ہندستانی انتخابات میں نریندر مودی کی پوزیشن کا جائزہ


ہندستانی تاریخ کے طویل ترین انتخا بات کے چھٹے مرحلے کے اختتام پر زمینی حقائق اورسیاسی تجزیہ نگاروں کے اندازوں کے مطابق ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک تبدیلی کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے۔ تیسرے مرحلے کے انتخابات تک جس خوشگوار تبدیلی کا ہلکا سا احساس ہونے لگا تھا، چھٹے مرحلے کی پولنگ کے بعد اب یہ احساس مزید قوی ہو چلا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں دوبارہ سے مرکزمیں حکومت سازی کے منصوبوں پر پانی پھر سکتا ہے۔

اب تک جن 844 نشستوں پر انتخابات ہوچکے ہیں اُن میں 2014 کے مقابلے بی جے پی کو کم ازکم پچاس سے ساٹھ سیٹوں کے نقصان کا اندازہ لگا یا جا رہا ہے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی اوراس کے اتحادیوں کو سب سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے، اُتر پردیش ان میں سر فہرست ہے جس میں عظیم اتحاد کے مسلم، یادو، دلت، جاٹ اور دیگر پسماندہ طبقات کے ووٹوں کے یکجا ہونے کی وجہ سے اور کانگریس کی دو درجن سے زیادہ سیٹوں پر بی جے پی کے خلاف اُمیدواروں کے انتخاب میں ٹیکٹیکل سلیکشن کی پالیسی اپنائے جانے سے بی جے پی کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑ سکتا ہے۔

اگرچہ اُتر پردیش کی بعض ایسی مسلم اثر والی سیٹیں بھی ہیں جس میں کانگریس اور عظیم اتحاد کے مسلم اُمیدواروں کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو مل سکتا ہے، لیکن ایسی سیٹوں کی تعداد بہت کم ہے۔ زمینی رپورٹ تواس بات کا اشارہ بھی دے رہی ہے کہ اتر پر دیش میں بی جے پی کے بعض بڑے لیڈران مثلاً سلطان پور کی اُمیدوار مانیکا گاندھی، الہ آباد سے ریتا بہوگنا جوشی اور ڈومریا گنج سے جگدمبیکا پال تک کو شکست کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔

بہار میں گرچہ این ڈی اے کے خلاف اُتر پردیش کے مقابلے میں نسبتاً ایک کمزور اتحاد، لالو یادو کی عدم موجودگی اور ٹکٹوں کی غیر مناسب تقسیم کی وجہ سے این ڈی کو کوئی بڑا چیلنج نظر نہیں آرہا ہے لیکن بی جے پی چونکہ اپنی سابقہ 21 سیٹوں کے مقابلے میں محض 17 سیٹوں پر ہی الیکشن لڑ رہی ہے اور این ڈی اے کی کم ازکم مزید 5 ایسی نشستیں ہیں جہاں سے بی جے پی کے لیے اچھے ریزلٹ کی توقع دکھائی نہیں دے رہی ہے، ایسے میں گزشتہ انتخاب کے مقابلے میں 10 نشستوں کا نقصان بہار میں این ڈی اے کی مجموعی نشستوں کی تعداد میں بھاری گراوٹ کا سبب بن سکتا ہے۔

دہلی کی سات نشستوں پر بھی عاپ اور کانگریس پارٹی کے درمیان سیکولر ووٹوں کی تقسیم کی اُمید لگائے بیٹھی بی جے پی کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جہاں شروعاتی رُجحانوں اور میڈیا سروے کی بنیاد پر دہلی میں بی جے پی کے لیے کلین سوئپ کی پیشین گوئی کی جارہی تھی وہا ں بھی اب الیکشن کے بعد بی جے پی کو کانگریس سے کانٹے کے مقابلے کا سامنا ہے۔ ایک محتاط تجزیے کے مطابق کانگریس کو دہلی میں کم ازکم تین نشستوں پر بی جے پی کے مقابلے میں سبقت حاصل ہے اور تقریباً چار نشستوں پر مقابلہ سخت ہے۔

پارلیمانی نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے مہاراشٹر ملک کا دوسرا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں سے این ڈی اے نے گزشتہ انتخاب میں 48 میں سے 42 سیٹیں حاصل کی تھیں اور کانگریس اور اس کی اتحادی جماعت این سی پی کو محض 6 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اس بار حالات یکسر مختلف ہیں اور کانگریس اور این سی پی دونوں ہی اپنی 2014 سے قبل والی حیثیت کو واپس حاصل کرنے کی پوزیشن میں دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مہاراشٹر میں بھی اگر یہی رُجحان آخری مرحلے کی ووٹنگ تک برقرار رہا تو این ڈے کو کم ازکم 15 سیٹوں کا نقصان ہونا طے ہے۔

مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ جہاں 2014 میں حکومت مخالف لہر میں کانگریس کا مکمل صفایا ہوگیا تھا وہاں بھی اس بار کے الیکشن میں کانگریس کے خلاف اور مودی کی حمایت میں کوئی لہر دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس ان ریاستوں میں اپنی سابقہ پوزیشن میں قابل ذکر بہتری کرنے جا رہی ہے۔ یہا ں تک کہ روایتی طور پر بی جے پی کا گڈھ سمجھی جانے والی سیٹ بھوپال سے ہندتوا کی علمبردار اور بھگوا دہشت گردی کی علامت سمجھی جانے والی سادھوی پرگیہ سنگھ کو بھی دگ وجے سنگھ کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

البتہ بی جے پی اور اس کی حمایتی جماعتوں کے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ پانچ سالوں تک تمام محاذوں پر ناکامیوں اور منفی سیاست کے باوجود بی جے پی کو حکومت مخالف لہر کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے اوریہی بات ملک کے سیکولر اور امن پسند شہریوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نریندر مودی ایک بڑے طبقے میں آج بھی ایک عظیم ہندو وادی لیڈر کے طور پر مقبول ہیں۔ گُزشتہ چند سالوں میں مودی نے اپنے نوجوان ہمنواؤں کا ایک ایسا حلقہ تیار کردیا ہے جسے نہ تو معاشی ترقی سے غرض ہے اورنہ ہی بدعنوانی اور بے روزگاری اُن کے لیے کوئی مسئلہ ہے۔

وہ آج بھی نریندر مودی کو ایک مضبوط ارادوں والے قدآور لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں جو اُن کی نام نہاد قومی انا اور جھوٹی دیش بھگتی کی تسکین کا سامان کرتا ہے۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مقبولیت اتنی ہے جو سیٹوں کی اکثریت میں تبدیل ہوکر نریندر مودی کو دوبارہ سے وزارت عظمیٰ کے منصب سے سرفرا ز کر سکتی ہے؟ تو اس کا جواب ابھی وثوق کے ساتھ نہیں دیا جا سکتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اب تک کے ووٹنگ رجحان اور سیاسی تجزیہ نگاروں اور انتخاب کے ماہرین کے جائزے کے مطابق بی جے پی کو گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں زبردست نقصان ہوسکتا ہے اور بی جے پی محض 200 سیٹوں کے اندر سمٹ سکتی ہے اور این ڈی اے کو زیادہ سے زیادہ 230 سے 240 سیٹیں تک حاصل ہو سکتی ہیں۔

اگر ایسا ہوا تو این ڈی اے کو حکومت سازی کے لیے مزید اتحادی جماعتوں کا تعاون درکار ہو گا۔ جو اگر ناممکن نہیں تو بہت آسان بھی نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی اپنے حالیہ انٹرویو میں اعتماد سے بھر پور نریندر مودی کی ا قتدار سے بے دخلی کی پیشین گوئی کر رہے ہیں اور مرکز میں غیر بی جے پی سرکار کی ممکنہ حکومت کی تشکیل کے لیے چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ بی جے پی لیڈران کے چہروں پر مایوسی اورخود وزیر اعظم کے بے تُکے بیانات اور غیر سائنسی اور غیر منطقی انٹرویو سے بھی اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہوا کا رُخ اب بدلنے لگا ہے اور شکست کا خوف اُن کے چہرے پر صاف عیاں ہے۔

