ایسٹر سنڈے دھماکے: سری لنکا میں موجود شدت پسند گھرانوں کے نیٹ ورک


سینٹ سیبیسٹیئن

Anadolu Agency/Getty Images
سینٹ سیبیسٹیئن چرچ میں دھماکے کے بعد کا منظر

بہت سارے سری لنکن شہریوں کے لیے یہ حیرت کا سبب تھا کہ مسلمان اقلیت کا ایک چھوٹا سا گروہ اتنے منظم انداز میں ایسٹر کے موقع خود کش حملے کرے گا جن میں 250 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ شدت پسندوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اتنے تباہ کن حملوں کی تیاری کرتا رہا لیکن کسی کو خبر نہ ہوئی۔

سری لنکا کو ان حملوں کی تیاری کے اشارے مل چکے تھے۔ سری لنکا کی پولیس کو اتفاقاً ضلع پتالام کے ولپتو نیشنل پارک میں درختوں کے ایک جھنڈ سے اتنا دھماکہ خیز مواد ملا جس سے اس کو الرٹ ہو جانا چاہیے تھے۔ پولیس کو ولپتو پارک سے ایک سوکلو گرام بارود اور سو ڈیٹونیٹر ملے تھے۔

پولیس کو یہ دھماکہ خیز مواد بودھ مت کے مجسموں پر مشتبہ اسلامی شدت پسندوں کے حملوں کی تحقیق کے دوران ملا۔

اس واقعے کے تین ماہ بعد ایسٹر کے موقع پر کولمبو، نیگمبو اور شمالی شہر بٹّی کالؤا میں سلسلے وار خود کش حملے ہوئے جس میں چالیس غیر ملکیوں سمیت 250 افراد مارے گئے۔

ضلع پتالام میں دھماکہ خیز مواد ملنے کا واقعہ اکیلا واقعہ نہیں تھا۔ سکیورٹی فورسز کو اس طرح کے متعدد اشارے مل چکے تھے۔ ایسی اطلاعات آ رہی تھیں کہ سری لنکا سے تعلق رکھنے والے شدت پسند مسلمانوں کا ایک گروہ شام میں دولت اسلامیہ کے ہمراہ لڑائی کے بعد واپس سری لنکا پہنچ چکا ہے، خطرے کی گھنٹیاں بج جانی چاہیے تھیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان دھماکوں سے پہلے پڑوسی ملک بھارت اور امریکہ سے بار بار ممکنہ حملوں کا انتباہ کیا جا رہا تھا۔ ایسٹر کے موقع پر ہونے والے دھماکوں کے بعد پولیس پتالام سے ملنے والے اسلحے اور تباہ کن حملوں کےسرغنہ کا آپس میں تعلق چوڑ پائی ہے۔

خاندانی روابط

ممکنہ خطرے کے اتنے اشارے ملنے کےباوجود اس کو سنجیدگی سے نہ لینے کی وجوہات میں سری لنکا کی حکومت کے اعلیٰ سطحوں پر سیاسی جھگڑے اور گروہ بندیاں ہیں۔ عشروں تک چلنے والی خانہ جنگی کے خاتمے کا اعتماد بھی شاید ایک وجہ بنا۔

خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد اکا دکا مسلمان مخالف فسادات ضرور ہوئے ہیں لیکن کسی نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اس نوعیت کے منظم دھماکے ہو سکتے ہیں۔

سری لنکا کے انسداد دہشتگردی کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ :’مسلمان شدت پسندوں نے نہ صرف اس پیمانے پر تباہی پھیلا کر لوگوں کو حیران کیا بلکہ انھوں نے جس طرح اس آپریشن کو خفیہ رکھا وہ بھی حیران کن ہے۔‘

اس نوعیت کے کامیاب آپریشن کے لیے وسیع منصوبہ بندی، محفوظ مقامات، مہارت، سہولت کاروں کا نیٹ ورک اور بڑی مالی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کیسے ہوا کہ شدت پسند اتنا وسیع آپریشن کسی کی نظر میں آئے بغیر مکمل کر گئے؟

حملہ آور

اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص ایک بڑا بیک پیک پہنے آرام سے سینٹ سیبیسچن چرچ کی جانب بڑھ رہا ہے

ان تمام سوالات میں سے صرف کچھ کے جوابات مل پائے ہیں۔

سکیورٹی ایجنسی اور حکومتی اہلکاروں سے جڑے ہوئے ذرائع اور مقامی مسلمان رہنماؤں کے مطابق تھوڑے سے مقامی شدت پسندوں کا گروہ سالوں تک پولیس کی ناک کے نیچے ایک نیٹ ورک بنانے میں کامیاب ہوا جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ کچھ انتہا پسند خاندان ایک یونٹ کی طرح کام کرتے رہے اور اس طرح وہ اپنے ارادوں اور حرکات کو مخفی رکھنےمیں کامیاب رہے۔

انتہا پسندوں کے خاندانی یونٹ دوسرے انتہا پسند خاندانوں سے ملتے گئے جس سے ایک پورا نیٹ قائم ہوا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ نظریاتی طور پر ہم آہنگ خاندانوں نے ایک دوسرے سے وفاداری نبھائی اور معلومات کو خفیہ رکھا۔ اس کے علاوہ اینکرپٹیڈ سوشل میڈیا نیٹ ورک اور پیغام رسانی کی مختلف ایپس نے بھی حملوں کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔

تفتیش کار اب یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ انتہا پسند لوگ ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کیسے کرتے تھے۔

اپنے مقاصد کے حصول کے لیے خاندانوں کو استعمال کرنا شدت پسندوں کا ایک نیا حربہ ہے۔ ہم نے دیکھا کہ گذشتہ برس انڈونیشیا میں ایک پورے خاندان نے گرجا گھروں اور پولیس کی عمارتوں میں خود کش حملے کیے۔

ایسٹر حملوں کے بعد سری لنکا میں ستر افراد کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن سری لنکا میں کوئی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ شدت پسندوں کے پورے نیٹ ورک کو ختم کر دیا گیا ہے۔

ان حملوں کے لیے بم بنانے والوں سمیت حملوں میں شریک کئی اہم لوگ اب بھی پولیس کی پہنچ سے دور ہیں۔ ایک پولیس اہلکار جو اس تفتیش میں شریک ہے، اس نے حملوں کی ایک نئی لہر کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

دہشتگرد ی کےروایتی طریقے کے مطابق ایک خود کش حملہ آور کو پانچ سہولت کاروں کی مدد چاہیے ہوتی ہے۔ ایسٹر کے موقع پر سری لنکا میں نو خود کش دھماکے ہوئے اور اس طرح پینتالیس سہولت کار اب بھی کہیں موجود ہیں۔

تفتیش کارروں کا یہ نظریہ وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھے کے اس بیانیہ سے مطابق نہیں رکھتا کہ ان دھماکوں سے جڑے ہوئے تمام افراد کو گرفتار یا ہلاک کیا جا چکا ہے۔


سری لنکا حملوں میں ہلاک ہونے والے کچھ افراد

ایسٹر کے موقع پر ہونے والے نو دھماکوں میں کم از کم 253 افراد ہلاک اور پانچ سو سے زیادہ زخمی ہوئے

دہشتگردی کے ان واقعات کے بعد سری لنکا کے مسلمان توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ سری لنکا میں سنہالہ اور تمل کے بعد مسلمان تیسری بڑی آبادی ہیں۔ سری لنکا کی دو کروڑ بیس لاکھ آبادی میں سے دس فیصد مسلمان ہیں۔

سری لنکا میں عشروں تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں تمل ٹائیگرز نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور تقریباً 75 ہزار مسلمانوں کو شمالی علاقوں سے نکال دیا گیا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں 150 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔

بعد میں سینکڑوں مسلمانوں نے جو روانی سے تمل اور سنہالہ زبانیں بول سکتے تھے، سری لنکا کی سیکیورٹی فورسز میں شمولیت اختیار کی۔

جب سری لنکا کی حکومت تمل باغیوں سے لڑنے میں مصروف تھی، تب قدامت پسند مسلمانوں نے خاموشی سے مسلمانوں کے علاقوں میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔


In this file photo taken on April 26, 2019 a Sri Lankan Muslim man attends Friday noon prayers at the Dawatagaha Jumma Masjid mosque in Colombo

AFP
Muslims make up about 10% of Sri Lanka’s population and only small numbers are believed to have become radicalised

کیٹنکڈی کی مساجد کی فیڈریشن کے اہلکار مازوک احمد لبی بتاتے ہیں کہ انتہا پسندی کا یہ سلسلہ تین عشرے پہلے شروع ہوا جب کچھ نوجوان وہابی مکتبہ فکر کی طرف راغب ہوئے اور انھیں بیرون ملک سے مالی امداد بھی ملتی تھی۔

کیٹنکڈی کا ساحلی قصبہ کی تقریباً 47 ہزار آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ اس قصبے میں تقریباً ساٹھ مساجد ہیں جن کی اکثریت میں معتدل اسلام کے تبلیغ کرتے ہیں لیکن کچھ مساجد شدت پسند نظریات کا پرچار بھی کیا جاتا ہے۔

اس قصبے میں عبایہ بھی کھلے عام بکتے ہیں۔


In this picture taken on April 25, 2019, Sri Lankan Muslim girls walk along a road in Kattankudy

حملہ آوروں کے سرغنہ ظہران ہاشم کا تعلق کٹنکڈی قصبے سے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بستی ہے

محمد ظہران ہاشم کا تعلق بھی کیٹنکڈی سے تھا جس نے شنگریلا ہوٹل میں خود کش دھماکہ کیا۔ ظہران ہاشم کے والد نے انھیں مذہبی تعلیم کے لیے ایک مذہبی سکول بھیجا۔ لیکن جلد ظہران ہاشم نے اپنے استادوں سے ایسے سوالات کرنے شروع کر دیئے کہ وہ صحیح اسلام کی پیروی نہیں کر رہے۔ ظہران کو مدرسے سے نکال دیا گیا لیکن اس نے اپنے طور پر مذہبی تعلیم جاری رکھی اور پھر اس کی تبلیغ کرنے لگے۔

مازوک احمد لبی بتاتے ہیں کہ ہم ان کے خیالات سے متفق نہیں تھے لہذا ہم انھیں اپنی مساجد میں تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ پھر اس نے اپنا ایک گروپ بنا لیا۔

ظہران ہاشم نے پہلے اپنے گروپ کا نام دارلاطہر رکھا جسے 2014 میں نیشنل توحید جماعت میں تبدیل کر دیا۔ سری لنکا کی حکومت نے اسی گروپ پر دہشتگرد حملے کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔.


Zahran Hashim

ظہران ہاشم کو حملہ آوروں کا سرغنہ تصور کیا جاتا ہے

نیشنل توحید جماعت کے ممبران ماضی میں بودھ مت کے مجسموں کی توڑ پھوڑ کے علاوہ مسلمان گروہوں سے جھگڑوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔ لیکن کیا وہ اس پیمانے پر تباہی پھیلانے کے اہل ہیں کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔

نیشنل توحید جماعت کو اپنے ابتدائی سالوں میں مشرق وسطیٰ کے علاوہ انڈیا اور انڈونیشیا سے عطیات ملتے رہے ہیں۔ ان عطیات سے انھوں نے کیٹنکڈی میں ایک علیحدہ مسجد تعمیر کی جسے اب بند کر دیا گیا ہے۔.


The NTJ mosque Zahran Hashim founded in Kattankudy

نیشنل توحید جماعت نے بیرونی ممالک سے ملنے والے امداد سے کٹنکڈی میں یہ مسجد تعمیر کی جہاں انتہا پسند نظریات کا پرچار کیا جاتا تھا

ظپران ہاشم وہابی نظریہ سے متاثر تھے۔ کیٹنکڈی میں دوسرے مسلمان گروہوں کا خیال ہے کہ وہ وہابی نظریہ سے آگے چلے گئے اور انھوں نے شدت نظریات کو اپنا لیا۔ نیشنل توحید جماعت نے کیٹنکڈی کی صوفی مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی ۔

2017 نیشنل توحید جماعت کے ممبران نے صوفی مسلمانوں کے ساتھ جھگڑے میں تلواریں اٹھا رکھی تھیں۔

پولیس نے ظہران ہاشم کے بھائی اور والد سمیت دس افراد کو گرفتار کیا۔ لیکن ہاشم اور اس کے ایک اور بھائی رضوان روپوش ہو گئے۔ ملک بھر میں تنقید کے بعد نیشنل توحید جماعت نے ظہران ہاشم کو جماعت سے نکالنے کا اعلان کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ اس اعلان کے باوجود ظہران ہاشم کا جماعت میں اثر و رسوخ برقرار رہا۔

اپنی روپوشی کے دوران ظہران ہاشم نے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز ویڈیو جاری کرنی شروع کیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ظہران ہاشم نے اپنے تمام خاندان اپنا ہم خیال بنا لیا ہے اور ان کو تشدد کی راہ پر چلنے پر آمادہ کیا۔

سری لنکا دھماکے

کئی لوگ اب بھی یہ پوچھ رہے ہیں کہ دولت اسلامیہ نے سری لنکا جیسے ملک کو، جہاں مسلمان اقلیت میں ہو، کو کیوں نشانہ بنایا

موزوک احمد لبی بتاتے ہیں کہ وہ عام سا مسلمان گھرانہ تھا۔ ظہران ہاشم کے والد کا غریب خاندان سے تعلق تھا۔ ’ہاشم کے ایک اچھا مبلغ تھا، اور قرآن کو اچھا سمجھتا تھا۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اس کا خاندان یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔‘

ظہران ہاشم کے ایک رشتہ نے کہا: ’میں ایسٹر کے حملوں سےایک ہفتے پہلا ظہران ہاشم کے باپ اور اس کے ایک بھائی سے ملا۔ دونوں بلکل نارمل تھے۔ یہ ہمارے لیے ایک معمہ ہے کہ وہ کس طرح اتنے انتہا پسند ہو گئے۔‘

خیال کیا جاتا ہے کہ ظہران ہاشم کےوالدین، اس کے دو بھائیوں اور ان کےخاندان نے دھماکوں کے بعد جب پولیس نے ان کا گھیرؤا تو انھوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

پولیس کو ملبے سےایسے سفید ملبوسات بھی ملے ہیں جو عام طور پر بودھ مت خواتین مندروں میں عبادت کے لیے پہنتی ہیں۔

پولیس کو شبہ ہے کہ شدت پسند ویساکھ کے موقع پر بودھ مندروں میں گھس کر کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ نو ایسے ملبوسات خریدے گئے تھے جن میں پانچ انھیں ملبے سے مل گئے ہیں۔ ظہران ہاشم کی بیوی اور بیٹی زخمی ہوئی ہیں لیکن وہ زندہ ہیں۔


Children's schoolbooks were found amid the wreckage in Sainthamaruthu

پولیس کو ملبے سے سکول کی کتابیں ملی تھیں

ظہران ہاشم کی بہن محمد ہاشم مدانیا نے ایسٹر دھماکوں کے بعد بی بی سی کو تبایا تھا کہ وہ اپنے بھائی کے اقدام کی سختی سےمذمت کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کا بھائی سے دو سال سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ جس طرح مدانیا نے اپنے خاندان کے ساتھ اپنے روابط کا ذکرکیا ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ شاید اپنے خاندان کے ان چند افراد میں سے ایک ہوں جو انتہاپسند نظریات کے نیٹ ورک کا حصہ نہیں ہیں۔

ایک ہفتہ بعد پولیس نے مدانیا کو گرفتار کیا اور کہا کہ انھوں نے ان کے گھر پر چھاپے کےدوران ان کے قبضے سے 20 لاکھ سری لنکن روپے (12000 ہزار برطانوی پونڈ) برآمد ہوئے۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مدانیا نے یہ رقم دھماکوں سے چند روز قبل کولمبو میں اپنے بھائی سےوصول کی تھی۔ مدانیا اب بھی پولیس کی حراست میں ہے۔

انتہاپسندی کیوں؟

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 2018 میں کینڈی ضلع میں ہونے والے مسلمان مخالف فسادات نے شاید کچھ لوگوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیا ہو۔

ان فسادات میں ایک مسجد کو جلا دیا گیا تھا اورمشتعل ہجوم نے سینکڑوں گھروں اور دوکانوں کو جلا دیا گیا تھا۔ ان فسادات میں دو افراد مارے بھی گئے تھے۔ اس وقت مقامی مسلمانوں نے مجھے بتایا تھا کہ حکومت نے ان کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے تھے۔

لیکن حکام کا کہنا ہے کہ 2018 کے فسادات سے پہلے ہی مسلمان نوجوانوں کی ایک چھوٹی سی تعداد بغداد میں دولت اسلامیہ کی جانب سے خلافت کے اعلان کے وقت انتہا پسندانہ نظریات کو اپنا چکی تھی۔


March 6, 2018,

2018 میں کینڈی میں مسلمان مخالف فسادات میں ایک مسجد کو جلا دیا گیا تھا اور سیکڑوں گھروں اور دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا

محمد محسن نیلام پہلے سری لنکن شہری تھے جنہوں نے شام میں دولت اسلامیہ کو جوائن کیا۔ محمد محسن 2015 میں رقہ میں مارے گئے۔

سری لنکن سیکیورٹی فورسز کے ایک اہلکار کےمطابق خیال کیا جاتا ہے کہ محمد محسن نے ایسٹر کے موقع پر دھماکے کرنے والے کچھ خود کش حملہ آوروں کو انتہا پسندی کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ خودکش بمباروں میں سے کوئی شام گیا تھا یا نہیں۔ تفتیش کارروں کے مطابق عبدالطیف محمد جمیل نے 2014 میں شام میں دولت اسلامیہ کو جوائن کرنے کے لیے ترکی تک کا سفر کیا تھا لیکن وہ وہاں سے واپس آ گئے۔

جمیل کا تعلق چائے کی تجارت کرنے والے ایک امیر خاندان سے تھا۔ انھوں نے جب شام جانے کی کوشش کی اس سے پہلے وہ برطانیہ اور آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کر چکے تھے۔

محمد جمیل کو لگژری تاج سمندرہ ہوٹل میں خودکش دھماکہ کرنا تھا لیکن شاید ان کا بم چل نہیں سکا اور وہ وہاں سے چلے گئے ۔ جمیل نے بعد میں دھوالا میں ایک موٹل میں خود کش دھماکہ کیا جس سے دو افراد ہلاک ہوئے۔


محمد جمیل لطیف

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تصویر برطانیہ اور آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کرنے والے عبد الطیف محمد کی ہے جنہوں نے ایک موٹل میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا

تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ چار بچوں کے والد 37 سالہ جمیل دراصل دولت اسلامیہ اور مقامی شدت کے مابین رابطے کا ذریعہ تھے۔ چند برس پہلے ان کے خاندان نے ان کے انتہا پسندانہ خیالات سے پریشان ہو کر سکیورٹی اہلکار سے رابطہ کیا تھا۔

سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ’وہ مکمل طور انتہاپسندانہ نظریات کو اپنا چکا تھا۔ میں نے اس سے بات چیت کی ۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے یہ نظریات کہاں سے اپنائے ہیں تو اس نے بتایا کہ اس نے برطانوی مبلغ انجم چوہدری کے خطبوں میں شرکت کی ہے۔ اس نے کہا اس دوران اس کی انجم چوہدری سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔‘

انجم چوہدری کو برطانیہ کا سب سے خطرناک انتہا پسند مبلغ تصور کیا جاتا ہے۔ انجم چوہدری کو 2016 میں سزا سنائی گئی لیکن دو سال بعد وہ جیل سے رہا ہو چکے ہیں۔

جمیل کے دوست بتاتے ہیں کہ عراق پر امریکہ کے حملے نے اس کو انتہا پسندانہ نظریات کی طرف دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ تفتیش کار سمجھتے ہیں کہ جب جمیل آسٹریلیا گئے تو ان کے انتہا پسندانہ نظریات میں شدت آ گئی ۔ جب وہ 2009 میں واپس سری لنکا آئے تو ان کی نگرانی شروع کی گئی ۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے عرصےتک ان کی نگرانی کی گئی۔

مصالحہ جات کے تاجر

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ظہران ہاشم کا کولمبو کے ایک مصالحہ جات کے تاجر کے بیٹوں سے کیسے رابطہ ہوا۔ انصاف احمد ابراہیم اور الہام ابراہیم ایسٹر حملوں میں ملوث تھے۔

مسلمان برادری کے ایک مقامی رہنما نے مجھے بتایا کہ ظہران ہاشم نے وسطی قصبے کرونگالا کی ایک عورت سے شادی کی۔ الہام ابراہیم جس نے ظہران ہاشم کے ہمراہ شنگریلہ ہوٹل میں خود کش حملہ کیا، بھی اسے علاقے میں اپنے مصالحوں کے ایک فارم سے اپنے خاندانی کاروبار چلاتے تھے۔ الہام ابراہیم جہاں رہائش پذیر تھے وہ کرونگالا قصبے سے صرف پچاس کلو میٹر دور ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ظہران ہاشم اور الہام ابراہیم کا اسی علاقے میں رابطہ ہوا تھا۔

دھماکوں کے چند گھنٹوں بعد پولیس نے الہام ابراہیم کے کولمبو کے قریب ڈیماٹاگوڈا میں گھر پر چھاپہ مارا جہاں الہام ابراہیم کی بیوی نےخود کش جیکٹ پہن کر دھماکہ کیا جس میں وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ ہلاک ہو گئیں۔ اس دھماکے میں تین سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے۔



حکام کو یقین ہے کہ نو خود کش دھماکے کرنے کے لیے بہت منصوبہ بندی اور مالی معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔

پولیس نے دھماکوں کے ایک ہفتے بعد دو اور مشتبہ افراد، محمد عبد الحق اور محمد شہید عبدالحق کو موانیلہ سے گرفتار کیا ہے۔ تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ وہ الہام ابراہیم سے رابطے میں تھے۔

پولیس نے محمد عبدالحق اور محمد شہید عبد الحق کی پتالام میں ایک محفوظ پناہ گاہ تلاش کی ہے۔

تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ محفوظ پناہ گاہ کو خریدنےکے لیے ایڈونس رقم ابراہیم بھائیوں نے دی تھی۔

خود کش حملہ آوروں الہام ابراہیم اور انصاف احمد ابراہیم کے والد ابراہیم احمد پولیس کی حراست میں ہیں۔ وہ کولمبو کے کاروباری حلقوں کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں اور ایک بار وہ پارلیمنٹ کی نشت کے لیے الیکشن میں بھی حصہ لے چکے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ پولیس نے ابھی ان پر فرد جرم عائد نہیں کی ہے۔

تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ جمیل نے ابراہیم بھائیوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کیا۔ دونوں خاندان ایک دوسرے کو جانتے تھے۔

سیاسی دھڑے بازیاں

جہاں تباہ کن خود کش حملوں نے سری لنکا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہیں لوگ دھماکوں کے بعد ہونے والی سیاسی لڑائیوں سے بھی تنگ آ چکے ہیں۔

صدر متھری پالا سری سینا اور وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھے دو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔

دونوں رہنماؤں کی طرف سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں حکومتی سطح پر رابطوں کا شدید فقدان ہے۔


Maithripala Sirisena and Ranil Wickremesinghe

سری لنکا کے صدر اور وزیر اعظم کے مابین جھگڑوں نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے

سری لنکا کے صدر سکیورٹی فورسز کی نگرانی کرتے ہیں۔ دھماکوں کے فوراً بعد وزیر اعظم رانیل وکرم سنگھے نے کہا کہ انڈین انٹیلجنس کی طرف سے دی جانے والی وارننگ کا انھیں نہیں بتایا گیا۔

اسی طرح متھری پالا نے کہا کہ انٹیلجنس اداروں کے اعلی اہلکاروں نے ان کو بھی یہ اطلاعات مہیا نہیں کی تھیں۔

انسانی حقوق کی کارکن بھوانی فونسیکا نے کہا ہے کہ صدر اور وزیر اعظم کے مابین جھگڑوں نے ملک کو متاثر کیا ہے۔

دونوں رہنماؤں کے جھگڑوں کی وجہ سے تمام ادارے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک موقع پر سری لنکا کی پولیس کو ایک امریکی خاتون کو مشتبہ بیان کرنے پر معافی مانگنی پڑی۔.

بی بی سی نے جتنے بھی حکومتی اہلکاروں سے بات کی ہے وہ تمام تسلیم کرتے ہیں کہ سری لنکا میں اب بھی سلیپر گروپ موجود ہوں گے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ سری لنکا کو کیوں نشانہ بنا رہا ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔

اعلی حکومتی اہلکار سمجھتے ہیں کہ شدت پسند گروپ جو عراق اور شام میں تباہ ہو چکا ہے وہ سری لنکا کو اپنی خلافت کا حصہ سمجھتے ہیں۔

صدر سری سینا نے بی بی سی کے ساتھ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا شدت پسندوں نے اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے سری لنکا کو نشانہ بنایا جہاں تھوڑا عرصہ پہلے ہی امن قائم ہو ا ہے۔

سری لنکا نے عشروں تک پرتشدد واقعات کا سامنا کیا ہے لیکن اس بار اسے جس قوت سے سامنا ہے وہ نظر بھی آتی ہے اور شاید عالمی دہشتگردی کے نیٹ ورک کا حصہ ہے۔ سری لنکا کی سیاست اگر اسی طرح بٹی رہے تو اس نئی جنگ کا جلدی خاتمہ نظر نہیں آتا۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp