سب مسائل کا ایک ہی حل


گزشتہ دنوں ویزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران جہاں خان صاحب کی اور بہت ساری مصروفیات رہیں وہیں اہم ترین بات جو سامنے آئی تھی وہ توانائی کے حصول کے سلسلے کی تھی۔ پاکستان اس وقت بہت سارے دیگر مسائل اور بحران کے علاوہ توانائی کے بحران کا بھی شکار ہے جس میں بجلی اورپٹرول کی شدید کمی کا سامنا تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ گیس کی کمی بھی پاکستان کو کسی بھی وقت ایک بہت بڑے خسارے میں مبتلا کر سکتی ہے۔

ایران سے واپسی پر پاکستان کے عوام کو یہ اچھی اور خوش کن خبر سننے میں ملی تھی کہ ایران پاکستان کی ان تینوں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہ خبر خیر کی ایک نوید تھی اس لئے کہ تمام پاکستانیوں کو جیسے یہ احساس ہو چلا تھا کہ ایران پاکستان سے آہستہ آہستہ دور ہوتا جارہا ہے۔ ایران کی جانب سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں، در اندازیاں اور اپنی سرحدوں کے اندر موجود ایسے عناصر جو پاکستان کے خلاف ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں، ان کا وہاں موجود رہنا پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لئے تشویش کا سبب تھا۔ ایران کی جانب سے تونائی کے سلسلے میں مثبت جواب اس بات کا اشارہ تھا کہ ریاستی سطح پر ایران پاکستان سے دور نہیں ہونا چاہتا بلکہ اس کی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر اس خطے کی خوشحالی کے لئے کام کرے۔

وزیر اعظم کے اس دورے کے اگلے ہی روز ایک خبر بد یہ ملی تھی کہ امریکی سرکار نے ایران کے خلاف پابندیاں مزید سخت کرنے کا عندیہ دیا ہے اور ایسے تمام ممالک جن کے ساتھ ایران کی لین دین ہے، امرکی سرکار نے ان پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدات منسوخ کریں اور خاص طور سے تیل کی تجارت کو فوری طور پر بند کریں ورنہ امریکا ان کے خلاف بھی کارروائی کا سوچ سکتا ہے۔ یہ خبر اس بات کی جانب واضح اشارہ تھی کہ خان صاحب کے دورے کے دوران ایران سے تونائی کے سلسلے میں جو پیشرفت ہوئی ہے وہ خطرے میں پڑ سکتی ہے اس لئے کہ پاکستان خواہ اپنے آپ کو کتنا ہی خود مختار سمجھنے کی کوشش کرے وہ امریکا سے فی الحال اپنی جان چھڑا نے میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق پاکستان نے ایران پر امریکی پابندیوں کے پیش نظر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام جاری رکھنے سے انکار کردیا۔ یہ خبر اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ جو خدشات پاکستان کے پاک ایران دورے کے فوراً بعد ہی پیدا ہوئے تھے اس نے اب حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔ خبر کی تفصیل کے مطابق ہفتے کو انٹر اسٹیٹ گیس سسٹمز کے منیجنگ ڈائریکٹر مبین صولت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان نے اس حوالے سے ایران کو تحریری طور پر آگاہ کردیا ہے، پاکستان کے پاس ایران کے قانونی نوٹس کے لیے اگست تک کا وقت ہے اور امید ہے کہ ایرانی حکام کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکال لیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان گیس کی فراہمی کا ایک معاہدہ ہوا تھا جو پی پی پی کے دور میں ہوا تھا۔ اس میں یہ بات طے کی گئی تھی کہ پاکستان اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایران سے گیس خریدے گا۔ اس معاہدے کے مطابق ایران پابند کردیا گیا تھا کہ جس مقام سے گیس فراہم کی جانی ہے وہاں سے ایران گیس کی سپلائی لائن بچھا کر پاکستان سے متصل سرحدوں تک لائے گا۔ یہ فاصلہ 900 کلومیٹر کا بنتا تھا۔ ایران نے معاہدے کے فوراً بعد ہی اس پر کام شروع کر دیا۔

پاکستان کو یہ گیس جس مقام تک لانا تھا وہ پاک ایران سرحد سے 800 کلومیٹر کی تھی۔ پاکستان نے بھی اس پر کام تو شروع کردیا تھا لیکن اسی دوران مسلم لیگ ن کی حکومت بنی جس نے ایران سے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کی بجائے قطر سے ایل این جی کا معاہدہ کر لیا۔ اس طرح پاک ایران معاہدہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ خان صاحب نے اسی معاہدے کو جاری رکھنے کا ارادہ کیا تو پاک امریکا تعلقات کی وجہ سے لگتا ہے اب اس معاہدے پر فی الحال کسی پیشرفت کی فوری طور پر کوئی توقع نہیں۔

معاہدے کیونکہ ریاستوں اور ریاستوں کے درمیان ہوا کرتے ہیں، حکومتوں اور حکومتوں کے درمیان نہیں اس لئے خبروں کے مطابق فروری میں ایران نے باضابطہ طور پر پاکستان کو نوٹس جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان نے مقررہ وقت میں اپنے علاقے میں پائپ لائن نہیں بچھائی تو ایران عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرے گا۔ پاکستان کے پاس نوٹس کے مطابق اس سال کے اگست تک کا وقت ہے۔ پاکستان کی کوشش تو یہی ہوگی کہ اس دوران کوئی مناسب صورت نکل آئے ورنہ پاکستان کی بہت ساری مشکلات میں ایک اور بڑی مشکل کا اضافہ اس کے موجودہ بحران میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے تا حال اسے مسائل در مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کا سب سے زیادہ شکار عوام ہورہے ہیں جس کی وجہ سے ان میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ حکومتوں کی لوٹ مار سے عوام پہلے ہی بہت پریشان تھے اور ان کا خیال تھا کہ اگر کسی نئی قیادت کو سامنے لایا جائے تو ان کی مشکلات میں واضح کمی آ سکتی ہے۔ مہنگائی سے نجات مل سکتی ہے اور ملازمتوں کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

سب سے زیادہ جو امید انھیں تھی وہ اس بات کی تھی کہ نئی قیادت اور کچھ کرے نہ کرے، کشکول ضرور ٹوٹ جائے گا۔ قرضوں سے نجات ملنے کی وجہ سے پاکستان ایک نئے اور باعزت دور میں داخل ہو جائے گا لیکن عوام کے سارے حسین خواب بھیانک سے بھیانک تعبیر کی صورت میں سامنے آرہے ہیں کیونکہ کشکول کا حجم اب اس قدر وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے کہ جتنا بھی اسے بھرا جارہا ہے کشکول اپنا حجم بڑھاتا جارہا ہے۔ دنیا سے مختلف ناموں سے حاصل کیا ہوا قرض لینے کے باوجود حالات قابو میں آنے کی بجائے اور بھی گھمبیر شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایم کی ٹیم پاکستان میں ہی ڈیرے ڈال کر بیٹھی ہوئی ہے اور چند سکوں کے عوض پاکستان کے ایک ایک انچ پر قابض ہونے کا منصوبہ بنا کر بیٹھی نظر آ رہی ہے۔

ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ آئی ایم ایف کے قرض کا یہ معاہدہ بھی ہے۔ آئی ایم ایف امریکا کا دوسرا نام ہے اور اس مرتبہ امریکا کا منصوبہ کچھ اور ہی نظر آرہا ہے۔

پاکستان کے حکمرانوں کو بھی ایران کی طرح اپنا دل بہت مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک طویل عرصے سے ایران امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرتا آرہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کا بہت نقصان ہوا ہے لیکن وہ کم از کم امریکہ کے دل میں کانٹا تو بنا ہوا ہے۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ ایک مرتبہ اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دیدے اور معاملات اس پر چھوڑ دے۔ ویسے بھی پاکستان کا مقصد وجود اسی کے دین کا نفاذ تھا۔ اگر وہ اپنے مقصد وجود کی جانب پورے اخلاص کے ساتھ پلٹ جائے تو اللہ تعالیٰ کی تائید اسے ہر قسم کے تفکر سے آزاد کردے گی۔ یہی ایک حل ہے اس کے علاوہ سارے راستے تباہی و بربادی کے راستے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).