سپارٹیکس۔ عظیم انقلابی اور باغی غلام


سپارٹیکس کی تاریخ پیدائش پر بہت سارے محققین اور تاریخ دانوں میں اس بات پر اتفاق ہے، کہ وہ 111 سے 109 قبل مسیح میں تھریس (جو کے موجودہ عہد میں مشرقی یورپ کا بالکن علاقہ کہلاتا ہے) میں پیدا ہوا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں رومن شاہی عروج پر تھی۔ روم کے امیر خاندان جو اس بادشاہت کا حصہ تھے، دنیا بھر سے کمسن بچوں کو خرید کر باقاعدہ غلام بنا لیا کرتے تھے۔ ان غلام بچوں کو جانوروں کی طرح زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا تھا۔ اور ہیرے۔ سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی کانوں میں جبری مشقت پر لگایا جاتا تھا۔

کئی میل لمبی اور گہری کانوں میں آکسیجن اور روشنی کی کمی کے باعث روزانہ کی بنیاد پر کئی غلام بچوں کی موت واقع ہو جاتی تھی۔ اور زندہ بچ جانے والوں کو شام پڑتے ہی ایک بار پھر زنجیروں میں جکڑ کر تہہ خانوں میں باندھ دیا جاتا تھا۔ جہاں سلطنت روم کے مسلح سپاہی ہر وقت پہرے پر مامور ہوتے تھے۔ سپارٹیکس کو بھی بچپن میں ہی خرید کر انہی تہہ خانوں میں رکھا گیا۔

سلطنت روم کے امیر خاندانوں کو گلیڈیٹرز کی لڑائی کا شوق تھا۔ گلیڈی ایٹرز خریدے گئے غلاموں میں سے، جسمانی طور پر مضبوط غلاموں کو بنایا جاتا تھا۔ گلیڈی ایٹرز کے کھیل میں دو غلام اس وقت تک آپس میں لڑتے تھے جب تک ان میں سے ایک مر نہ جائے۔ اور خون بہتے، تڑپتے، بلکتے انسانوں کو دیکھ کر سلطنت روم کے امرا میدان کی بالا نشستوں پر براجمان ہو کر داد و تحسین کے تعریفی کلمات کے ساتھ خوشیاں مناتے تھے۔ ان گلیڈی ایٹرز کو ٹریننگ دینے کے لیے شاہی دربار میں باقاعدہ کوچ مقرر تھے۔

شاہی خاندان اور امرا کے طبقے کے لئے گلیڈی ایٹرز کی لڑائی تفریح طبع کے ساماں کا باعث تھی۔ سپارٹیکس کو بھی ابتدائی جبری مشقت کے بعد گلیڈی ایٹر کی ٹریننگ دی گئی۔ اپنے مضبوط اعصاب اور جسمانی ساخت کی بدولت سپارٹیکس قلیل عرصے میں سلطنت روم کا ہر دل عزیز گلیڈی ایٹر بن گیا، جو اپنے مد مقابل کو بے دردی سے مارنے اس کی چیخیں نکالنے اور چند منٹوں میں اسے موت کے گھاٹ اتارنے میں ماہر سمجھا جائے لگا۔ اپنی بہادری اور جسمانی طاقت کی بدولت سپارٹیکس باقی غلاموں کے لیے باعث فخر بنتا گیا۔

ایک دن گلیڈی ایٹرز کھانے کے لیے کمرے میں جمع تھے کہ شاہی پہرے داروں نے ایک گلیڈی ایٹر کو مزید کھانا طلب کرنے کے جرم میں بے دردی سے مارنا شروع کر دیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر گلیڈی ایٹر سپارٹیکس کے مادی جسم میں پوشیدہ باغی لیڈر کا کردار جاگ گیا۔ اور اس نے بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے شاہی پہرے داروں پر حملہ کر دیا۔ جو اپنی نوعیت کا منفرد اور انوکھا واقعہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے باقی گلیڈی ایٹرز بھی اس بے قاعدہ پہلی لڑائی میں شامل ہو گئے اور شاہی پہرے داروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

