر ترتیب دینے پر زور دیتے ہیں۔

ہم آئے روز یہی بات سنتے ہیں کہ وہ قوم یا ملک ترقی نہیں کر سکتا جس کی خواتین لیبر فورس میں نہ ہوں۔ مثالیں بہت دی جاتی ہیں جیسا کہ بنگلہ دیش کی ترقی کا راز ان کی عورتوں کا گارمنٹس انڈسٹری میں کام کرنا ہے وغیرہ۔ عورتوں کے لیبر فورس میں شامل ہونے سے بنگلہ دیش کا جی ڈی پی تو بڑھ رہا ہے لیکن اکانومسٹ جریدے کے مطابق طلاق کی شرح بہت زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ پہلے عورتیں نوکری کرتی ہیں پھر ان کو ”آئیڈیاز“ آتے ہیں۔

ساتھ ہی وہ اس بڑھتی شرح طلاق کو ”اچھی“ چیز قرار دیتا ہے کہ بنگلہ دیش کی عورتیں تیزی سے لبرل ہو رہی اور وہ ایسی شادیوں کو چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں جن میں وہ ”مطمئن“ نہیں ہیں۔ خاندان اور بچوں کی خاطر گزارا اور مفاہمت کا جو مشورہ ہمارے بڑے دیتے تھے، شاید اب غلط سمجھا جاتا ہے۔ پہلے صرف طلاق کی وجہ مرد کا مار پیٹ کرنا یا کردار کی خرابی ہونا ہوتا تھا اب صرف ”مطمئن“ نہ ہونے پر طلاق لے لی جاتی ہے۔ جانے کون اس مادی دنیا میں مادہ پرستی کی دوڑ میں مطمئن رہ سکتا ہے چاہے وہ شادی شدہ ہو یا طلاق یافتہ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2