دولتِ اسلامیہ: خواتین دہشت گردوں کا ہتھیار کیوں بنتی ہیں؟


شمیمہ بیگم

PA
شمیمہ بیگم کو ‘دولت اسلامیہ کی پوسٹر گرل’ کے طور پر پہچانا جاتا ہے

جب بھی کوئی خاتون دہشت گردی کی وجہ سے خبروں میں آتی ہیں، تو یا تو ان کو متاثرین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، یا اس لڑائی میں ان کو حامیوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

لیکن دوسری طرف ایسی خواتین کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جنھوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیا یا ان کی حمایت کی۔

تاہم نو عمری میں برطانیہ سے شام جا کر شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے والی شمیمہ بیگم کے حالیہ کیس کی وجہ سے یہ سب بدل گیا ہے اور انھیں ’دولت اسلامیہ کی پوسٹر گرل‘ کے طور پر جانا جانے لگا۔

شمیمہ بیگم نے چار سال قبل اپنی دو ساتھیوں کے ساتھ برطانیہ چھوڑ کر دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی تھی، تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ ’وہ صرف خاتونِ خانہ‘ تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

شمیمہ کو ’ہم اتنی آسانی سے نہیں چھوڑ سکتے‘

’شمیمہ بیگم بنگلہ دیشی شہری نہیں‘

شمیمہ کی برطانیہ واپسی کے لیے خاندان کی حکومت سے اپیل

بیتھنل گرین اکیڈمی کی پڑھیں شمیمہ اور ان کی ساتھی عامرہ عباسی اور خدیجہ سلطانہ نے فروری سنہ 2015 میں برطانیہ چھوڑا۔

اپنے والدین کو یہ بتا کر کہ وہ کچھ دیر کے لیے باہر جا رہی ہیں، انھوں نے گیٹ وک ایئر پورٹ سے ترکی کا سفر کیا اور بعد میں سرحد پار کر کے شام چلی گئیں۔

اس کے باوجود برطانیہ کے وزیرِ داخلہ ساجد جاوید نے شمیمہ بیگم کو برطانوی شہریت سے محروم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر آپ دہشت گردی کی حمایت کریں گے تو اس کے نتائج ضرور ہوں گے۔‘

شمیمہ بیگم کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے قانونی مدد دی جا رہی ہے۔

دہشت گردی میں خواتین کا کردار

شمیمہ بیگم کے کیس نے پرتشد واقعات میں خواتین کے فعال کردار اور ان میں اپنی مرضی سے ملوث ہونے کے بارے میں بہت سے سوال اٹھائے ہیں۔

رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ افریقہ سے بھرتی ہونے والے انتہا پسندوں میں سے 17 فیصد خواتین ہوتی ہیں، جبکہ ایک دوسری تحقیق کے مطابق عراق اور شام میں مقیم غیر ملکی جنگجوؤں میں سے بھی 13 فیصد خواتین ہیں۔

رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹیٹیوٹ اور دیگر اداروں نے دولت اسلامیہ اور الشباب جیسی شدت پسندوں تنظیموں میں خواتین کے کردار کے بارے میں تحقیق کی ہے۔

یہ جاننے کے لیے کہ ان خواتین کو کیسے بھرتی کیا گیا اور پرتشدد شدت پسندی میں حصہ لینے سے ان پر کیا اثر پڑا، محققین نے ایسی خواتین کو انٹرویو کیا جو بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر الشباب کی سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔

دولتِ اسلامیہ بمقابلہ الشباب

مختلف شدت پسند گروپوں میں خواتین کا کردار مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔

الشباب میں کام کرنے والی خواتین کو اکثر جنگجوؤں کی بیگمات کے روایتی کرداروں کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے. وہ کبھی کبھی جنسی غلام کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔

ایسی خواتین نئے ارکان کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں بھی مدد دے سکتی ہیں۔ کینیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ان خواتین کو نوکری دینے مالی امداد فراہم کرنے اور کونسلنگ کے وعدوں کے نام پر ورغلایا گیا۔

مثال کے طور پر ملبوسات تیار کرنے والی ایک خاتون ہادیہ (اصل نام نہیں) کو ایک کلائنٹ کی جانب سے ان کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے اور اسے وسعت دینے کا کہہ کر بھرتی کیا گیا تھا۔ مذکورہ خاتون کو سرحدی علاقے میں سفر کرنے کے لیے راضی کیا گیا جہاں سے انھیں صومالیہ سمگل کر دیا گیا۔

جہادی خواتین

دولت اسلامیہ کے اندر خواتین کو خاص طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن بھرتی کیا جاتا ہے اور وہ شدت پسند گروپ کے نظریات کے پرچار میں فعال کردار ادا کرتی ہیں۔

شمیمہ بیگم کی دولتِ اسلامیہ میں شمولیت کو ان (دولت اسلامیہ) کے پروپیگنڈا کی فتح کے طور پر دیکھا گیا ہو گا اگرچہ شمیمہ بیگم کا موقف ہے کہ انھوں نے شام میں اپنے شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے علاوہ اور زیادہ کچھ نہیں کیا۔

دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے والی خواتین کو ڈاکٹروں اور ہیلتھ کیئر ورکرز کے طور پر کام کرنے کی بھی مشروط اجازت ہوتی ہے جبکہ اس شدت پسند گروہ میں صرف خواتین پر مشتمل پولیس فورس بھی ہے جس کا کام اخلاقی اقداروں کی جانچ پرکھ کرنا ہے۔

اگرچہ دولتِ اسلامیہ نے حال ہی میں عراق اور شام میں اپنی عملداری کو کھویا ہے تاہم یہ گروہ خواتین کو فرنٹ لائن کردار دینے پر آمادہ ہے۔ حال ہی میں ریلیز کردہ ایک ویڈیو میں خواتین کو شام میں اگلے مورچوں پر لڑتے دیکھایا گیا ہے۔

اسی بارے میں:

شمیمہ بیگم کے تیسرے بچے کا انتقال، وزیر داخلہ پر تنقید

شمیمہ بیگم کے شوہر: ’ہمیں ہالینڈ میں رہنا چاہیے‘

بے ریاست ہونے کا کیا مطلب ہے؟

الشباب صومالیہ میں شرعی قوانین کے تحت اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس میں خود کش خواتین جنگجوؤں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق الشباب کی جانب سے سنہ 2007 سے لے کر 2016 تک کی مدت کے دوران کیے جانے والے خود کش حملوں میں سے پانچ فیصد خواتین نے کیے۔ اسی طرح نائجیریا میں باکو حرام گروپ بھی خواتین خود کش بمبار استعمال کرتا ہے۔

خواتین شدت پسند گروہوں میں شمولیت کیوں اختیار کرتی ہیں؟

سیلی این جونز

شدت پسند گروپوں میں خواتین کی بھرتی کی کافی وجوہات ہیں۔

خاص طور پر خواتین کے حوالے سے اپنائے گئے ہتھکنڈے جیسا کہ صنفی کرداروں میں واپس آنے کی اپیل بھی کارگر ثابت ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر ہماری تحقیقات میں سے ایک یہ ظاہر کرتی ہے کہ الشباب ایسی نوجوان مسلمان خواتین کو بھرتی کرتی ہے جنھیں اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ زیادہ تعلیم ان کی شادی کے امکانات کو کم کر سکتی ہے۔

نیروبی یونیورسٹی کی ایک خاتون کا کہنا تھا ’اگر مجھے ایسا شخص ملتا ہے جو مجھ سے شادی کر کے مجھے تحفظ دے گا تو پھر میں اپنے پڑھائی اور تعلیم پر کیوں زور دینا چاہوں گی؟‘

دیگر خواتین بظاہر ملازمتوں کی فراہمی کے وعدوں، پیسہ اور دیگر مواقعوں کی وجہ سے بھی اس جانب راغب ہوتی ہیں۔

تاہم ان خواتین کی شدت پسند گرہوں میں شمولیت کی اصل وجوہات کا پتا چلانا مشکل ہے۔ متعدد خواتین جن کے انٹرویوز کیے گئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے بھرتی نہیں ہوئی تھیں۔

بحالی کا راستہ

بحالی کے متعدد پروگرام شدت پسند تنظیموں کو چھوڑ کر واپس آنے والوں کے لیے ہوتے ہیں تاہم بہت کم خواتین کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔

پالیسی سازوں اور سکیورٹی سروسز کو انتہا پسند گروہوں کو چھوڑنے والی خواتین کے حوالے سے پروگرام ترتیب دیتے وقت ان خواتین کے مسائل کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔

مثال کے طور متعدد خواتین کے بچوں کے باپ نامعلوم ہوں گے یا ہلاک ہو چکے ہوں گے جبکہ ان خواتین میں سے کئی کو جنسی زیادتی اور جنسی ہراسگی سے پیدا ہونے والے صدمے سے نکلنے کے لیے کونسلنگ کی ضرورت ہو گی۔

حکومتوں کے لیے پرتشد انتہا پسندی میں ملوث خواتین کے مسائل کو حل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ دوسری خواتین کو اس راستے پر جانے سے بچایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp