سوڈان کے انقلاب کو ہوا دیتے فن پارے، تصاویر میں
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں فوجی ہیڈکوارٹر کے گرد جہاں لوگ عوامی حکومت کی واپسی کے لیے راتیں جاگ کر گزار رہے ہیں وہیں آس پاس کی دیواروں پر نئے نئے نقشِ و نگار یا وال پینٹنگز بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
چھ اپریل کو اس علاقے میں چہار سو سے سوڈانی باشندوں کی بھیڑ امڈ آئی اور اس کے پانچ دن بعد طویل عرصے سے حکومت کرنے والے رہنما عمر عبدالبشیر کو فوج نے برطرف کرکے حراست میں لے لیا۔ وہ 30 سال سے اقتدار میں تھے۔
خرطوم یونیورسٹی کے طالب علم موفق کہتے ہیں کہ جو پینٹنگ وہ دیوار پر بنا رہے ہیں وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ سوڈان کے عوام نے کس طرح خاموشی کی ان زنجیروں کو توڑا جنھوں نے انھیں طویل عرصے سے جکڑے ہوا تھا۔
بہت سے فن پاروں کا پیغام یہ ہے کہ گولیاں اور بم مسئلے کا حل نہیں اور مظاہرین اقتدار کی پرامن منتقلی چاہتے ہیں۔
دھرنے کی جگہ ایئرپورٹ کے احاطے اور بلو نیل کے درمیان ہے اور ان دنوں یہ مقام شہر کا دل بنا ہوا ہے۔ اس علاقے میں یونیورسٹی کا کیمپس بھی ہے۔
ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کے دروازے پر فن کا ایک مجموعہ نظر آتا ہے جس میں فاختہ کی پینٹنگ بنائی گئی ہے جو ابھی تک حاصل شدہ آزادی کی عکاس ہے۔
فی الحال اس سینٹر کے فنکار کینوس کے ایک رول پر کام کر رہے ہیں تاکہ تین کلومیٹر طویل فن کا ایک نمونہ تیار کر سکیں۔ وہ اسے دھرنے کی جگہ پر لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
قریب واقع ایک آرٹ کالج کے طالبعلم مغیرہ کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ پینٹنگ سوڈان اور اس مظاہرے میں شامل افراد کا تنوع ظاہر کرنے کے لیے بنائی ہے۔ سوڈان میں مختلف نسلی گروپ ہیں اور 100 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔
دھرنے کے علاقے میں یونیورسٹی کی ایک دیوار پر مندرجہ بالا نقشِ دیوار میں ایک شخص کو رباب تھامے دیکھا جا سکتا ہے۔ سوڈان کے مختلف گروپ اس آلہِ موسیقی کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ ملک تبدیلی کے لیے متحد ہے۔
مندرجہ بالا فن کے نمونے میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اس انقلاب میں مرد و زن برابر کے شریک ہیں۔
یہاں ایک فنکار کو آلا صلاح کی پینٹنگ پر کام کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ صلاح 22 سالہ طالبہ ہیں جو اس وقت مزاحمت کی علامت بنیں جب ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ صدر بشیر کے خلاف نکلنے والے احتجاجی جلوس میں نعرے بلند کرتے اور جلوس کی قیادت کرتے نظر آئیں۔
دیواروں پر بنائی گئی بہت سی پینٹنگز سنہ 1956 میں سوڈان کی آزادی کے بعد پہلے پرچم کے نیلے، پیلے اور سبز رنگوں کر استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی ہیں۔
سنہ 1970 میں فوجیوں نے پرانے پرچم کو ہٹا کر عالمِ عرب کا حالیہ پرچم اپنایا جس میں سرخ، سفید، سیاہ اور سبز رنگ شامل ہیں۔
مظاہرین میں ہیش ٹیگ Sudaxit# مقبول ہے جو سوڈان کی عرب شناخت کے بجائے افریقی شناخت پر زور دیتا ہے۔ اس دیوار پر لکھی تحریر میں لکھا ہے کہ ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سوڈان عرب لیگ چھوڑ دے۔ ہم سیاہ فام کوشائٹ کے بیٹے ہیں۔‘ یہ قدیم کوشین حکومت کی جانب اشارہ ہے۔
وہ حلائبِ مثلث (سوڈان اور مصر کے درمیان متنازعہ علاقہ) کی واپسی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
مندرجہ بالا پینٹنگ میں ایسی طاقتوں کی جانب اشارہ ہے جو انقلاب کے خلاف ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کا خفیہ ہاتھ، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فوج کی حمایت کر رہے ہیں۔
یہاں اسی فنکار کا ایک اور نقشِ دیوار ہے جس میں انقلاب کا ایک نعرہ لکھا ہے ’شہیدوں کے خون کی قیمت کیا ہے؟‘ صدر بشیر کی برطرفی سے قبل مظاہرین مسلسل یہی نعرہ لگاتے رہے ہیں۔
’آزادی، امن اور انصاف‘ ان نعروں میں سے ایک ہے جو لوگ بغاوت کے دوران لگاتے رہے ہیں۔
تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے والے اس مظاہرے میں بہت سے افراد حصہ لے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ کئی فوجی بھی ان میں شامل ہیں جو خرطوم کی دیواروں پر پینٹ کر رہے ہیں۔
تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).