کالم نگار بننے کا آسان طریقہ


کچھ روز پہلے جھنگ سے ایک دیرینہ قاری کا فون آیا۔ چہک کر بولے ’آج جنگ کے ایڈیٹوریل پیج پر آپ کا نام غلط شائع ہوگیا ہے‘ ۔  میں نے سرکھجایا ’لیکن ابھی تو میں نے نیا کالم بھیجا ہی نہیں، یہ کون سا کالم شائع ہوگیا ہے؟ ‘۔  ان کی طرف سے زوردار قہقہے کی آواز آئی۔ میں نے فوری طور پر خدا حافظ کہا اور جنگ اخبار کھولا۔ ایڈیٹوریل چونکہ ایک صفحے کا تھا لہذا چند سیکنڈز میں پتا چل گیا کہ میرا کوئی کالم شائع نہیں ہوا۔

 ایک دو دفعہ پھر غور کیا لیکن الجھن برقرار رہی۔ تنگ آکر محترم کو فون کیا اور پوچھا کہ حضور کیاپہلیاں بجھوا رہے ہیں؟ انہوں نے پھر قہقہہ لگایا اور بولے ’ارشاد بھٹی صاحب کا کالم ملاحظہ فرمائیں‘ ۔  میں پھر گڑبڑا گیا۔ لیکن اُن سے الجھنے کی بجائے فون بند کیا اور دوبارہ ایڈیٹوریل پیج کھول لیا۔ بھٹی صاحب کا کالم ’زوجہ ماجدہ‘ شروع کیا اورساری بات سمجھ گیا۔ بقول حوالہ یوسفی صاحب! کئی لائنیں بغیر ’واوین‘ کے تھیں۔

یقینا بھٹی صاحب سے سہواً ایسا ہوا ہو گا، ویسے بھی واٹس ایپ یا فیس بک کی پوسٹوں پر کون واوین لگاتا پھرے۔  پچھلے دنوں ایسا ہی ایک وقوعہ فیس بک پر بھی ہوا۔ ایک کالم نظر سے گزرا جسے ایک محترمہ نے شیئر کیا تھا۔ کالم پڑھ کر شک گزرا کہ یہ کہیں پڑھا ہوا ہے۔  دوستوں سے کنفرم کیا تو جواب آیا ’بھائی جی یہ آپ ہی کا ہے‘ ۔  گڑبڑا کر شیئر کیے گئے کالم کے اوپر نیچے نظر ڈالی کہ شاید کہیں میرا نام، منقول یا مقتول ٹائپ کا کوئی لفظ لکھا ہوا لیکن ایسی کوئی نامعقولیت نظر نہیں آئی۔

کمنٹس پر نظر پڑی تو سب محترمہ کو داد دیتے پائے گئے۔  بڑی ہمت کرکے ان سے رابطہ کیا اور کچھ اس قسم کا جملہ کہا کہ ’یہ میر اکالم ہے، اگر مناسب سمجھیں تو ساتھ میرا نام یا کم ازکم منقول ضرور لکھ دیں۔  ”ان کی طرف سے جواب آیا‘ آپ ہمارے لیے محترم ہیں لیکن اس کالم کے بارے میں ایک خاتون کا دعویٰ ہے کہ یہ کسی دوسری خاتون کا ہے ’۔ میں بے اختیار دُبک گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ دوسری خاتون یقینا میں بھی ہوسکتا تھا۔ جواب لکھا‘ محترمہ یہ کالم اتفاق سے میرے نام سے کافی عرصہ پہلے شائع ہوچکا ہے ’۔

 انہوں نے سوال کیا‘ کوئی ثبوت؟ ’۔ یہ پڑھ کر میں نے فوری طور پر معروف صحافی دوست شاہد نذیر چوہدری کو فون کیا اور پوچھا کہ حضور آپ ثبوتو ں کے بڑے ماسٹر ہیں، یہ بتائیے کہ اپنے کالم کا ثبوت کیسے دیا جاتاہے؟ چوہدری صاحب کی گھمبیر آواز آئی۔ ‘ روٹی تے کھا لین دے یار ’۔ میں سمجھ گیا کہ چوہدری صاحب اس وقت سالن کے علاوہ کسی کی نہیں سنیں گے۔  مجبوراً خود سے سوچا اور پھر اپنے کالم کا تراشہ محترمہ کو میسنجر میں بھیج دیا۔

