گوادر پورٹ فعال، دہشت گرد فعال


ملکوں کے تعلقات جذباتیت کے بجائے مفادات پر ہوتے ہیں۔ بلا کسی عنوان کے ہم سب جانتے ہیں کہ گوادر پورٹ کی تکلیف کون کون سے ملک کو کتنی ہے۔ اس گنجلک کھیل میں تو ان ملکوں کو بھی تکلیف ہے جن کے سروں پر روایتی قبائلی لباس کا نشان مذہبی استعارے میں بدل چکا ہے۔ چاہ بہار ایران کا بھارت کے ساتھ ایک بڑا ساحلی منصوبہ ہے۔ ظاہر ہے ایران کے اپنے مفادات ہیں اور وہ ضرور اپنے مفادات کو دیکھے گا۔ اسی طرح پاکستان کے اپنے مفادات ہے جن پر کسی صورت سمجھونتہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ دبئی کی فری پورٹ کو گوادر پورٹ سے کوئی معاشی و سیاحتی نقصان ہوگا؟ یا نہیں؟ ماہرین اس حوالے سے لب بستہ ہیں، لیکن حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے زیر لب یہ بھی کہتے ہیں کہ گوادر پورٹ منصوبہ عرب بھائیوں کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

جو ممالک معاشی ابتری کے ساتھ سماجی ہیجان اورخلفشار کا شکار ہوں انھیں سنبھلنے اور یکجا و یک جان ہونے میں وقت لگتا ہے۔ سماجی انصاف وہ عظیم علامت ہے جو کسی قوم یا معاشرے کو متحد و یکجا کیے رکھتی ہے۔ بلائیں خود بخود آسمان سے نازل نہیں ہوتیں ان کے اسباب ہوتے ہیں اور ان بلاؤں کو ٹالنے کے نسخہ ہائے جات بھی ہیں۔ خود احتسابی کامیابی کی کنجی ہے۔ شکست خوردہ اقوام ہمیشہ خود احتسابی سے ڈرتی ہیں۔ ایک انجانا خوف ان کے سریر میں سرایت کر چکا ہوتا ہے۔

ہم مگر الحمد اللہ شکست خوردہ نہیں، زخم خوردہ ہیں، مگر رویہ ہمارا شکست خوردگان جیسا ہے۔ ایسے ایسے زخم جن کو مندمل ہونے میں آدھی سے زائد صدی لگے گی، وہ بھی ا س صورت، اگر ہم نے ابھی اور اسی وقت درست سمت اور علاج کا تہیہ کر لیا تو۔ بہ صورت دگر جز وقتی اقدامات سے بخار اتر تو جاتا ہے مگر جراثیم مرتے نہیں بلکہ جز وقتی ادویاتی استعمال یا انجکشن کے اثر سے ایک سائیڈ پر ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور موسم آتے ہی پلٹ کر وار کرتے ہیں۔

اس امر میں کوئی کلام ہی نہیں کہ پاکستان گزشتہ چار عشروں سے حالت جنگ میں ہے۔ جی ہاں چار عشروں سے، جب سے روس نے افغانستان پر چڑھائی کی اس وقت سے۔ مہاجرین کو پناہیں دینے سے لے کر ان نام نہاد مجاہدین کی مالی و تکنیکی اعانت تک۔ یہ سب ایک تھکا دینے و الی پریکٹس تھی۔ اس سے سنبھلے نہیں تھے کہ نائن الیون نے آن لیا۔ اس جملے نے افغانوں کی زیادہ تباہی کی کہ ”کہسار باقی، افغان باقی“ کہسار تو باقی ہیں مگر افغانوں کا کوئی اتا پتا نہیں۔

جو بچ گئے وہ زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے اردگرد پھیلے افغان قبیلوں کی ہیجان انگیزی اور بیزارگی کا مشاہدہ کیجیے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان نے جو فیصلہ کیا وہ بالکل پاکستان کے مفاد میں تھا۔ اس وقت اگر کوئی بڑا ”جمہوری چیمپئین“ ملک کا وزیر اعظم اور صدر ہوتا تو اس نے بھی یہی فیصلہ کرنا تھا۔ زمینی حقائق تلخ ہوتے ہیں مگر ہم اپنے سماجی رویے کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ ہم زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے جذباتیت کے کوٹھے پر چڑھ کر آسمان کو سر پر اٹھاتے ہیں۔

نائن الیون کی جنگ کے بعد جب کہ پاکستان اس جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا توپاکستان کے اندر سے اس جنگ کے خلاف ایک خاص طبقہ ہائے فکر نے آوزیں بلند کیں۔ یہاں تک کہ پاکستانی عوام، پاک فورسز اور مساجد و امام بارگاہوں میں ہونے والے خود کش حملوں کو بھی ہمارے مذہبی حضرات، نائن الیون کی جنگ کا ردعمل قرار دینے لگے، کچھ تو ابھی تک یہی کہہ رہے ہیں۔ تاریخ ایسی سخت اور جابر بلا کا نام ہے جو کسی سے رشتہ داری نہیں بناتی۔ اگرچہ اس میں تبدیلی کی بھی جائے تب بھی محنت کش محقق نقطہ اعتدال تک پہنچ ہی جاتا ہے۔

گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ ایک وقت اسلام آباد کی ایک مسجد کے ”خدائی فدائیں“ نے غیر ملکیوں اور پولیس والو ں تک کو اغوا کر لیا تھا۔ بہارہ کہواور آبپارہ میں ویڈیو سینٹرز اور سی ڈیز کی دکانیں بند کر وا دی گئیں، ریاست کے پاس اپنی رٹ قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ پروپیگنڈا کرنے والوں نے ریاست مخالف پروپیگنڈا بھی کیا، مگر تاریخ اپنے سینے میں سچ سمیٹے مناسب وقت کے انتظار میں ہے۔ جنوبی و شمالی وزیر ستان، اور بالخصوص سوات، مینگورہ مالا کنڈ میں کالعدم تحریک طالبان، صوفی محمد کی کالعدم شریعتِ محمدی نے ریاستی رٹ کو تقریباً ختم کر دیا تھا۔

یہ کوئی دو صدی پرانی بات نہیں، یہی کوئی آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے۔ پاک فورسز نے محب وطن گروہوں، اہل دانش کی حوصلہ افزائی اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیوں سے دہشت گردی کے ہر گروہ اور ہر ٹھکانے کو ختم کیا۔ یہاں تک کہ دہشت گرد افغانستان میں پناہ گزین ہوئے۔ پاکستان مخالف قوتوں کی محفوظ پناہ گاہ افغانستان ہی رہا۔ بلوچ علیحد گی پسند ہوں، یا ریاض بسرا جیسے فرقہ ورانہ دہشت گردی کے رکھوالے، ملا فضل اللہ ہو یا کوئی اور۔

افغان سر زمین نے ہمیشہ پاکستان مخالف قوتوں کو خوش آمدید کہا۔ پاک فورسز نے جب دہشت گردوں کی چھوٹی بڑی تمام تنظیموں کو شکست فاش دی تو ان تنظیموں کی بچھی کچھی قیادت یا فدائین نے اپنا رخ اپنے عالمی آقاؤں کی طرف کیا۔ کچھ دن قبل یعنی دو رمضان المبارک کو لاہور داتا دربار کے باہر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری کالعدم دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کی، اس تنظیم کی قیادت افغانستان میں ہے۔ کالعدم تحریک طالبان کی قیادت افغانستان میں ہے، بلوچ علیحد گی پسندوں کی چھوٹی بڑی قیادت افغانستان میں ہے جہاں سے یہ لوگ اپنے ”فدائین“ یعنی دہشت گردوں کو احکامات جاری کرتے ہیں۔

گوادر میں فائیو سٹار ہوٹل پر ہونیو الے حملے کی ذمہ داری علیحدگی پسندکالعدم دہشت گرد تنظیم بی ایل اے نے قبول کی۔ آخری تجزیے میں تتر بتر ہوئے دہشت گردوں کو ان کے عالمی سرپرستوں نے مجتمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ خطے میں خدا نخواستہ ایک نئی جنگ کی تیاریاں عروج پر ہیں، امریکی جنگی جنون کا رخ ایران کی طرف مڑتا دکھاتی ہے۔

سعودی آئل ٹینکر پر متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں حملہ کسی نئے اندیشے کا عنوان بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے میں ہمیں بالخصوص گوادر اور بلوچستان میں ہونیو الی دہشت گردی پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہونا ہی ہے ہمیں اپنی حکمت عملی کو از سرِ نو دیکھنا ہو گا۔ کئی باتوں کی ایک بات کہ یہ جو ”سہولت کار“ ہیں ان پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان کی سرگرمیوں کو ذرا ٹھنڈا کیا جائے۔ دشمن عالمی ہے یا مقامی، یہ بات زیادہ اہم نہیں کیونکہ اب سب آشکار ہو چکا ہے۔

مقامی دشمنوں کو اپنے عالمی سرپرستوں کی سرپرستی حاصل ہے، ان کا باہم گٹھ جوڑ ہے۔ فکری رویے ان کے خواہ کچھ بھی ہوں مگر ریاست پاکستان کو کمزور کرنے کے ”یک نکاتی“ ایجنڈے پر امریکہ، فغانستان اور بھارت کلی متفق ہیں۔ جوں جوں گوادر پورٹ فعال ہوگی اور سی پیک پر سرگرمیاں بڑھیں گی، علیحدگی پسند، دہشت گرد اور ان کے سہولت کار بھی ”فعال“ ہوں گے۔ دہشت گردوں کی حکمت عملی سیکیورٹی فورسز کو پہلے نشانے پر لینا ہے، یعنی سیکورٹی کی پہلی ”لیئر“ کوٹوڑنا یا اس میں ہراس پیدا کرنا ہے۔

یہ مگر بزدل دشمن اور دہشت گردقوتوں کی خام خیالی ہے۔ ہمارے عام پاکستانی سے لے کرسیکورٹی فورسز کے مسلح جوانوں تک، سب یکجا و یکجان ہیں وطن کی حفاظت کے لیے۔ دہشت گردجان لیں، ہم مسلح محاذ پر ان سے بڑے مارجن کے ساتھ جیت چکے ہیں۔ اب وہ آسان ہدف کے طرف منہ کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، انشا اللہ اس کوشش میں بھی انھیں شکست فاش ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).