گھر کی کھیتی


زچہ وارڈ میں، اُن سب کے میلے پسینے میں بھیگے جسموں کی بو تھی، جو بچے جَن کے تھکن سے دو چار وجود کے ساتھ میلے چادروں والے بستر پر لیٹی تھیں۔ اِس میں دواوں اور ہر بیڈ پر بیٹھے، اس کے گرد کھڑے ملاقاتیوں کے میلے جسموں اور کپڑوں کی بو شامل ہو کے،  پچاس فٹ سے زیادہ لمبےوارڈ میں تعفن بھرتی جا رہی تھی۔وارڈ میں دونوں طرف گنجائش سے کہیں زیادہ بیڈ تھے، جو اب تقریباََ ساتھ ساتھ لگے ہوئے تھے۔ دونوں اطراف کی بند کھڑکیوں کے، زیادہ تر کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ نہ جانے کس زمانے میں لگائے جانے والے درجن بھر پنکھوں میں سے آدھے ساکت تھے اور باقی بے دلی سے، بس گھوم رہے تھے۔ بیڈ کے نیچے فربہ جسم والی بلیاں فراغت سے ٖغرا رہی تھیں، اور دیواروں کے ساتھ چوہے بے خوفی سے دوڑ رہے تھے۔ لیکن رشید کو صرف ایک خوشی کا احساس تھا۔ زہرہ پانچ بیٹیوں کے بعد بیٹا جننے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

زہرہ بھی شادی کے بارہ سال بعد آج کامرانی اور عافیت کےسکون سے بھری مسکراہٹ کے ساتھ، رشید کو دیکھ سکتی تھی اور امید کر سکتی تھی، کہ وہ اولاد نرینہ کے لیے ایک اور عورت کو لانے کا پکا اردہ بدل دے گا۔ فرش صاف کرنے والے وائپر کو ڈنڈے کی طرح لہرانے والے نے چلانا شروع کیا، ’’چلو! چلو نکلو سارے۔ ٹیم ختم۔‘‘ اس پہلے اعلان ہی پر بیزار تیمار داروں کی اکثریت میں ہلچل ہوئی۔ اس وقت ساتھ والے بیڈ کی عورت کو دیکھنے والی نرس نے گھوم کے رشید سے کہا، ’’بیٹا دو گے؟‘‘ اچھے پیسے مل سکتےہیں۔‘‘ اور جواب سنے بغیر نکل گئی۔
’’حرام زادی۔‘‘ رشید نے دانت پیس کے کہا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ زہرہ نے نقاہت سے پوچھا۔
’’پوچھ رہی تھی بیٹا بیچو گے۔ اس نے غصے میں دو زیادہ فحش گالیاں دیں، جو اس کی بیوی کے لیے بے معنی ہو چکی تھیں۔

ملاقاتیوں کو نکالنے پر مامور شخص نے درشتی سے رشید کا ہاتھ کھینچا۔
’’اونچا سنتا ہے کیا؟ چل نکل باہر۔‘‘
دس کے چار نوٹ، اضافی پندرہ منٹ کے قیام کی خصوصی اجازت پر، وہ جیب میں ڈال چکا تھا اور اسے رشید کی صورت پانچویں نوٹ والی نہیں لگتی تھی۔ رشید نے جاتے جاتے زہرہ سے کہا:
’’میں باہر لیٹ جاوں گا، رات کو۔‘‘

ریڑھی سے نان چنے کھانے اور چائے پینے کے بعد، اس نے اسپتال کے اجاڑ میدان میں اپنے لیے جگہ تلاش کی۔ ہر قدرے صاف جگہ پر، لوگ پہلے سے قابض تھے۔ وہ لوہے کی سلاخوں والی دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھا ہی تھا، کہ ایک سایہ اس کی طرف لپکا۔ قریب آنے پر اس نے دیکھا یہ وہی نرس تھی۔
’’میں تلاش کر رہی تھی تمھیں۔ دیکھو! قسمت سے ہوتے ہیں، ایسے سودے۔ ڈیڑھ لاکھ۔۔۔‘‘
رشید کی برہمی یوں بجھ گئی، جیسے انگیٹھی بھر انگاروں پر کوئی ایک بھرا جگ پانی کا ڈال دے۔
’’نقد سودا ہو گا۔ اور ہو سکتا ہے پورے دو بھی مل جائیں۔ بات کر لو اپنی بیوی سے، چاہو تو۔۔۔ یہ تو گھر کی کھیتی ہے۔‘‘
رشید نے ایک منٹ بعد اندر کا سانس خارج کیا۔
’’وہ زہرہ۔ میری گھر والی۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں۔ آو میرے ساتھ۔ ابھی بات کر لو۔‘‘
وہ پورے یقین کیےساتھ پلٹ گئی، کہ دو لاکھ کی زنجیر سے بندھا لڑکے کا باپ، اس کے پیچھے پالتو کتے کی طرح آئے گا۔ وہ ایک تجربہ کار عورت تھی۔

زہرہ کے پیروں کی طرف بیٹھ کے، اُس نے آہست آہستہ کہا، ’’دیکھ پیر پتر والا کے مزار پر چادر ہی چڑھائی تھی ناں، ہم نے۔۔۔ بیٹا مل گیا۔ دولاکھ ہوں گے، تو دو دیگ کا نذرانہ دیں گے۔ پلاو اور میٹھے چاول۔۔ تو اللہ پھر دے گا، بیٹا۔ سال دو سال میں۔۔۔ کیا کہتی ہے تو؟‘‘
زہرہ نے سر ہلا کے کم زور سی آواز میں اقرار کیا، ’’بات تو میرے بھی دِل کو لگتی ہے۔‘‘

احمد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد اقبال

احمد اقبال 45 سال سے کہانیاں لکھ رہے ہیں موروثی طور شاعر بھی ہیں مزاحیہ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکا ہے سرگزشت زیر ترتیب ہے. معاشیات میں ایم اے کیا مگر سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملکی تاریخ کے چشم دید گواہ بھی ہیں.

ahmad-iqbal has 32 posts and counting.See all posts by ahmad-iqbal