 ان کا جواب آیا‘ یہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ خاتون مصر ہیں کہ یہ کالم کسی دوسری خاتون کا ہے ’۔ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا‘ یہ تو مجھے تسلیم ہے کہ مجھے لکھنا نہیں آتا لہذا عین ممکن ہے میں نے کسی کا کالم اپنے نام سے چھپوا دیا ہو لیکن اب کم ازکم دعویدارخاتون سے بھی تو کوئی ثبوت مانگ لیں؟  ’۔ کچھ دیر بعد ان کا میسج آیا کہ انہوں نے فساد خلق کے ڈر سے وہ پوسٹ ہی ڈیلیٹ کر دی ہے۔  میں ان سے کہتا کہتا رہ گیا کہ بی بی یہ آپ نے ایک اور ظلم کر دیا ہے۔

  کالم کی ساری داد آپ لے گئیں۔  اب آپ نے اسے ڈلیٹ کر دیا ہے۔  کل کو یہ کالم میں اپنی کتاب میں شامل کروں گا تو لوگ آپ کا حوالہ دے کر کہیں گے کہ یہ تو فلاں خاتون کا ہے۔  میں انہیں جھٹلاؤں گا تو وہ بھی کہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کوئی ثبوت؟ اسی طرح فیصل آباد کے ایک نوجوان نے کمال کام کیا۔ میرے کافی سارے کالم اپنے نام سے، ٹائٹل بدل کر نہ صرف اپنی ویب سائٹ پر لگا دیے بلکہ ایک قومی اخبار میں‘ بلاگ ’کے طور پر بھی شائع کروادیے۔

وہ تو بی بی سی والے عارف وقار صاحب کا ایک دن لندن سے واٹس ایپ میسج آیا جس میں اُن صاحب کے‘ کالم ’مجھے بھیجے گئے تھے۔  فرمانے لگے‘ یہ دیکھو! ایسا مزاح لکھا کرو ’۔ میں نے غور سے کالم پڑھے اور میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ عارف وقار صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے مجھ سے ثبوت نہیں مانگا۔ ایسا روز ہوتا ہے۔۔۔۔ صرف میرے ساتھ ہی نہیں، شاعروں کے ساتھ، نثر نگاروں کے ساتھ، کالم نگاروں کے ساتھ، مضمون نگاروں کے ساتھ ہو رہا ہے۔

  لوگ کسی کا پورا پورا سٹیٹس کاپی کرکے اپنے نام سے لگا رہے ہیں۔  پتا نہیں کیوں یہ مصنف کا نام ساتھ لکھنے سے کتراتے ہیں۔  یہ تسلیم کہ سوشل میڈیا کے جنگل میں بعض اوقات کئی چیزیں بغیر نام کے ہی پہنچتی ہیں، نہیں پتا چلتا کہ کس کی تحریر ہے۔۔۔ لیکن ظالمو! منقول یا Copied لکھنے میں کیا قباحت ہے؟ ایک لکھاری کے لیے اس سے زیادہ اذیت ناک مرحلہ کوئی نہیں ہوتا جب اسے اپنی ہی تحریر کے بارے میں کسی اور کی وال پر جاکر بتانا پڑتاہے کہ‘ یہ میری لکھی ہوئی ہے ’۔

پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے، اگر کالم بغیر نام کے بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ رہا ہے تو چلو چار لوگوں کی مسکراہٹ کا سامان ہی بن رہا ہے، اس میں ایسی کیاقباحت ہے۔  لیکن بعد میں احساس ہوا کہ یہ صورتحال خود رائٹر کے لیے بہت خوفناک ہوسکتی ہے۔  الٹا آپ پر سرقہ کا الزام لگ سکتا ہے۔  پھر دیتے پھریں ثبوت۔ اپنے آئی ٹی کے ماہر دوست اور پیج ایڈمن عابد حسن سے رابطہ کیا تو فرمانے لگے‘ آپ اپنے کالم کے نیچے Stamp لگا دیا کریں ’۔

 میں نے حیرت سے پوچھا‘ یعنی میں نیچے ڈاک ٹکٹ لگا دیا کروں، اس سے کیا ہوگا؟ ’۔ ان کو شاید ہلکا سا غشی کا دورہ پڑا، پھر سنبھلتے ہوئے بولے‘ Stamp سے مراد ہے اپنا نام مدہم سا لکھ دیا کریں ’۔ میں نے طریقہ کار پوچھا اورسمجھ نہ آنے پر فرمائش کی کہ یہ کام آپ ہی کردیا کریں، مجھ سے تو نہیں ہوتا۔ انہوں نے حامی بھری لیکن آگاہ کردیا کہ ویسے اس سے ہوتا کچھ نہیں کیونکہ کالم چوری کے اور بہت سے طریقے ہیں‘ ۔  یہ سن کرمیں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ کالم لکھنے کی بجائے یہ طریقے سیکھنا زیادہ بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).