روایت کو ترک کرنے والی خواتین کی نفسیاتی الجھنیں


محترم خالد سہیل

السلام علیکم

گو کہ اب خط کتابت کا رواج تقریباً ختم ہوتا جا رہا ہے اور ای میل، ٹیکسٹ میسیجز یا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرنے کا فیشن زور پکڑ چکا ہے، پھر بھی خط لکھ کر اپنے دل کی بات کہنے میں جو ایک خاص قسم کی تسکین ملتی ہے، وہ بھاگتے دوڑتے ای میل لکھنے یا اِموجی بھیج کر اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں کہاں۔ اسی لئے اس ٹیکنالوجی ایڈوانس ایج میں بھی اکثر ایسے موقعوں پر جہاں جذبات کا اظہار ملاقات یا فون پر کرنا مشکل لگے، میں خط لکھ کر کرتی ہوں۔

آج اس خط کو لکھنے کا ایک اہم مقصد تو میرے تخلیقی کاموں میں آپ کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے لئے تہہ دل سے آپ کا شکر گزار ہونا ہے، اور دوسری طرف ایک ماہر نفسیات دوست کی حیثیت سے آپ سے بات کر کے اپنے آپ کو پہچاننا اور آنے والے وقتوں کے لئے کچھ اہم فیصلے کرنا ہیں۔

یوں تو اب میری زندگی اُس منزل پر پہنچ چکی ہے، کہ جہاں راوی بہت سارے مقامات پر چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ اس صورت حال پر عموما لوگ صرف صبح شام شکرانے کے دو نفل پڑھ کر مطمئن رہتے ہیں۔ مگر میرے لئے مطمئن اور خوش رہنے کا راستہ، نت نئے ہنر سیکھ کر زندگی کے نئے نویلے پن کوبرقرار رکھنے کی کوشش میں چھپا ہے۔

پچھلے دس سالوں میں میری شخصیت میں خاصے بڑے بڑے انقلاب آئے ہیں اور ارد گرد سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ تبدیلی کا یہ سفرمیری کینیڈا میں ہجرت کے بعد سن 2009 میں اُس وقت شروع ہوا، جب میں نے پاکستانی عورت کے لئے متعین کیے گئے روایتی کردار ”صرف گھر گر ہستی سنبھالنے“ کو خیر آباد کہہ کر فیصلہ کیا کہ میں اپنی تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت کو بڑھانے کے لئے کینیڈا میں اعلی تعلیم حاصل کروں اور ملازمت کر کے اپنی صلاحیتوں کواستمال میں لاؤں۔

میری اس کاوش سے روایت شکنی کی ابتدا ہوئی اور بس پھر لگاتار بت ٹوٹتے ہی چلے گئے۔ بات جب ذاتی صلاحیتوں کو بڑھانے کی چل نکلی تو بہت جلد اندازہ ہو گیا کہ جو تصور اچھی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کا بچپن سے میرے ذہن میں بٹھایا گیا ہے، وہ سراسر غلط ہے۔

مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارا معاشرہ لڑکیوں کو بچپن سے صرف اُن عورتوں کے رول ماڈل دکھاتا ہے جو دوسروں کی خوشی کو اپنی خوشی سے زیادہ مقدم رکھتیں ہیں اور اپنی ذات پر وقت اور توانائی خرچ کرنے کے بجائے اپنے خاندان والوں کی خدمت میں عزت پاتی ہیں۔

ہمارے یہاں عورت کا تصور وفا کی پتلی اور قربانی کا پیکر ہے۔ اور اس تصور میں اپنے آپ کو پسند کرنا اور اپنی خواہشات کا احترام کرنا یا ترجیح دینا کہیں شامل نہیں ہے۔ اس کے برعکس میرا ذاتی تجربہ بتائے گئے رول ماڈل سے بالکل مختلف رہا ہے۔ میں نے دیکھا کہ میری روایت شکنی نے میرے گھر کے افراد کو بھی میری طرح خود مختار اور بہت ساری غیر روایتی صلاحیتوں کا مالک بنا دیا۔

مثال کے طور پر میرا اپنی دلچسپیوں پر وقت صرف کرنے نے میرے شوہر کو گھر کے کاموں میں دلچسپی لینے اور ذمہ داری کو برابر کی بنیاد پر پورا کرنے کی ترغیب دی۔ بچے کا اپنی ذاتی ضروریات اور اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کو خود کرنے کی کوشش کرنا بھی اسی کی ایک کڑی تھا۔ گھریلو ذمہ داریوں کو مل بانٹ کر کرنے سے نہ صرف رشتوں میں عزت اور محبت بڑھی بلکہ ذمہ داریوں کا بوجھ بھی کم ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا ایسا لگا کہ زندگی کی گاڑی میں چوتھا گیر لگ گیا۔ اپنی ذاتی صلاحیتوں کو بڑھانے کا سلسلہ ایسے چل نکلا کہ ہر وہ چیز سیکھنے کا دل چاہنے لگا جس پر کبھی یہ کہہ کر پابندی عائد کر دی گئی تھی کہ لڑکیوں کے بلاوجہ گھر سے باہر نکلنے کا کیا ذکر ہے۔

سوئمنگ، کلاسیکل میوزک، اسکیٹنگ، شاعری اور بہت کچھ۔ جس نے زندگی کو ہر طریقے سے بھرپور بنانے کا احساس میری روح کے کونے کونے میں بھر دیا ہے۔ مگر کچھ دنوں پہلے ایک قریبی دوست کے کہے گئے الفاظ کہ ”شاید تمھاری دوستی اپنی ذات سے کم ہے، اس لیے تم کو ہمیشہ نت نئے ہنر سیکھ کر اپنے آپ کو مطمئن کرنا پڑتا ہے۔ یا پھر اتنا زیادہ مصروف رہنا، اپنے اندر کی بے سکونی کو مصروف رہ کر خاموش کرانے کی کوشش کرنا ہے۔“

اورمیں سوچ میں پڑ گئی کیا واقعی اُس دوست کی بات میں کوئی سچائی ہے؟ کیا واقعی میرا ہر دم نئی نئی دلچسپیوں میں حصہ لینا اپنی ذات سے بھاگنے اور خوب سے خوب تر کی تلاش ہے؟ اس کی وجہ کیا واقعی اپنی ذات کو بہتر بنانے کی کوشش ہے یا پھر دوسروں سے بہتر اور منفرد نظر آنے کی کاوش ہے؟ زندگی میں جو پالیا ہے اُس سے مطمئن رہنا سیکھنے کے بجائے ہر دم چیزوں کو بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے رہنا کس حد تک صحیح ہے؟ حتی کے پرانے رشتوں میں بھی نئے کنکشن ڈھونڈ کر رشتوں کی اپ گریڈنگ کرنا۔ اور تو اور پرانے دوستوں سے کنکشن جوڑے رکھنے پر محنت کرنا تا کہ رشتے پہلے سے بھی مضبوط ہو جائیں، مگرساتھ ساتھ نئے لوگوں سے ملنا اور دوست بناتے رہنا۔ کیا یہ اپنے اندر کی تنہائی سے خوف کھا کر بھاگنا ہے؟

ہر دم کچھ نیا سیکھنا اور اور اپنی ذات کو ہمیشہ چیلنج کرنا کہ کچھ نیا سیکھ کر دکھاؤ تو جانیں۔ مثال کے طور پر اگر ملازمت کی بات کریں تو اسکول بورڈ میں میری ملازمت کو تقریباً دس سال ہونے کو آئے۔ یہ ملازمت ہمیشہ میرے لئے کام کم اور جنون زیادہ رہی ہے۔ دس سال کے طویل عرصے میں نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے بہت سارے معذور بچوں کو نئی صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے۔ حتی کہ جہاں جہاں سسٹم کو موثر نہ پایا، وہاں وہاں اپنی جاب ڈِس کرپشن کی حد کو پھلانگ کر، بلا معاوضہ راستے بنائے اور انتظامیہ سے کوئی تمغا پائے بغیر بس بچوں کی گروتھ اور اُن کے والدین کے چہرے کی خوشی دیکھ کر اپنا قد اونچا کر لیا۔

بقول افتخار عارف

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

مگراب بہت دنوں سے کام میں بھی کچھ خاص دل نہیں لگ رہا ہے اور اپنی صلاحیتوں کے ضائع ہونے کا احساس بہت شدت سے ہو رہا ہے۔ اس سب کے پیچھے کیا ہے؟ میرے اندر کی خود اعتمادی یا احساس کمتری؟
خود اعتمادی کہ سخت محنت سے جو چاہوں پا سکتی ہوں یا پھر احساس کمتری کہہ دینا، مجھے عقلمند، اور کامیاب سمجھے؟

ذہن ایسی شش و پنج میں مبتلا ہے کہ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بڑھانے کی خواہش، جس کو میں مبثت سوچ اور آگے بڑھنے کا نام دے رہی ہوں، کہیں احساس کمتری میں ڈوبا ہوا کوئی جذبہ تو نہیں ہے؟

اگر تھوڑا پیچھے مڑ کر دیکھوں تو لگتا کہ پاکستانی عورت کے لئے مقرر کردہ کردار (چادر اور چار دیواری میں قید) کو تو میں ویسے ہی بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں۔ اوپر سے ہمارے ہاں ادھیڑ عمر خواتین کے لئے جو مخصوص طرز زندگی یا گائیڈ لائین دی جاتی ہے، اُس کے بر خلاف میری پیش رفت بالکل اُلٹ سمت رواں دواں کیوں ہے؟

آپ سے گزارش ہے کہ خط پڑھ کر میری اس الجھن کا کچھ حل بتائیں۔ اور بتائیں کہ کیا یہ کیفیت عورتوں میں مڈل ایج کرائسس کی کوئی شکل تو نہیں ہے؟

شکریہ۔ ثمر اشتیاق
ٹورنٹو، کینیڈا

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail