پینٹاگون ’طالبان کو سفری اخراجات ادا کرنا چاہتا ہے‘


امریکی کانگریس کے ایک عہدے دار کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ طالبان کو حالیہ امن مذاکرات میں شرکت کرنے پر آنے والے اخراجات واپس کرنا چاہتی ہے۔

تاہم امریکی قانون سازی سے متعلق کمیٹی کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ کیپٹل ہل کمیٹی نے اس درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ وہ شدت پسندوں کے اخراجات جیسے کھانے اور رہائش کو کور نہیں کرتی ہے۔

امریکی کانگریس کے ایک عہدے دار کے مطابق اس درخواست کو اس لیے مسترد کر دیا گیا کیونکہ اس سے دہشت گردوں کے لیے غیر قانونی مواد کی حمایت کا تاثر ملے گا۔

امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون نے اس درخواست پر فوری طور پر تبصرہ کرنے کا جواب نہیں دیا ہے۔

افغان طالبان سے امن مذاکرات کے حوالے سے مزید پڑھیے

’طالبان امریکہ مذاکرات قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں‘

’طالبان کے بانی رکن ملا برادر مذاکرات کے لیے قطر پہنچ گئے‘

’طالبان کے بانی رکن ملا برادر مذاکرات کے لیے قطر پہنچ گئے‘

طالبان کے مسلسل حملوں سے امن مذاکرات رک جائیں گے؟

امریکہ افغانستان سے کیوں نکل رہا ہے؟

افغان طالبان سے مذاکرات اور امید کی فضا

واضح رہے کہ امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان اکتوبر سنہ 2018 سے اب تک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے چھ دور ہوئے ہیں جن کا مقصد امریکہ کو افغانستان سے محفوظ انخلا فراہم کرنا ہے۔

پیٹر ویسکاکیسی آف انڈیانا کے ریپریزینٹیٹو ترجمان کیون سپیسر کے مطابق پینٹاگون کی جانب سے فنڈنگ کی درخواست کا مقصد طالبان کو مذاکرات میں شرکت کرنے پر آنے والے اخراجات جس میں کھانا، رہائش اور ٹرانسپورٹ شامل تھی کو واپس کرنا تھا۔

کیون سپیسر نے کہا ’ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ نے بعض مفاہمت کی سرگرمیوں کی حمایت کے لیے مالی سال 2020 کی مالی امداد کی درخواست کی جس میں طالبان کے ارکان کے لیے لاجسٹک سپورٹ شامل تھی۔‘

ان کے مطابق ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ نے مارچ سنہ 2019 میں اسی طرح کے سرگرمیوں کے لیے مالی سال 2019 کے فنڈز استعمال کرنے کے لیے کمیٹی کو نوٹیفیکیشن کا خط بھیجا تھا۔

اشرف غنی اور زلمے خلیل زاد

ویسکاکیسی کی زیر صدارت دفاعی کمیٹی نے بدھ کو ($ 690.2bn) کے اخراجاتی بل کو منظور کیا ہے جس کا مقصد شدپ پسندوں کے لیے اخراجات کی ادائیگی کو خاص طور پر روکنا ہے۔

وضح کردہ قوانین کے تحت ’بل میں دستیاب رقم سے طالبان کے کسی بھی رکن کے ایسی کسی بھی میٹنگ میں شرکت کرنے جس میں افغانستان کی حکومت کے ممبران کی شمولیت شامل نہیں ہے یا خواتین کی شمولیت کو محدود کرتا ہے۔‘

کیون سپیسر کا کہنا تھا کہ ویسکاکیسی نے اس شق کو شامل کیا کیونکہ فنڈز کے لیے کی جانے والی یہ درخواست دہشت گرد گروہوں کے مادی معاونت سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرے گی۔

انھوں نے کہا ’امریکی سروس کے اراکین کے خلاف طالبان کی مسلسل جارحانہ کارروائیوں اور افغانستان کی حکومت کے عدم اطمینان یا افغان سوسائٹی میں خواتین کے حقوق کے عدم اطمینان کی وجہ سے۔

طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا مقصد امریکہ کو افغانستان سے محفوظ انخلا فراہم کرنا ہے۔ نیز طالبان اس بات کی ضمانت بھی دیں گے کہ افغانستان میں داعش یا القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا نہیں ہوں گی۔

خیال رہے کہ سنہ 2014 میں بین الاقوامی افواج کے افغانستان کے انخلا کے بعد سے طالبان کے افغانستان میں اثر و رسوخ اور زیرِ کنٹرول علاقے میں اضافہ ہوا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی تقریباً نصف آبادی، یعنی ڈیڑھ کروڑ لوگ طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں آباد ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp