ہم بائیس کروڑ کی حیثیت ہی کیا؟


ہم لکھنے والے بھی کیا سادہ ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکمران طبقہ ان کے مشوروں اور تجاویز کو ذرہ بھر اہمیت نہیں دیتا، مسلسل اپنی توانائیاں صرف کرتے چلے جا رہے ہیں!

ایک وقت تھا کہ جب مدیر اخبار کے نام لکھا گیا کوئی خط قابل غور ہوتا اور اس پر عمل درآمد بھی ہو جاتا تھا۔ ایسا اس لیے تھا کہ حکمران ایک حد تک آزاد تھے۔ عالمی سامراج کے زیر اثر نہیں تھے۔۔۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا عالمی سامراج کو یہ یقین ہو گیا کہ اب ہمارے حکمران و عوام ان سے مانوس ہو گئے ہیں اور سرد جنگ منجمد ہونے جا رہی ہے تو اس نے اپنے پروگرام کے مطابق ڈھالنے کا آغاز کر دیا۔ اس کے لیے اس نے اپنے ذیلی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کو متحرک کر دیا جو خندہ پیشانی سے قرضے دیتے مگر حساب کتاب زیادہ سخت نہ ہوتا۔ اس بنا پر ہمارے اہل اختیار و اقتدار میں تجوریاں بھرنے کا رواج عام ہوا۔ وہ دیدہ دلیری کے ساتھ ملکی خزانے پر جھپٹتے ان کے علاوہ بھی طاقتور حلقے اس کام میں شریک ہو جاتے۔

نتیجتاً ملک کے اندر ذرائع پیداوار پر توجہ کم ہو گئی۔ عارضی و سطحی نوعیت کے منصوبے بننے لگے تا کہ عوام کو اعداد و شمار کی برفی کھلا کر خوش کیا جا سکے اور وہ انہیں اختیارات کا مالک بنا دیں۔ ایسا عالمی سامراجیوں کے لیے بہت ضروری تھا کیونکہ عوام کے ذہن میں یہ خیال نہیں آنے دینا تھا کہ وہ بد دل و بد گمان ہو کر حکمران طبقے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس وقت بائیں بازو کی صحت کافی بہتر تھی اور وہ اس پوزیشن میں تھا کہ کار خانوں، ملوں اداروں اور فیکٹریوں میں ایک بھونچالی کیفیت کو جنم دے سکے لہٰذا غیر محسوس انداز سے عالمی مالیاتی اداروں کی معاشی جکڑ بندیاں جاری رہیں۔ ان جکڑ بندیوں کے پیچھے عالمی سامراج ہی تھا جو سابق سوویت یونین کی انتظامی و اقتصادی کمزوریوں کے سبب مزید با اختیار اور طاقتور ہو گیا لہٰذا اس نے مصلحت کے بجائے احکامات کی راہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ ماضی میں ایسے چند واقعات یہ ثابت کرتے ہیں۔

حکمران جنہیں اقتدار کی ہوس نے اندھا کر رکھا تھا اس کی ”راستہ لاٹھی“ کے مرہون ہو گئے۔ ایک اس کی وجہ یہ بھی تھی اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان کے کالے کرتوت کا ریکارڈ اس کے پاس موجود تھا لہٰذا ہرن اب شیر کے رحم و کرم پر تھا مگر شیر شکار ہی بے رحم ہو کر کرتا ہے لہٰذا عالمی سامراج نے اودھم مچانے کی ٹھان لی وہ ہمارے اٹھنے بیٹھنے تک پر حاوی ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کے مالیاتی ادارے ہمیں مستقبل میں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا سب بتانے لگے۔

ہماری زندگیاں ان کی قید میں چلی گئیں۔ جینے کے تمام راستوں پر ان کے معاشی پہریدار کھڑے ہو چکے تھے۔ جو اِدھر اُدھر نہیں ہونے دے رہے تھے مگر ہمارے معاشی حالات بہتر ہونے کے بجائے بد تر ہوتے گئے پھر فیصلہ ہوا کہ خسارہ چونکہ بڑھ رہا ہے۔ قرضوں کا بوجھ بھی زیادہ ہو چکا ہے لہٰذا ریاستی اداروں کو نجی تحویل میں دے دیا جائے بصورت دیگر ملک ڈیفالٹ کر جائے گا اور اس کی حالت ایتھوپیا کی طرح ہو جائے گی لہٰذا لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو تشویش لاحق ہوئی کہ وہ بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ ان کے اقتدار ان کے محل ان کے کار خانے سب کے سب عوامی دسترس میں ہوں گے لہٰذا وہ جو کہتے ہیں کر لیا جائے۔ پورا نہ سہی تھوڑا تو ہو سکتا ہے۔

یوں ہم نجی دور میں داخل ہو گئے۔ عوام اپنی غربت و افلاس بے بسی کی زندگی میں محو رہے، انہیں ہر کوئی اس سے نجات دلانے کا وعدہ کرتا رہا مگر وہ پورا نہ کرتا کیونکہ وہ خود عالمی سامراج کے ہاتھوں بلا واسطہ و بالواسطہ یرغمالی تھا۔ اس کی ہر سانس قابل ضبط تھی لہٰذا وہ کچھ کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا مگر چونکہ عوام کو بھی راضی رکھنا ہوتا ہے لہٰذا چھوٹے چھوٹے وقتی ریلیف درکار ہوتے جن کی اجازت اس سے مل جاتی مگر اس دوران کچھ اپنی مرضی کا بھی ہو جاتا ہے، جس پر اس کی باز پرس ہوتی۔ اب مگر پچھلے دس برسوں سے لاکھ کوشش کے بھی خواہشوں کے دیے روشن نہیں ہو سکے کیونکہ اب حالت اپنی غیر ہو گئی ہے۔ بری طرح سے معیشت کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں وہ گرتی ہے کھڑی ہوتی ہے مگر توانا نہیں ہو رہی اور اس کا ذمہ دار عوام کو ٹھہرایا جا رہا ہے جو کہ ظلم ہے، وہ محنت و مشقت کا عوضانہ بھی پورا نہیں حاصل کر پا رہے۔

لوٹ کوئی رہا ہے ستم ان پر ڈھایا جا رہا ہے۔ ناجائز منافع خور ان کی کھال ادھیڑ رہے ہیں بجلی چور ٹیکس چور اور گیس چور طاقتوروں سے مل کر ریاست کو نقصان پہنچا رہے ہیں مگر اس کا ازالہ نئے ٹیکسوں کی صورت عوام سے کیا جا رہا ہے۔ جبکہ تمام بڑے سرمایہ داروں کے سرمایہ کی نمود یہیں سے ہوئی۔ اسی دھرتی کے وسائل سے وہ مستفید ہوئے اور اپنی عوام کے پسینے سے وہ دولت کے ڈھیر لگانے میں کامیاب ہوئے مگر اب جب ان کی ضرورت پڑی ہے تو وہ چیخ چلا رہے ہیں اور ایک پیسا بھی رضا کارانہ طور سے دینے کو تیار نہیں۔

لہٰذا حکومت مجبور ہے کہ اُدھار لے قرض حاصل کرے جو سفاک عالمی مالیاتی ادارے اپنی شرائط پر دیں گے۔ انہیں کوئی کسی سے انسانی ہمدردی نہیں ہوتی وہ پہلے کھیل کھیلتے ہیں اسے خراب کرتے ہیں اور پھر اس کی خرابی کو دور کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ سو اس وقت ایسا ہو رہا ہے، وطن عزیز ان اداروں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ اہل اقتدار و اختیار بھی شاید نہیں چاہتے کہ ان سے چھٹکارا پائیں کیونکہ ان کی حکمرانی ان سے جڑی ہوئی ہے؟

بہرحال اچھے دنوں کی آس میں برے دن ہماری چیخیں نکلوا رہے ہیں۔ ان میں اور بھی اضافہ ہو گا۔ آنے والے مہینوں میں اگرچہ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا مگر وہ کسی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ انہیں سٹیٹس کو کی حمایتی قوتیں کسی صورت کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ وہ یہاں بے چارگی و مفلسی دیکھنے کے حق میں ہیں تا کہ ان کے خزانے بھرے رہیں ان کے اختیارات میں کوئی کمی نہ آئے۔ وہ ذرا غور کریں کہ کیا نج کاری سے ملکی معیشت بہتر ہو گی۔ نہیں ہرگز نہیں۔ وہ مزید خراب ہو گی اور پھر دھیرے دھیرے آزاد ہو جائے گی لہٰذا بیچ چوراہے میں جو ملکی اثاثوں کو فروخت کرنے کا سٹال لگا دیا گیا ہے اسے ہٹایا جائے۔

عوام ان سے اس قسم کی توقع بالکل نہیں کر رہے تھے اگر وہ کچھ کر سکنے کی پوزیشن میں ہیں تو پکڑیں بدعنوانوں کو کمیشن خوروں کو اور جعل سازوں کو ان مافیاز کو جنہوں نے عوام و ریاست کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کرے کوئی بھرے کوئی۔ وہ پٹری سے اتر چکے ہیں اپنے کارکنوں، ہمدردوں اور غمگساروں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ انہیں کسی ایسی دنیا کے لیے عوام نے ووٹ نہیں دیے تو جہاں غریبوں کے استحصال کے منصوبے بنتے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ اب کسی دانشور، لکھاری اور مفکر کو مغالطے میں نہیں رہنا چاہیے کہ ان کی کہی ہوئی کوئی بات حکمرانوں کے نزدیک اہم ہے۔ وہ اور عالمی مالیاتی ادارے مل کر جو کرنا ہے طے کرتے ہیں بائیس کروڑ عوام واقعتا اُلو باٹے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).