فیصل کی کتاب “نازک جذبات”۔


فیصل سے میری ملاقات ایکسپو سنٹر کے انٹرنیشنل بُک فیئر میں ہوئی۔ فیصل نے اپنا تعارف کروایا۔ فیصل سے مل کر معلوم ہوا کہ یہ ایک نہایت سادہ دل اور پرخلوص شخصیت کا مالک ہے۔ یہ ایک مصنف، رائٹر اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ صحافی بھی ہے۔ ان کو دیکھ کر بالکل نہیں لگا کہ یہ نوجوان لڑکا کم عمری میں لکھاری بھی بن سکتا ہے۔ فیصل نے میری لکھی گئی کتاب خریدی اور پھر اس کے بعد ہماری ملاقات نہ ہو سکی۔ کچھ دن قبل مجھے اس نوجوان نے ایک کتاب ڈاک کے ذریعے بھیجی۔

کتاب لیتے ہی میں نے جب نظر دوڑائی اس پر، تو میں نے دیکھا کہ کتاب کسی اور کی نہیں بلکہ اس کی اپنی لکھی ہوئی تھی۔ کرینہ کپور، جو کہ فیصل کا کرش ہے اس کی تصویر کتاب پہ نمایاں تھی جس کا نام تھا ”نازک جذبات“۔ میں نے کتاب کو وہاں رکھ دیا جہاں میری باقی تمام کتابیں بھی موجود تھیں۔ کچھ مصروفیت کی وجہ سے میں پڑھ نہیں پائی لیکن آج میں نے جب تھوڑا وقت نکالا کوئی کتاب پڑھنے کے لیے تو مجھے خیال آیا کہ فیصل کی کتاب کیوں نہ پڑھی جائے۔ ویسے بھی وہ منتظر تھا کہ کب میری کتاب پڑھی جائے گی اور کب مجھے فیڈ بیک ملے گا۔

تو پھر اسی طرح سے میں نے آج فیصل کی کتاب پڑھ ہی لی۔ کتاب پڑھ کر ذرا بھی مجھے یقین نہیں ہورہا کہ یہ ساری کتاب فیصل نے لکھی ہے۔ الفاظ کا چناؤ، محبوب سے محبت کا اظہار، پھر دوری کی رنجش، جدائی کی اذیت، نفرت کا اظہار۔ اور پتا نہیں کیا کچھ میں نے کوئی لگ بھگ آدھے گھنٹے میں پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کس مصرے کی کس طرح تعریف کروں۔ چند غزلیں اور نظمیں ہیں جن میں سے مجھے سب سے زیادہ جو پسند آئیں وہ یہ تھیں،

*احساس رہ گیا

*محبت میں امتحان کیسا ہوتا ہے

*بچھڑنے کا دن

کیا غضب کی لگیں یہ تینوں مجھے۔ ”بچھڑنے کا دن“ نے تو مجھے سوچ میں مبتلا کر دیا۔ اتنی دل کو لگی وہ مجھے۔ فیصل کی شاعری میں کافی نازک جذبات ابھرتے ہوئے نظر آئے مجھے۔ ان کی شاعری کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے اپنوں کی تکلیف نے کافی حد تک چوٹ پہنچائی ہے اور عشق تو جیسے انتہا کو چھوا ہے اور پھر بے وفائی کی وجہ بن کر ماضی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے جس کا غم بھی شاعر کو کافی غمگین کر گیا ہے۔ شاعری پڑھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے بہت ساری اُمیدیں، بہت سارے خواب، بہت سارے ارمان اور بہت کچھ ادھورا رہ گیا ہے جو کہ اب ماضی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ لیکن ماضی کہاں کسی کو بھولتا ہے۔ اچھا ہو یا بُرا۔ فیصل کی کتاب میں دو اشعار مجھے نہایت پسند آئے۔

° نہیں رہا مجھے انتظار بے وفا کا فیصل

اب میرے رابطے رب سے بحال ہوگئے۔

° نہ ہو جن کی قسمت میں وفا فیصل

ٹوٹے مقدر کے ستارے لگتے ہیں

کیا خوب اشعار ہیں یہ دونوں۔ بہت اچھا لکھا ہے۔ الفاظ میرے پاس بہت ہیں اس تبصرے کے لیے لیکن وہ پھر شاید تبصرہ نہیں رہے گا۔ کتاب میں انہوں نے جہاں اپنے ماں باپ کے نام کتاب کی ہے وہیں انہوں نے اپنے کرش کرینہ کے نام بھی یہ کتاب کی ہے۔ جس کی تصویر بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کتاب میں۔ اور لگتا ایسا ہے جیسے جذبات جم کر فیصل کے اندر سما گئے ہوں اور اب وہ ان کا بوجھ لے کر خود کو مضبوط کر رہا ہے۔ کئی جگہوں پہ فیصل نے رومانوی انداز میں بھی شاعری کی ہے جو کہ بہت لاجواب لگی مجھے۔

بس آخر میں یہی کہوں گی کہ آپ جتنا مضبوط ہو کر دنیا کے آگے چلتے ہو اتنے صحیح رہتے ہو۔ آپ کو دنیا کا سامنا کرنا ہوتا ہے ہر صورت میں۔ کوئی کسی کے جذبات سے باخبر نہیں ہوتا، ہوتا بھی ہے تو ہر کوئی سمجھ نہیں پاتا۔ اپنی زندگی خود اپنے بل بوتے پر بنانی پڑتی ہے۔ لوگوں کے تنقید کرنے سے اور کسی کے چلے جانے سے کوئی زندگی رک نہیں جاتی۔ اللہ پر بھروسا رکھنا چاہیے تا کہ سب کام وہ آپ کے حق میں بہتر کرے۔ بہت اچھا لکھا ہے کتاب میں فیصل نے۔ میری دعا ہے کہ آپ مزید محنت کریں اور کامیابی کے فلک کو چھوئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).