بریٹن ووڈ اور زیرو آپشن


آج صبح گھر سے نکلتے وقت بیوی نے آواز دی، بجلی کا بل، آخری تاریخ ہے لازمی جمع کروا دیں۔ آخری تاریخ سن کر میں رکا۔ یہ بل کب آیا تھا؟ پرسوں، یعنی اب دو تین دن کا ٹائم ملتا ہے؟ چودہ تاریخ ہے اور یہ کیسے آخری تاریخ ہو جاتی ہے؟ ساری زندگی یہی دیکھا سنا کہ پہلی تاریخ کے لگ بھگ بل آتے اور کم از کم دس بارہ دن کا وقت ملتا کہ بل آسانی سے جمع کروا دیا جائے۔ اتنی سی سہولت تو شہری کا حق ہے۔

آج کے ترقی یافتہ دور میں، مہینے کے کچھ دن ایسے ہیں جب بنکوں کے باھر خلق خدا بے ترتیب، لاچاری کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ بنک والے مقررہ اوقات میں بل وصول کرتے ہیں۔ غضب خدا کا، شہری ریاست کو ریونیو دینے، بے توقیر کھڑے ہوں۔

یہ ہے 21 ویں صدی کا پاکستان، جہاں انیسویں صدی کا ریونیو کلیکشن سسٹم ہے۔ ایسا ملک جس کا پیدا ہونے والا ہر بچہ پیدائیشی مقروض ہو، وھاں ریونیو اکٹھا کرنے کا نظام انتہائی ناقص، اس میں چوری اور بد انتظامی ایسی ہے کہ آج تک، قیام پاکستان سے آج تک اس کی اصلاح نہیں ہو سکی۔ مالیات اکٹھا کرنا ہی ریاست کی بنیاد تھی۔

عظیم سلطنت مغلیہ ایک ما ہر مالیات راجہ ٹوڈر مل کا حسن انتظام تھا۔ چنیوٹ کا رہنے والا وہ تھیم جٹ ایسا انتظام کر گیا کہ صدیوں اس کے بنائے نظام نے سلطنت کو جوڑے رکھا۔

انگریز نے اس نظام کو بدلا اور کلکٹر سسٹم متعارف کروایا۔ یہ بے بدل نظام تھا۔ کہتے ہیں انگریزی حکومت کلکٹر، جج اور پولیس کے سر پہ قایم ہوئی اور ایسی مضبوطی سے، آج تک اس کی باقیات موجود ہیں۔

70 کی دھائی میں کلکٹریٹ سسٹم ختم کیا گیا اور محکمہ مال وجود میں آیا، وفاقی سطح پر ایک فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تشکیل ہوئی جس کے ذمے ریاست کی مالیات اکٹھا کرنا تھا۔ اس کی کارکردگی یہ کہ موجودہ سال ٹیکس میں 350 ارب روپے کا خسارہ ہے۔ کچھ ستم ظریف کہتے ہیں کہ ایف بی آر ختم کر دو ٹیکس بڑھ جائے گا۔

حکومت اور بے چارہ وزیراعظم کیا کرے؟ سوائے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے، کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ ان اداروں کے بارے میں اپوزیشن بے پر کی افواہیں آڑا رہی ہے۔ صرف حکومت کی مخالفت کے چکر میں ریاست کو ڈبونے پہ آمادہ اپوزیشن۔ حالانکہ ہمیں شکر ادا کرنا چاھیے کہ دنیا مین مالی بدعنوانیوں کے حوالے سے جو شہرت ہم نے پائی ہے کم ہی کسی کو نصیب ہوئی۔

یہ ادارے مذاق نہیں پہلے ان کے بارے میں کبھی جان لیں۔

یہ دراصل نیو ورلڈ آرڈر تھا۔ یہ نیو کالونائزیشن یعنی غلامی کی جدید شکل، معاشی غلامی تھی۔ اس کے لیے مغرب نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹھوس بنیادوں پر کچھ ادارے قائم کیے۔ ورلڈ وار ٹو کے سارے اتحادی بریٹن ووڈ کے مقام پر ماونٹ واشنگٹن ہوٹل میں چالیس ملکوں کے سات سو تیس نمائندے یکم جون سے بائیس جون 1944 تک سر جوڑ کے بیٹھے اور چند بنیادی فیصلے کر کے اٹھے۔ اس وقت ایران اور عراق دو مسلمان ملکوں کے نمائندے بھی شریک تھے۔ شاید اس وقت یہی دو آزاد نما مسلم ملک تھے۔

( جملہ معترضہ کہ اس وقت سر سید سے محمد علی جناح تک کیسی بیدار مغز لیڈرشپ تھی۔ غلام ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک پورا آزاد ملک حاصل کیا اور پھر اس کے بعد پچاس مسلم ملک بھی آزاد ہوئے۔ آج کی لیڈرشپ کیسی لئیم ہے کہ اسی ملک کو پھر بدترین حالات غلامی تک لے گئے باقی بھی الا ماشا اللہ اسی کشمکش میں ہیں ) ۔

بریٹن ووڈ کانفرنس نے دو بنیادی اداروں کی بنا رکھی، ایک آئی بی آر ڈی ( IBRD ) یعنی انٹرنیشل بنک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈیویلپمنٹ اور دوسرا آئی ایم ایف ( آئی ایم ایف ) یعنی انٹرنیشل مانیٹری فنڈ، ان دونوں اداروں نے مل کر ایک تیسرا ادارہ بنایا جسے آئی ٹی او، انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن اور پھر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے نام سے جانا گیا۔

دنیا کے بہترین ملکوں کے بہترین جادوگر دماغوں نے اسے ڈیزائن کیا۔ یہ ایمپائر EMPIRE کا معاشی بندوبست تھا۔

دنیا کے ذرائع پیداوار پر قبضہ، اس کے لیے برٹش راج سے بڑے ادارے بنے؟ ان اداروں کے پس پشت فلسفہ اور سٹرٹیجی ہے۔ اس کو آسان زبان میں گلوبلائزیشن کہہ لیں۔

تینوں ادارے دنیا کی معیشت کے مالک نہیں تو ریگولیٹر ضرور ہیں۔ مارشل پلان کے تحت پورے یورپ کی تنظیم نو ہوئی۔ ظآھر ہے یورپ میں یہ مشفقانہ رہے گرچہ منافع خوری سے نہ چوکے، لیکن اصل کمائی، سرمایہ ہم جیسے تیسری دنیا کے ملکوں نے فراھم کیا۔ درجنوں قابل ذکر ملک ان کے دام ہم رنگ زمیں مین گرفتار ہوئے تباہ ہوئے، لیکن پھر سنبھل گئے، کچھ تو کمال کر گئے پرتگال، ارجنٹائن اور اپنا برادر دوست ملک ترکی ستارہ سا بلند ہوئے دنیا کی سترویں بڑی معیشت، آخر کوئی تو وجہ ہوگی؟ وھاں قوم پرست لیڈروں نے قوم کی عزت کی اور دنیا سے کروائی۔

آج پاکستان میں ہر طرف آئی ایم ایف کی دھوم مچی ہے۔ یہ پروفیشنل ہیں۔ قرض دیں گے وصول کریں گے دفعان ہو جائیں گے۔ لیکن ہم نے جو خون آشام مقامی گدھ پا لے ہیں بلکہ مگرمچھ، ان سے کجا بہتر یہ تربیت یافتہ معاشی ڈاکو ہیں۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن پارٹیاں چلا رہی ہیں کہ ملک معاشی غلامی میں دے دیا، ہاتھ جوڑ کہ عرض ہے آپ کی غلامی سے یہ لوگ بہتر ہیں۔

بندہ سوچے کیا پدی کیا پدی کا شوربہ؟ ہم اپنی نظر میں تو نجانے کیا ہیں؟ لیکن دنیا آپ کے متعلق کیا کہتی ہے؟

آتش سے پوچھ لیتے ہیں

” سن تو سہی، جہاں میں ہے، تیرا فسانہ کیا؟

کہتی ہے تجھ کو خلق خدا، غائبانہ کیا؟

یہ آئی ایم ایف کی بائیسویں آمد ہے۔ پہلی نہیں؟ درجنوں حکومتوں نے، کیا سول کیا فوجی، پے در پے ان سے ترقیاتی تعمیراتی نام پر قرض لیے اور غتربود کیے، پورے کے پورے ڈکار لیے، وہ اربوں کھربوں ڈالر کہاں گئے؟ ہم جو مرضی چیخیں وہ ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ وہ کھرب ہا کا سرمایہ کہاں کیسے اور کدھر گیا؟

ان اداروں کے پاس آزاد ذرائع سے حاصل شدہ حقائق موجود ہیں۔ یہ بے شمار مقامی گماشتوں ( تقریبا ساری تھرڈ ورلڈ لیڈر شپ ) کے بارے میں ہم سے زیادہ باخبر ہیں۔ مقامی لیڈران کی الف سے یہ تک وہ جانتے ہیں۔ وہ یہاں حکومتیں کر کے گئے ہیں۔

یہ مانیٹری فنڈ والے خیراتی ادارہ نہیں چلاتے۔ یہ کاروباری ادارہ چلاتے ہیں یہ خطیر رقم کے ساتھ چند انتہائی مخلصانہ مشورے بھی دیتے ہیں۔ یہ آپ کی معیشت کی خامیوں کو، ہاتھی کے دماغوں والے ماھرین کے مشوروں پر ری سٹرکچر کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد عوام کی بھلائی نہیں بلکہ منافع خوری ہو تا ہے آپ کی نظروں میں یہ ظلم ہے، ان کے لیے منافع بخش کاروبار،

یہاں ایک خوبصورت تضاد بھی ہے۔ اگر ان کے مشوروں پر ہم عصر تقاضوں کے تحت عمل پیرا ہوا جائے تو معیشیت سنبھل جاتی ہے۔ اس کی وجہ ان خونخوار اداروں کی ہوس منافع خوری ہے۔ آخر قرض کے اربوں ڈالرز کھربوں میں واپس بھی تو لینے ہیں۔

پاکستان 1950 میں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا رکن بنا، یہ وھی منحوس ایام ہیں جب ہم یکے بعد دیگرے سیٹو اور سینٹو کے رکن ہوئے۔ لیکن پاکستان میں ان بین الاقوامی سود خوروں کا عمل دخل بہت بعد میں ہوا۔

جارج بش سینیر پاکستان میں کہتا ہے کہ ”we sacrifice democracy for you“ ”آپ کے لیے جمہوریت قربان ہے“ اس لیے کہ جو خدمات ضیا الحق نے انجام دیں اس کے بدلے دس سال اسے جھیلا گیا پھر نجات پائی گئی۔

یہاں پر جو جمہوریت متعارف ہوئی وہ میگنا کارٹا والی جمہوریت نہ تھی جس کے پیچھے چھ سات صدیوں کے تجربات تھے۔ نسل در نسل انسانی عقل و حکمت کا نچوڑ تھا۔

یہاں رونلڈ ریگن اور ائرن لیڈی مارگریٹ تھیچر کے ویژن والی جمہوریت جس کی بنیاد یہ ہے کہ ووٹ ڈالیں اور اپنے نمائندے منتخب کریں۔ یہ جمہوریت نہیں بلکہ باریوں والے جمہوری تماشے تھا۔ مقامی گماشتوں کو جنہیں لیڈرشپ کہا جاتا ان کے ذریعے ٹرانس نیشنل کمپنیوں کو غیر ضروری میگا پراجیکٹس دلائے جاتے۔ آٹے میں نمک کی طرح کچھ ان کے حصے بھی آتا ہے لیکن آپ کی قومی دولت تو وہ کمپنیاں لے جاتی۔

پھر تیسری دنیا کے ان نو دولتی بونوں کو رہنے سہنے کے طریقے بتائے سکھائے گئے۔

امریکہ میں رانچ ہاوسز۔ ساوتھ آف فرانس میں جائیدادیں، ہسپانیہ کے گرم ساحلوں پہ پینٹ ہاوسز، خوبصورت کنیزیں، حلقہ احباب میں سچ مچ کے شہزادے شہزادیاں، جو ایک بار اس پنگھوڑے میں جھول لیتا وہ انگریزوں کی طرح مقامی کالے بندوں سے بات چیت کم کر دیتا۔ اگر ان سے اس مال کی باز پرس کی جائے تو یک دم جمہوریت خطرے میں آ جاتئی اور یہ بالشتیے شور مچا دیتے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔

پچھلے پچیس سالوں سے یہ جمہوری لکن میٹی پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں جاری ہے۔ یہ سب کچھ آپ کے قانونی اداروں سے، جمہوری میڈیا سے چھپ سکتا ہے۔ لیکن ان سے کیسے چھپ سکتا ہے جو اس کے بنانے والے ہیں۔

آئی ایم ایف نے سخت شرائط عائد کر دی ہیں بلکہ اپنے عمال بھیج دیے کہ بھائی اب کسی چوری کی گنجائش نہیں، ہم دنیا کو تو بدلنے سے رہے بہتر ہے کہ ان کی مدد سے اپنے آپ کو بدل لیں۔ ویسے ایک موقع ان کو دینے مین کیا حرج ہے؟ شاید عمران خان طیب اردگان جیسا کام ہی کر جائے۔ ”ویسے آپشن بھی کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).