بہرحال نتیجہ خواہ جو بھی ہو یہ بات تقریباً طے ہوچکی ہے کہ آئین ہند پر منڈلاتے خطرات کے بادل فی الحال تقریباً چھٹ چکے ہیں اور مودی کی بے لگام جمہوریت اور مطلق العنان حکمرانی کے دن اب جانے والے ہیں۔ اگر خدانخواستہ این ڈی اے توڑ جوڑ کر دوبارہ سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آبھی جاتی ہے تو بھی مودی کی لیڈرشپ کو اندرونِ خانہ سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے اشارے آرایس ایس اور بی جے پی کے ذرائع سے ملنا شروع بھی ہوگئے ہیں جس میں این ڈی اے کی اکثریت سے دور رہنے کی کی صورت میں مودی کی جگہ کسی ایسے لیڈر کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جو مودی کے مقابلے میں نئی اتحادی جماعتوں کو زیادہ قابل قبول ہو۔

ایسے حالات میں نتن گڈکری اور راج ناتھ سنگھ کے نام پر بھی غور ہوسکتا ہے۔ اقتدار کے گلیاروں میں ایک فارمولہ یہ بھی گردش کر رہا ہے کہ مایاوتی اگر 20 سے 25 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر لیتی ہیں اور بی جے پی کسی بھی طرح حکومت سازی کے دوڑ میں شامل نہیں ہوپاتی ہے تو بی جے پی راہل گاندھی یا تیسرے مورچہ کے لیے میدان چھوڑنے کے بجائے مایاوتی کو تعاون دے کر ایک کمزور اور بی جے پی پر منحصر وزیر اعظم بنانے کو ترجیح دے گی، اور مایاوتی کا ماضی یہ بتاتا ہے کہ اقتدار کے لیے بی جے پی سے کسی بھی سمجھوتے میں اُنھیں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔

ویسے اگر این ڈی اے حکومت بنانے سے چوکتی ہے اور کانگریس 100 سیٹوں کا نفسیاتی ہدف پار کرلیتی ہے تو راہل گاندھی وزیر اعظم کے لیے سب سے مضبوط غیر بی جے پی امیدوار کے طور پر اُبھر سکتے ہیں جن کے نام پر کانگریس کی اتحادی جماعتوں کے علاوہ دیگر مودی مخالف علاقائی جماعتیں متحد ہوسکتی ہیں۔ گُزشتہ چند ماہ میں راہل گاندھی کی شخصیت میں جو سیاسی نکھار آیا ہے اور جس تیزی سے سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے ایک بڑے حلقے میں اُن کی قبولیت میں اضافہ ہوا ہے اس سے وزارت عظمیٰ کے عہدے کی اُن کی دعوے داری کو تقویت ملی ہے۔

راہل گاندھی نے پوری انتخابی مہم میں جس سیاسی پختگی، متانت اور لب و لہجے کا استعمال کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ایک حکمت عملی کے تحت مودی کے علاوہ این ڈی اے کے کسی اور لیڈر کے خلاف کوئی نازیبا کلمات زبان سے ادا نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پورے انتخاب میں بی جے پی کے علاوہ کسی بھی بڑے اپوزیشن لیڈر نے راہل گاندھی کی وزیراعظم کے عہدے کی دعویداری پر کوئی سوال نہیں اُٹھایا۔

ملک کے سیکولر، امن پسند اور جمہوریت پسند عوام کے لیے یہ الیکشن ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ثابت ہوسکتا ہے۔ حق گوئی، بے باکی اور جرائت مندی سے جو لو گ پانچ سالوں تک حکومت کی نا انصافیوں اور عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف ڈٹے رہے اُن لوگوں کے لیے یہ انتخاب جمہوریت کا ایک عظیم تحفہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اقتدار کی تبدیلی اُن آوازوں کے لیے بھی ایک خراج عقیدت ہوسکتی ہے جو ہمیشہ کے لیے دبا دی گئیں۔ گوری لنکیش، روہت ویمولا، پنسارے، ڈابولکر اور نہ جانے کتنی ایسی روحیں ہیں جوالیکشن کے نتیجے کے لیے بے صبر ہوئی جارہی ہیں۔ اخلاق، پہلو خان، جنید، اکبر، علیم الدین اور درجنوں بے گناہوں کی بے دردی سے موت کے انتقا م کا وقت اب قریب آپہنچا ہے۔ سیاہ کالی رات کا اختتام عنقریب ہونے کو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).