بلوچستان کا مسئلہ حل کرنا ہے تو اختر مینگل کو سنو


کہتے ہیں آدھے مسائل کا مسائل کو سمجھنا ہے جبکہ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہا جائے کہ ہم ہر بار مسائل کا حل ایسے لوگوں سے چاہتے ہیں جنہیں مسائل کا علم ہی نہیں۔ ہم موچی سے آپریشن اور نائی سے کپڑے سلوانا چاہتے ہیں پھر نتیجہ کیا نکلتا ہے ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ پاکستان کا یہ مسئلہ نہیں کہ یہاں قابل اور اہل لوگ نہیں ہیں یا پاکستان میں وسائل کی کمی ہے ایسا ہرگز نہیں نا اہل اور غیرسنجیدہ لوگوں سے مسائل حل کروانا اصل مسئلہ ہے۔

دنیا کے کئی ممالک ہیں جو دوسروں ممالک سے خام مال خریدتے ہیں اسے بہتر بنا کر دنیا کو اپنی پروڈکٹ کے طور پر بیچتے ہیں۔ بہت سے ممالک ایسے بھی ہیں جہاں زراعت برائے نام ہوتی ہے یا پھر ہوتی بھی نہیں اور دیگر وسائل بھی بہت کم ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود دنیا ان کی محتاج ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالی نے بیشمار وسائل سے مالا مال کیا ہے اس کے باوجود 72 سال گزر گئے پاکستان آج بھی بدترین مسائل کا شکار ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ ہم اناڑی لوگوں سے مسائل کا حل چاہتے ہیں ہم ان لوگوں کے سامنے مسائل حل کرنے کی فائل رکھتے ہیں جنہیں مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا۔

بلوچستان کا مسئلہ پاکستان کے لئے تمام مسائل سے زیادہ اہمیت اور توجہ کا محتاج ہے مگر عرصہ دراز سے اس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف اتنی ہے بلوچستان کے حوالے سے ہماری پالیسیاں غلط ہیں ہم زمینی حقائق جانے بغیر اپنی پالیسیوں کا اطلاق چاہتے ہیں۔ جیسے ایک دہائی تک طاقت کے زور پر بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی گئی مگر نتیجہ کیا نکلا؟ آج تک ہم مستقل حل تک نہیں پہنچے۔ اس کھینچا تانی میں دوطرفہ اپنا ہی نقصان ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے ہم اپنے ہی لوگوں کے خلاف نبردآزما رہے۔

چلیں یہ بھی درست مان جائے کہ طاقت کا استعمال مجبوری تھی مگر یہ مجبوری مزید مجبوری کیوں بنتی گئی پھر بھی ہم۔ ہم مستقل حل تک نہ پہنچ سکے۔ بلوچستان اور بلوچستان کے باسیوں کو اسلام آباد میں بیٹھ کر یا اسلام آباد میں بسنے والے نہیں سمجھ سکتے۔ وہاں کے زمینی حقائق کا ادراک اسلام آباد میں بیٹھے لوگ نہیں کرسکتے۔ آپ بیس سال بھی بلوچستان میں رہ لیں آپ رسم و رواج سے واقف تو ہوجائیں گے آپ لوگوں کے رہن سہن سے واقف توہوجائیں گے مگر ان کی فطرت کیا ہے اس سے واقفیت بہت مشکل ہے۔

وہاں کے لوگ مشکلات میں کیسے جیتے ہیں اپنے مخالفین کی ضد میں کس حد تک نقصان برداشت کرسکتے ہیں اس بات کا اندازہ اسلام آباد والے نہیں کرسکتے۔ ان مسائل کا ادراک اختر مینگل کو ہے اور کچھ لوگ سمجھتے ہیں اختر مینگل کو ایسا کردار ادا کرنا چاہیے کہ مسائل کا حل نکلے مگر وہ جان بوجھ کر مسنگ پرسن والے ایشو پر بات کیوں کرتے ہیں۔ میری نظر میں ایسا کہنے یا یہ سوال پوچھنے والے انتہائی نادان لوگ ہیں۔ اس معاملے میں اختر مینگل خود بھی بہت مجبور ہے اس کے بس میں بھی کچھ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو قائل کرسکے وہ ان لوگوں کو سمجھا سکے کہ اپنے پیاروں کو بھلا کر نئی زندگی کی شروعات کریں۔

یہ اختر مینگل کے بس میں بھی نہیں ہے اگر وہ غلطی سے بھی ایسا کریں گے تو اگلے دن لوگ اس سے متنفر ہوجائیں گے اس لئے وہ کبھی بھی ایسا نہیں کرے گ کیونکہ وہ زمینی حقائق سے بخوبی واقف ہے۔ اس وقت اختر مینگل محض تشفی دے رہا ہے لوگوں کو دلاسہ دے رہا ہے کہ آپ لوگ صبر کریں آپ لوگ بھروسا رکھیں ہم پوری کوشش کر رہے ہیں مسائل حل ہوجائیں گے۔ اختر مینگل صرف زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے علاوہ وہ خود بھی کچھ نہیں کرسکتا۔

اور دوسری جانب لوگوں کے پاس غداری کے سرٹیفکیٹس تیار پڑے ہیں بس کوئی سوال کرے یا اختلاف کرے بغیر سوچے سمجھے غداری کے سرٹیفکیٹ سے نواز دیتے ہیں یہ انتہاء پسندی نہیں تو کیا ہے۔ آخر اختر مینگل کو سننے میں مسئلہ کیا ہے اس کے ساتھ مل بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ بلوچستان ایشو کو ختم کرنے میں قباحت ہی کیا ہے؟ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تلواریں نیام سے نکل آتی ہیں پھر جلتی پر تیل ڈالا جاتا ہے۔ ایک انسان برسوں سے جس ایشو کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ساری محنت اس واقعے کی نظر ہوجاتی ہے۔

اس وقت اختر مینگل ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہاں کے لوگوں کو بھی قائل کرنا ہے اور اسلام آباد کو بھی راضی کرنا ہے مگر حقیقت یہ ہے دونوں کے مطالبات ایک دوسرے کے مطالبات سے یکسر مختلف ہیں۔ وہاں کے اسلام آباد پر یقین نہیں رکھتے اور اسلام آباد والے انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کچھ لوگ معترض ہیں کہ اختر مینگل کا بیانیہ ملکی بیانیے کو نقصان پہنچا رہا یہ غلط فہمی ہے۔ اگر اختر مینگل جیسے لوگ بھی آئین کے پاسدار نہیں ہیں اگر اختر مینگل کے مطالبات کا طریقہ بھی آئینی نہیں ہے تو پھر کس کا انداز آئینی ہوسکتا ہے۔ وہ آئینی طریقے سے اپنے لوگوں کا نمائندہ بن کر قومی اسمبلی میں پہنچا ہے اور آئینی انداز میں اپنے لوگوں کے مطالبات رکھتا ہے اور آئینی طریقے سے اپنے مطالبات کا حل چاہتا ہے۔ یقین جانیے ایسے ہی لوگ حقیقت میں آئین کے پاسدار اور جمہوریت پسند ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے کہنا پڑ رہا ہے چند دن پہلے بلوچستان میں جو واقعہ پیش آیا اس نے مسائل کو ایک نئی لہر دی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس نوعیت کے واقعات کو پیش نظر رکھ کر مسائل کی حساسیت کو سمجھا جاتا اور اسے سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی مگر ہمارا کیا ہے ہم محترم فواد چوہدری کی طرح جملے کسنے کے ماہر ہیں ہم معاملات کو سلجھانے کے بجائے غیرسنجیدگی کی نظر کردیتے ہیں۔ کتنا نقصان ہوچکا اور مزید کتنا نقصان ہونا ہے اللہ تعالی سے بہتری کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔

ہم فواد چوہدری نہ بنے ہمارے لہجے ہماری گفتگو میں سنجیدگی کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ اگر ان پانچ سالوں میں بھی بلوچستان کے مسئلہ کو حل نہ کیا گیا تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آنے والے دور میں ہمیں مزید کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب مریض شدید زخمی ہو تو اسے ایمرجنسی وارڈ منتقل کیا جاتا ہے نارمل ٹریٹمنٹ نہیں کی جاتی۔ ہمارا وتیرہ رہا ہے ہم دونوں مریضوں کو ایک نظر سے دیکھتے آ رہے ہیں ہم یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہے ہیں کہ بلوچستان ایمرجنسی بنیادوں پر ٹریٹمنٹ کا محتاج ہے۔

اگر اس کی جھولی میں کچھ مراعات زیادہ بھی چلی جائیں تو اسے ایشو نہیں بنانا چاہیے بلکہ تھوڑی قربانی کا جذبہ دکھانا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ اختر مینگل ہر فورم پر وفاق اور اداروں کے سربراہان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوجائے گا۔ جہاں بات بہتری کی کوشش کی ہو وہاں انا کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ جب افغان طالبان اور امریکہ ایک ٹیبل پر بیٹھ سکتے ہیں تو بلوچستان کے ایشو کے لئے ایک ٹیبل پر کیوں نہیں بیٹھا جاسکتا؟ کب تک ہم مسائل کو دبانے میں حل ڈھونڈتے رہیں گے جبکہ مسائل دب جانے سے حل نہیں ہوتے حل کرنے کے لئے انہیں اٹھانا پڑتا ہے ان پر مکالمہ کرنا پڑتا ہے۔

اس سے پہلے کہ پانچ سال گزر جائیں اختر مینگل کو سنا جائے اور جامع و مستقل حل کی طرف پیش قدمی کی جائے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ اور شاید بعد میں کوئی ایسا شخص قومی اسمبلی تک پہنچ جائے جو یا تو حقیقی مسائل کو نظرانداز کرکے اسلام آباد کو خوش کرتا رہے گا یا پھر بلوچستان کے لوگوں کو اس پر اعتماد نہیں ہوگا۔ اس لئے برائے مہربانی آپریشن موچی سے نہیں کسی اسپیشلسٹ سے کرائیں۔ مسائل کا حل انہی سے پوچھیں جنہیں کم از کم مسائل کا ادراک تو ہو نہ کہ ایسے لوگوں سے جو خود ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).