اس جرم کی پاداش میں ان درجن بھر گلیڈی ایٹرز کو کئی دنوں تک بھوکا رکھنے کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی اذیتیں بھی دی گئیں۔ یہی وہ وقت تھا جب سپارٹیکس نے اپنے طبقے کی طاقت اور جنگ کا اندازہ لگانا شروع کیا۔ جب پہرے دار رات کو انہیں باندھ کر چلے جاتے تو سپارٹیکس باقی گلیڈی ایٹرز سے کہتا کہ ہمیں اپنی طاقت کا اندازہ کرنا ہو گا۔ صرف ایک وقت ہم نے مل کر شاہی پہرے داروں پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی۔ وگرنہ ہر روز میدان میں ہم آپس میں لڑتے ہیں۔ اس وقت تک جب دو میں سے ایک مر نہ جائے۔ اور اس عمل سے شاہی طبقہ لطف اندوز ہوتا ہے۔ اگر ہم مل کر اپنی طاقت کو شاہی طبقے کے خلاف استعمال کریں، تو ہر روز ہم میں سے کسی ایک کو مرنا نہیں پڑے گا۔ سپارٹیکس کی ان باتوں کو باقی گلیڈی ایٹرز غور سے سنتے اور دل یی دل میں سپارٹیکس کے لیے عزت و احترام کا جذبہ پیدا ہوتا گیا۔

ایک دن گلیڈی ایٹرز کے مقابلے میں سپارٹیکس اور اس کا بہترین دوست مد مقابل تھے۔ دونوں کے درمیان لڑائی دیر تک جاری رہی اور امرا اس سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ ایک وقت دونوں نے ایک دوسرے کو زخمی کر کے زمین پر لٹا دیا۔ اب جس نے بھی تلوار کا پہلا وار کر کے دوسرے کی گردن اتارنی تھی، وہی فاتح ٹھہرتا۔ سپارٹیکس نے یہ سوچ کر کہ آج اس کے مد مقابل اس کا بہترین دوست تھا۔ تھوڑی ہچکچاہٹ دکھائی کہ اس دوران اس کے کانوں میں اس کے دوست کی کپکپاتی آواز پڑی۔ کہ سپارٹیکس تلوار اٹھاو اور میرا سر قلم کر دو۔

سپارٹیکس نے جوابا کہا کہ یہی کام تم بھی کر سکتے ہو۔ سپارٹیکس کے دوست نے کہا۔ نہیں سپارٹیکس یہ کام تم نے کرنا ہے۔ ہم میں سے کسی ایک کو زندہ رہنا ہے۔ اور میں چاہتا ہوں تم زندہ رہو۔ اس لیے کہ بہت سارے غلاموں نے تم سے آس باندھ لی ہے، کہ تم ان کے نجات دہندہ ہو سکتے ہو۔ جو کام تم زندہ رہ کر کر سکتے ہو، وہ میں نہیں کر سکوں گا۔ اس لیے اے عزیز دوست، تلوار اٹھاو اور بڑے مقصد کے لئے میرا گلہ کاٹ دو۔ اس لمحے سپارٹیکس نے بڑے مقصد کے لئے تلوار اٹھائی اور اپنی زندگی کے آخری گلیڈی ایٹر کھیل کو جیتنے کے لیے اپنے مد مقابل پر وار کر دیا۔

اس رات دوست کے آخری الفاظ بازگشت بن کر سپارٹیکس کے کانوں سے ٹکراتے رہے۔ صبح کے ناشتے سے ذرا پہلے سپارٹیکس نے روم شاہی کے خلاف بغاوت کا فیصلہ کر لیا۔ اور باقی گلیڈی ایٹرز سے کہا، کہ ناشتے کی پلیٹوں کو اپنا ہتھیار بنا کر ہم پہرے داروں پر حملہ کریں گے۔ پھر ان کے ہتھیار چھین کر ہم قلعے سے باہر نکل جائیں گے۔ تا کہ کھلے میدانوں میں باقی غلاموں کو ساتھ ملا کر لڑائی کی جا سکے۔ دیگر دو درجن کے لگ بھگ گلیڈی ایٹرز جو دل ہی دل میں سپارٹیکس کو اپنا نجات دہندہ مانتے تھے، خوشی سے جھوم اٹھے اور یوں 73 قبل مسیح کی اس گھڑی، دو درجن غلاموں نے کرہ ارض پر موجود وقت کی سب سے بڑی طاقت روم شاہی کے پہرے داروں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد قلعے کی دیواروں کو پھلانگا۔

سپارٹیکس کی بہادری کے قصے، قلعے کی دیواروں سے باہر باقی غلاموں تک پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ لہذا کھیتوں، کانوں اور دیگر مقامات پر جبری مشقت کرنے والے غلاموں نے جب سپارٹیکس اور اس کے ساتھیوں کو تلواریں لہراتے ہوئے قلعے سے باہر آتے ہوئے دیکھا، تو وہ بھی ان کے ساتھ ہوتے گئے۔ سلطنت روم کی فوج کے ایک دستے نے سپارٹیکس اور اس کے دوستوں پر کھلے میدان میں حملہ کیا۔ لیکن سپارٹیکس نے کامیاب حکمت عملی سے انہیں شکست دے کر ان کے ہتھیار چھین لیے۔ یہ معرکہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد جبری مشقت پر مامور غلاموں کی ہمت بندھی، اور سپارٹیکس جس راستے سے گزرتا۔ غلاموں کے قافلے اس کے ساتھ شامل ہو جاتے۔

یوں سلطنت روم کے خلاف باقاعدہ مسلح مزاحمت شروع ہوئی، جسے سروائل کی تیسری جنگ کہا جاتا ہے۔ سپارٹیکس نے غلاموں کو بغاوت پر اکسایا اور 72 قبل مسیح تک اس نے سلطنت روم کو کئی مسلح حملوں میں شکست دینے کے بعد حکمت عملی کے طور پر جنگ کا دائرہ روم سے دور کے علاقوں میں بڑھانے کو ترجیح دی۔ تا کہ گوریلا جنگ کے ذریعے روم کی فوج کو کمزور کیا جا سکے۔ 72 قبل مسیح تک سپارٹیکس 120000 فوج کا سپہ سالار بن چکا تھا۔ اور اس نے مقابلے کے لیے گال کے علاقے (موجودہ فرانس) کا انتخاب کیا۔ جبکہ اس کے قابل اعتماد دوست اسے روم پر حملہ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ لیکن سپارٹیکس روم کی فوج کے مرکز پر حملہ کرنے سے پہلے اسے کمزور کرنا چاہتا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے قابل اعتماد دوست کرکس نے روم پر حملہ کرنے کو ترجیح دی اور سپارٹیکس کی فوج سے علیحدگی اختیار کرکے 30000 فوج کے ساتھ روم پر حملہ کر دیا۔ کرکس کی فوج کو شکست ہوئی اور وہ خود بھی مارا گیا۔ سپارٹیکس نے دیگر علاقوں سے باغی جمع کرنے شروع کیے اور مضافات میں رومی فوج کو پے در پے شکست دے کر ان کی عسکری طاقت کو کمزور کرتا رہا۔

پھر 71 قبل مسیح میں سلطنت روم نے اپنے سب سے سفاک جنرل مارکس کراسس کو سپارٹیکس کی فوج پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ جس لڑائی میں سپارٹیکس کی فوج کو ایک ٹریپ میں پھنسا کر شکست دی گئی اور اس جنگ میں سپارٹیکس بھی مارا گیا۔ اور یوں غلاموں کی پہلی غیر منظم بغاوت نا کام ہو گئی۔ سپارٹیکس کی باغی فوج کے تقریبا 6000 فوجیوں کو صلیبوں پر لٹکا کر ان کے جسموں میں لوہے کی کیلیں گاڑی گئیں تا کہ انہیں نشان عبرت بنا کر، باقی غلاموں کو سلطنت روم کی طاقت اور دبدبے کا احساس دلایا جائے۔ اور سپارٹیکس کے ماننے والے اس راہ کو ترک کر دیں۔ بہت سارے مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ صلیبوں پر جب نا کام باغیوں کے جسموں میں لوہے کی کیلیں گاڑی گئیں تو ہر ایک سپارٹیکس کو پکار رہا تھا کہ سپارٹیکس تم کدھر ہو۔ ہمیں بتاو کہ ہم نا کام کیوں ہوئے؟

سپارٹیکس کی بغاوت نا کام ہو گئی لیکن اس نے رومن سلطنت کو کمزور کر دیا اور ساتھ ہی صدیوں سے جکڑے غلاموں کو ایک نئی راہ دکھائی کہ منظم ہو کر ہی بادشاہت اور حکمران طبقات کو شکست دی جا سکتی ہے۔ آج بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سپارٹیکس پسے ہوئے مظلوم طبقات کی پہلی مسلح طبقاتی بغاوت کا پیام بر تھا۔ جس نے انسانوں کی خرید و فروخت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جبر کو تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کیا تھا۔ بلکہ طاقتور رومن سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا۔ جو زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی۔ اور تاریخ کے انتقام نے رومن سلطنت کو ماضی کا قصہ بنا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).