سسی آج بھی روتی ہے


اتوار کی چھٹی ان دفتری حضرات کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی جو چھوٹے شہروں سے ہوتے ہیں اور اپنے گھروں سے دور کسی بڑے شہر میں روزی، روٹی کی خاطر تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں کم از کم ایک موقع میسر آجاتا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ اپنی فیملی، اپنے دوستوں کے ساتھ ایک دن گزار سکیں اور اگر اس ایک چھٹی کے ساتھ مزید ایک اور رخصت عنایت ہو جائے تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ اس دفعہ بھی ہفتے کے آخر میں دو چھٹیاں اکٹھی آرہی تھیں اور میں نے سوچ رکھا تھا کہ جمعہ کی شام ملتان کو خیرباد کہہ کے فوری گھر کے لیے رخت سفر باندھا جائے گا۔

بس اسٹینڈ پر پہنچا تو پتا چلا کہ اس نیک خیال میں میرے کئی ہم خیال اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں اور سواریوں کے رش کی وجہ سے لاریاں کم پڑ رہی ہیں۔ ملتان کا وہاڑی چوک ٹریفک جام، ہارن کی مقابلہ بازی، ہاکرز کے شور اور اسٹینڈز سے نکلتی و داخل ہوتی گاڑٰیوں کے دنگل سے ایک عجیب اضطرابی کیفیت پیدا کر رہا تھا۔ میں ان تمام حالات سے مایوس ہوکر واپس ہاسٹل میں رات رکنے کا قطعاً ارادہ نہیں رکھتا تھا لہذا سوچا جیسے، تیسے ٹکٹ خرید کر گاڑی میں سوار ہو ہی جاؤں۔

میرے ساتھ میرے دفتر کی ایک ساتھی بھی تھی جنہوں نے چند کلومیٹر بعد راستے میں اتر جانا تھا جبکہ میرا سفر تقریبًا چار گھنٹے کی مسافت پر محیط تھا۔ بڑی مشکل سے ایک گاڑی میں مناسب نشستیں ملی اور ہم سوار ہوگئے اور یوں چند منٹ کی دیری کے بعد ہمارے ساتھ ساتھ گاڑی نے بھی ملتان کو خیرآباد کہہ دیا۔ اپنے رستے پر گامزن اس گاڑی میں زیادہ تر سواریاں بڑے شہروں سے تھی یعنی زیادہ اسٹاپ نہ ہونے کی وجہ سے ڈرائیور صحیح اسپیڈ میں منزل کی جانب گامزن تھا اور میں کھڑکی سے باہر ڈوبتے سورج اور گزرتے کھلیانوں سے محظوظ ہو رہا تھا۔

اچانک میں نے محسوس کیا کہ مجھ سے اگلی نشست پر کسی کے رونے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ نظر پڑی تو ایک لڑکی ہچکیوں سے روئے چلی جا رہی تھی اور اس کا چہرہ کھڑکی سے ذرا باہر تھا۔ شاید اس لیے کہ کوئی اس کے رونے پر توجہ نہ دے۔ آنسوؤں کی جھری مسلسل رواں تھی لیکن ہچکیوں کو بڑے ضبط کے ساتھ روکا جا رہا تھا تاکہ یہ راز افشاں نہ ہو۔ تازہ مہندی لگے ہاتھوں کی انگلیاں گیلی آنکھوں اور گالوں کو مسلسل صاف کرنے میں مصروف تھی۔

معاملہ دریافت کرنے کی طلب ہوئی لیکن پھر سوچا اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پرائیویسی کا خیال رکھا جائے۔ خیال جھٹکا اور دوبارہ کھڑکی سے باہر گزرتے لمحات میں مگن ہو گیا۔ اس دوران میری ساتھی بھی لڑکی کے حال سے واقف ہوگئی تھی لہذا انہوں نے ہمت کرتے ہوئے اس سے بات کرنا چاہی کہ سب خیریت ہے ناں! لڑکی نے پہلے تو سب ٹھیک ہے، سب ٹھیک ہے کہا لیکن پھر لہجے میں اپنائیت کا احساس ہونے پر بتایا کہ اس کا خاوند اغواء ہو گیا ہے۔

مہندی لگے تازہ ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے خاوند کے اغواء کی خبر سن کر سائلہ کا دل بھی پسج گیا اور اس نے اسے گلے لگا کر تسلی دیتے ہوئے چپ کروایا۔ ڈھارس بندھانے کی دیر تھی کہ جیسے لڑکی کا ضبط جواب دے گیا اور اس کی ہچکیوں کی آوازیں دوسری سواریوں تک بھی پہنچنے لگی۔ میں نے اشارتاً اپنی ساتھی کو اسے تسلی دے کر چپ کروانے کا کہا لیکن تب تک کئی لوگوں کی سوالیہ نظریں ان تک پہنچ چکی تھی۔ کئی زنانہ سواریوں نے تو خود پوچھنا شروع کر دیا کہ ماجرا کیا ہے لیکن انہیں اتنا ہی جواب دیا گیا کہ لڑکی کی طبعیت نہیں ٹھیک ہے۔

کچھ دیر گلے لگ کر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے بعد وہ کافی دیر خاموش رہی پھر اس نے بتایا کہ ان کی پسند کی شادی ہوئی لیکن دونوں گھروں کو یہ رشتہ منظور نہیں تھا اور یوں دونوں گھر ان کی جان کے دشمن بن گئے۔ ”ہم نے ہر جتن کیے کہ گھر والے اس رشتے کے لیے مان جائیں لیکن بے سود۔ بالاآخر ہم نے گھر والوں کو چھوڑ کر ایک ہونے کی کوشش کی اور شادی کے بعد ایک دور دراز علاقے میں آبسے۔ یہ مہندی اس نے خود میرے ہاتھوں پے لگائی جس کا رنگ ابھی پھیکا بھی نہیں پڑا تھا کہ لڑکے کے گھر والوں نے ہمیں کہیں سے ڈھونڈ لیا۔

رات گئے انہوں نے گھر میں گھس کر ہم دونوں پے تشدد کیا اور لڑکے کے بھائی اسے مارتے، گھسیٹے اپنے ساتھ لے گئے۔ میں اب اپنے خاوند کے پیچھے اسے ڈھونڈنے اس کے گاؤں جا رہی ہوں لیکن نہیں جانتی کہ وہ وہاں کس حال میں ہوگا ہاں البتہ اپنا حال مجھے ضرور معلوم ہے ہو سکتا ہے میں وہاں سے زندہ واپس نہ آسکوں۔ ”ہم نے اسے پولیس میں رپورٹ کروانے اور عدالتی طریقہ کار اپنانے کا مشورہ دیا لیکن اس نے انکار کر دیا کیونکہ گزشتہ رات وہ پولیس اسٹیشن کے عذاب بھی بھگت چکی تھی۔ وہ اپنا حال دل سنا کے اپنا بوجھ ہلکا کر چکی تو پھر سے آنسوؤں کے سمندر میں ڈوب گئی اور ہم بے بس تھے، ہمیں ایک روتی ہوئی سسی کے لیے آج بھی زمین تنگ نظر آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).