اسما نے سات ہزار کے لیے ذلت کیوں سہی؟


کل ملتان میں سکول ٹیچر کے ساتھ ہونے والے واقعے پہ سارا دن پوسٹس لگتی رہیں۔ زیادہ تر نے سکول انتظامیہ کی بے حسی پہ تنقید کی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ چند احباب کی پوسٹس نظر سے گزریں کہ سات ہزار مہینہ پہ نوکری کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ابھی تو صرف اٹھارہ کی تھی۔ اس کا اپنا نالج کیا ہو گا۔ وہ بچوں کو کیا سکھاتی ہو گی۔ کوئی اور کام کر لیتی۔ اور بہت کچھ۔

میں یہ سب پڑھ کے حیران بھی ہوئی اور مجھے دکھ بھی ہوا ایسے لوگوں کی بے حسی پہ۔ کیا ان کی بے حسی بھی سکول انتظامیہ جیسی نہیں، جنہوں نے بچی کو تڑپتے دیکھا لیکن اپنی گاڑی نہیں دی۔ لیکن بعد مرنے کے اسی گاڑی پہ لد کے اس بچی کے قصبے میں افسوس کے لیے پہنچ گئے۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے لیکن یہی حقیقت ہے کہ ہم لوگوں کو بھی آواز اٹھانے، بولنے کے لیے لاشوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم اپنے ارد گرد ہوتی نا انصافیوں کو دیکھتے رہتے ہیں لیکن بولتے تب ہیں جب تک کوئی مر نہ جائے۔

”صرف سات ہزار کے لیے نوکری کیوں کی یا سات ہزار کے لیے بے عزتی برداشت کیوں کی“۔ معاف کیجئیے گا سات ہزار ہو سکتا ہے آپ کے لیے سات روپے ہوں مگر اس بچی کے لیے شاید سات لاکھ کے برابر ہوں۔ اٹھارہ سال میں اپنی پڑھائی مکمل کیے بنا گھر سے نوکری کے لیے نکل جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ بچی بہت حساس تھی۔ وہ اپنی اور اپنے ساتھ جڑی زندگیوں کو بدلنے کے خواب رکھتی ہو گی۔ سات ہزار تو پھر بھی کچھ معنی رکھتے ہیں میں بتاتی ہوں کہ پانچ سو کے لیے بھی نوکریاں کی جاتی ہیں۔

کچھ سال پیچھے چلتے ہیں۔ نویں کے پیپر دے کے فارغ ہوئی تو امی سے کہا کہ ماموں کے پاس گاؤں چلتے ہیں۔ عمر ابھی پندرہویں میں لگی تھی۔ گاؤں چلے گئے تو ایک دن بازار سے واپسی پہ ایک سکول کے باہر نوٹس لکھا دیکھا کہ ٹیچر کی ضرورت ہے۔ میرے ساتھ ممانی اور ان کی بہن تھیں میں نے کہا چلیں پتہ کرتے ہیں۔ ہم اندر گئے تو پرنسپل بیٹھے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میٹرک یا ایف اے پاس ٹیچر چاہیے۔ میں نے بتایا کہ میٹرک تو ابھی ہوا نہیں لیکن آپ ایک دن کے لیے مجھے پڑھانے کا موقع دیں۔ آپ کو پسند آئے گا۔ خیر قصہ مختصر مجھے اگلے دن آنے کا کہہ دیا گیا۔

مجھے کلاس سوئم کو پڑھانے کے لیے کہا گیا۔ کلاس کو پڑھایا بھی اچھے سے اور مینج بھی کیا۔ نہ میں نے تنخواہ پوچھی نہ انہوں نے بتائی۔ میں نے لاہور میں اپنے سکول کے طریقے کو فالو کیا۔ رجسٹرڈ پہ کور چڑھائے۔ لائنز لگائیں۔ بچوں کو چھٹی سے پہلے نظمیں یا کہانیاں سنانے کی عادت ڈالی۔ املا پہ توجہ دی۔ غرض کہ میں بچوں کی فیورٹ ٹیچر بن گئی۔ مہینے بعد سب کو تنخواہوں کے لفافے دیے گئے۔

مجھے بھی ملا۔ گھر جیسے پہنچی میں ہی جانتی ہوں۔ گھر جا کے کھولا تو اندر سے پانچ سو روپے نکلے۔ وہ میرے لیے پانچ لاکھ کے برابر تھے کیونکہ میں نے اپنی محنت سے کمائے تھے۔ وہ پیسے میں نے ممانی کے ہاتھ پہ رکھے کہ آپ رکھیں میں اور بھائی یہاں رہتے ہیں۔ آپ کا حق ہے۔ انہوں نے واپس کیے لیکن میں نے شام کو یوٹیلیٹی سٹور سے گھر کا کافی سامان خرید لیا۔ اس کے پیچھے جو سوچ تھی وہ یہی تھی کہ ہم کسی کو بوجھ نہ لگیں۔ میں کماتی ہوں گی تو ہماری عزت ہو گی۔ مجھے کسی سے پیسے مانگنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کے پیچھے یہی سوچ تھی کہ خود کماؤ۔ اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو۔

کچھ عرصے بعد پرنسپل کے ایک بھانجے کا وہاں آنا ہوا۔ مجھ سے سال چھوٹا تھا۔ اس کی مجھ سے دوستی ہو گئی۔ اب اس کی روٹین ہو گئی کہ وہ اکثر ہی سکول آ جاتا اور چھٹی کے بعد میرے ساتھ گپیں مارتا رہتا۔ مجھے علم نہ تھا کہ اس کی نیت کیا ہے۔ ایک دن اس نے کہا کہ صبح سات بجے سکول پہنچنا ہے ماموں نے کہا ہے کہ ٹیچرز کی میٹنگ ہے۔ میں نے کہا کہ سر نے مجھے تو نہیں کہا تو کہتا انہوں نے جلدی جانا تھا وہ چلے گئے ہیں۔ میں اگلے دن سات بجے پہنچی تو سکول میں سوائے چوکیدار کے کوئی نہ تھا۔

آیا بھی نہیں پہنچی تھیں۔ میں آفس گئی تو اس نے ایک دم سے دروازہ بند کر کے کہا بیٹھو بات کرنی ہے۔ میں نے غصے سے کہا کہ یہ کیا بدتمیزی ہے بات دروازہ کھول کے بھی ہو سکتی ہے۔ اس نے ایک گفٹ پیک میرے سامنے رکھا اور کہا کہ یہ تمہارے لیے ہے۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور شادی کرنی ہے۔ تم نہیں مانو گی تب بھی تم سے ہی کرنی ہے۔ میرے انکار پہ اس نے مجھے کافی کچھ کہا۔ میں بہت ڈرپوک سی لڑکی تھی۔ کانپنے لگ گئی تو اس نے کہا کہ جاؤ کلاس میں۔ اور اگر کسی کو بتایا تو میں کہہ دوں گا کہ تم نے مجھے اکیلے بلایا صبح اور مجھے ہراس کیا۔ سب میری بات سنیں گے کیونکہ میں سر کا بھانجا ہوں اور میرا باپ وکیل ہے۔

اس دن سر سکول نہیں آئے۔ گھر جاتے ہوئے اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ وہ میرا پیچھا کرتا ہے۔ گھر جاتے ہوئے گفٹ کو میں نے نالی میں پھینک دیا۔ گھر جا کے امی کو روتے ہوئے بتایا تو امی نے کہا کہ میں نے تو پہلے ہی منع کیا ہے تمہیں کہ نوکری مت کرو۔ کوئی ضرورت نہیں کل سے جانے کی۔ میں نے واپس چلی جانا ہے کل کو کوئی مسئلہ بنے گا فائدہ نہیں۔ اب یہاں سوال وہی بنتا ہے کہ والدین بچوں کو اعتماد نہیں دیتے گھر بٹھا لیتے ہیں۔

کچھ دن سکول نہیں گئی تو سر نے پیغام بجھوایا۔ میں نے ہمت کر کے سر کو بتا دیا تو سر نے کہا کہ میں باجی سے بات کروں گا۔ تم آیا کرو اب وہ آئے گا بھی تو تم تک نہیں پہنچے گا۔ میں آج بھی ان کی شکر گزار ہوں کہ ایسا ہی ہوا۔ یہ الگ بات کہ اس لڑکے نے گھر والوں کو بہت تنگ کیا۔ لیکن سر نے جو کہا تھا وہ کر کے دکھایا۔

یہاں بھی ایک قصبے کا ہی پرنسپل ہے۔ لیکن اس کی سوچ پروگریسو تھی تو اس نے معاملے کو سمجھ کے سلجھا بھی لیا۔ میں ساتھ ٹیوشنز پڑھانے لگ گئی تھی۔ تو تنخواہ کے برابر مجھے دو بچے فیس دیتے تھے۔ کچھ بچوں کو فری بھی پڑھایا۔ بھائی کے تمام معاملات میں دیکھتی تھی۔ کیونکہ وہ چھوٹا تھا۔ اس عمر میں اگر میں اتنا کچھ سوچ سکتی تھی تو آج کے دور کی اسما کیوں نہ سوچتی ہو گی۔

اسماء کے معاملے میں تمام تر ذمہ داری سکول انتظامیہ کی بنتی ہے۔ جنہوں نے ایک طرف تو اس بچی کی مجبوریوں کا سودا سات ہزار میں کیا۔ پھر اس کی عزت نفس کو کچلا۔ ہو سکتا تھا آج سے دس سال بعد وہ آج کی ڈری سہمی اسما نہ رہتی۔ لیکن اپنی حساسیت کے ساتھ وہ منوں مٹی تلے سو گئی۔

والدین بچے تو پیدا کر لیتے ہیں لیکن ان کو وہ اعتماد بہت کم والدین دیتے ہیں جن کی بدولت معاشرے میں زندہ رہا جاتا ہے۔ بچیاں حساس ہوتی ہیں۔ معاملات کو زیادہ گہرائی سے محسوس کرتی ہیں۔ اس لیے اس طرح کے کام کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ جن سے گھر کے حالات بدل سکیں۔ یا وہ والدین کے ساتھ مددگار ہو سکیں۔ اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ایک ہنر ضرور سکھائیں۔ کیونکہ ہنر کبھی ضائع نہیں جاتا۔ بچوں کو اعتماد دیں۔

اور وقت سے پہلے ان پہ ذمہ داریوں کا بوجھ مت ڈالیں۔ سب مل جل کے معاملات کا حل نکالنے کی کوشش کریں تو بہتری ممکن ہو سکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ جو لوگ اس بات پہ تنقید کر رہے ہیں کہ اسما نے سات ہزار کے لیے ذلت کیوں سہی۔ ان کو اپنے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ بے حسی بھی ایک بیماری ہے، اس کا علاج کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).