ٹیکس ایمنسٹی، حصص بازار اور بیل آوٹ پیکیج


جتنے ڈول مرضی کنویں سے نکال لیں، پانی صاف ہونے کا نہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، آئی ایم ایف سے جب بھی بیل آوٹ پیکیج لیا۔ حصص بازار نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ یہ انہونی بھی ہو چکی۔ اتوار کی رات آئی ایم ایف معاہدہ کی پریس ریلیز جاری ہوئی۔ پیر کی صبح حصص بازار ڈوب گیا اور سرمایہ کاروں کے اربوں روپیہ بھی۔ منگل کے روز حصص بازار کے گھاگ بروکرز کو ریکوری کی امیدیں تھیں۔ حصص اتنے بے وقعت اور کم قیمت تھے کہ سرمایہ کاروں نے خریداری کرنا ہی تھی۔ سرمایہ کاروں نے خریداری کا آغاز کیا بھی، لیکن خوف زیادہ تھا مارکیٹ پھر گر گئی اور اختتام تک بمشکل 35 پوائنٹ اضافہ پر بند ہوئی یعنی مسلسل دوسرے روز بھاری نقصان۔

عام لوگوں کو احمق بنا لیں۔ بیل آوٹ پیکیج پر ڈھول کی تال پر رقص بھی کر لیں۔ سرمایہ کے پاس اندر کی خبر ہے۔ سرمایہ اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں۔ روپیہ کو مرکزی بینک کے کنٹرول سے باہر کرنے کے نتایج خوفناک ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی عالمی ادائیگی آئے گی، روپیہ کی قدر کم ہو گی، اس لئے حصص بازار نے منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ آپ بھلے روپیہ کی آزادانہ شرح مبادلہ کا اعتراف نہ کریں، حصص بازار باخبر ہے۔ اس لئے مارکیٹ نے ردعمل بھی ظاہر کر دیا ہے۔

جو مسلط کیا ہے، وہ لیڈر تھا ہی نہیں وژن لیس آدمی۔ تازہ ترین تقریر یہ ہے ”روپیہ کی قدر کم ہونے سے ڈالر کی قیمت کم ہو گی“ حکومتی معاملات پر گرفت کا یہ عالم ہے۔ پیر کے روز آئی ایم ایف شرائط پر غور کے لئے اجلاس طلب کر رکھا تھا اور رات کو آئی ایم ایف ڈیل کا واشنگٹن سے جاری کردہ پریس ریلیز میں اعلان ہو گیا۔ کون سرمایہ کار حکومتی اعلانات کا یقین کرے گا۔ حکومتی اعلانات میں مشیر خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور چیرمین ایف بی آر کے اعلانات شامل نہیں۔

پاکستان کے نوجوانوں کے ساتھ فراڈ ہوا ہے۔ کرپشن سے پاک معاشرے کا جو خواب فروخت کیا، اس کے لئے عظیم ترین مارکیٹنگ کی گئی۔ نجی میڈیا پر نواز شریف اور آصف علی زرداری کو چور، ڈاکو قرار دیا اور میڈیا کا گلہ گھونٹ کر ایک مسیحا بنایا گیا۔ اب سب بھگتیں۔ کبھی فیض آباد دھرنا میں ریاست کی رٹ برباد کی گئی اور کبھی ایل این جی عباسی، کبھی سوئٹزر لینڈ میں دو سو ارب ڈالر کی لوٹی ہوئی رقم اور کبھی ایک ہزار ارب روپیہ روزانہ کی منی لانڈرنگ۔

کبھی پچاس لاکھ گھروں کے خواب اور کبھی بیرون ملک مقیم پاکستان اگلے دن دو سو ارب ڈالر بھیجیں گے۔ سب کے سب خدا کی پکڑ میں آئے ہیں۔ اس ملک کی ترقی کا راستہ روکا گیا۔ مولوی خادم حسین اور ہمنوا کی طاقت کی حقیقت اس طرح ننگی ہوئی ہے کہ آسیہ بی بی بیرون ملک پہنچ گئی اور یہ مجاہد معافیاں مانگ کر رہائی مانگ رہے ہیں۔ کہیں پتہ تک نہیں ہلا۔

کہاں وہ دن تھے کہ مجاہدین اسلام موٹر وے اور مرکزی شاہراوں پر معصوم مسافروں کی گاڑیاں جلا رہے تھے نواز شریف کی بے بس حکومت دادرسی سے محروم تھی کیونکہ ”اپنے لوگ“ تھے۔

خدا کی پکڑ بہت سخت ہے۔ کل چیختے تھے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے مر جانا بہتر ہوگا۔ کہتے تھے ایمنسٹی اسکیم چوری کے پیسے ہضم کرنے کا طریقہ ہے۔ سعودی عرب نے نواز شریف حکومت میں ادائیگیوں کے توازن کے لئے دو ارب ڈالر بغیر قیمت کے دیے۔ گلہ پھاڑ پھاڑ کر شور مچانے لگے اورآج کشکول پکڑے ملک ملک پھرتے ہیں لیکن ان ملکوں میں مسیحا بنانے والے پالتو اینکرز موجود نہیں۔ کسی نے پیسے دیے تو مارکیٹ سے زیادہ قیمت پر۔ سب اپنا کیا بھگت رہے ہیں لیکن مانتا کوئی نہیں۔ کسی کو غلطی کا اعتراف کرنے کی جرات نہیں۔ نیچے جھک کر ملک کی مالیاتی خودمختاری کا سودا کر کے بیل آوٹ پیکج لیا ہے۔ جس ایمنسٹی اسکیم پر چور چور کا شور مچانے تھے، اب خود اس کا اعلان کر رہے ہیں۔

چار فیصد پر بلیک منی وائٹ کرا لو کے بلند آہنگ نعرے لگاتے ہیں۔ جب حصص بازار نے اعتبار نہیں کیا تو کون ایمنسٹی اسکیم میں آئے گا؟ کہتے ہیں پیسے بینکوں میں لائیں گے تو ایمنسٹی اسکیم ملے گا۔ پیسے تو گئے۔ سرمایہ فرار ہو گیا۔ سرمایہ کی ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ لوگوں کو رئیل اسٹیٹ میں اربوں روپیہ کا نقصان ہو گیا۔ سرمایہ کاروں کو حصص بازار میں اربوں روپیہ کا نقصان ہو گیا۔ کون آئے گا ایمنسٹی اسکیم میں۔

بیرون ملک پیسے کیوں ملک میں آئیں گے۔ یہاں تو ترسیلات زر کا ہدف ہی پورا نہیں ہوا۔ ایمنسٹی میں پیسے کیوں آئیں گے اور پھر آپ کی شاخ نازک پر قائم حکومت کا اعتبار کون کرے گا۔ اگلے ماہ مالی سال کا بجٹ ہے۔ ٹیکسوں میں چار سو ارب روپیہ کا شارٹ فال ہے اور آپ کی امیدیں ایمنسٹی اسکیم پر ہیں۔ یہ کمپنی چلتی نظر نہیں آرہی۔ نواز شریف کو لندن فلیٹ کے معاملہ میں مجرم قرار دیا اور ملکی معیشت جس طرح برباد ہوئی اس کا حساب پاکستان کے لوگ تو نہیں لے سکتے۔ معیشت لے رہی ہے۔ جن لوگوں نے گاڑیوں کے لئے، گھروں کی تعمیر کے لئے یا پھر کاروبار کے لئے نواز شریف دور میں چھ فیصد قیمت پر قرضے لئے، وہ مر چکے ہیں۔ شرح سود بڑھنے سے ان کی ماہانہ ادائیگیوں میں نادہندگی ہونے لگی ہے۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں میں نادیندگی کی تفصیلات نظر نہیں آ رہیں کیا؟

ہم سمجھتے ہیں بیل آوٹ پیکیج مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ گلیوں، بازاروں اور مارکیٹوں میں بے چینی ہے اس دن کو روک لینا چاہے جب بغیر لیڈروں کے لوگ باہر نکل آئیں گے۔ اس وقت کوئی پیر سیالوی یا مولوی خادم حسین ریسکیو کے لئے سامنے نہیں آسکے گا۔

مسائل کا حل موجود ہے۔ صرف قومی یکجہتی اور غلطیوں کے اعتراف سے مشکلات اور چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن غلطیوں کا اعتراف کرے گا کون اور قومی یکجہتی کے لئے عملی اقدامات کون اٹھائے گا، یہاں تو سیاسی قیادت کو خود ہی چور اور ڈاکو مشہور کر رکھا ہے اس بات کا خیال کیے بغیر کہ ان چوروں اور ڈاکوؤں کو کروڑوں پاکستانی بے گناہ سمجھتے ہیں اور انہیں ووٹ دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).