محروم والدین کے ٹیکنوکریٹس بچے


  قصور شہر کا وہ حصہ جہاں اداکار یوسف خاں کا آبائی گھر ہے‘ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے سیدھے چلتے جائیں۔ بابا بلھے شاہ کے مزار والے علاقے کے قریب ،ایک گلی میں بائیں طرف مڑیں‘ وہاں ایک پانچ چھ مرلے کا پلاٹ پڑا تھا۔ بتایا گیا کہ یہ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے والد کا گھر تھا۔ پرانا مکان گرا دیا گیا۔ شاید یہ جگہ کسی دوسرے مالک کے پاس ہے۔ ڈاکٹر محبوب الحق‘ معین قریشی، ڈاکٹر حفیظ اے شیخ اور ڈاکٹر باقر رضا جیسے لوگوں کے ماں باپ بھی ایسے ہی چھوٹے چھوٹے گھروں میں رزق حلال سے اپنے بچوں کی پرورش کرتے اور انہیں تعلیم دلایا کرتے تھے۔

جب یہ لوگ پڑھ رہے تھے تو حکمران طبقات کی اولاد یہ سیکھ رہی تھی کہ عمارتوں میں پڑا ریکارڈ کیسے جلایا جاتا ے۔ حرام کی کمائی کو کس طرح مزید حرام کمانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے یقین اور اعتبار کا کس طرح خون کیا جاتاہے اور سیاست کو کس طرح خاندانی وراثت میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

پہلی قسم کے افراد کو ٹیکنو کریٹس کہتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ خود کو سیاستدان کہلاتے ہیں۔ اپنی حیثیت کو مزید نمایاں کرنے کے لئے کوئی سینئر سیاستدان بن جاتا ہے اور کوئی مزید ایڑیاں اٹھا کر خود کو جمہوریت پسند قرار دیتا ہے۔ غریبوں کی ایک ہی جماعت تھی۔ پیپلز پارٹی‘ جو 27 دسمبر2007ء کو لیاقت باغ میں شہید ہو گئی۔ اب ایسی کوئی جماعت نہیں جس میں غریب طبقات اہم عہدوں پر ہوں۔

مسلم لیگ ن ہو‘ پیپلز پارٹی ہو‘ جمعیت علمائے اسلام ہو‘ اے این پی ہو یا تحریک انصاف ہو۔ سب جگہ ایک یہ طبقہ ہے۔ اس کا شاندار نمونہ بھائی پھیرو ہے۔ اس علاقے کو نواز شریف نے پھول نگر کا نام دیا تھا۔ یہاں رانا پھول محمد کا گاﺅں لمبے جاگیر ہے۔ گاﺅں میں ایک بہت بڑا قلعہ نما محل ہے۔ اس میں رانا خاندان کے تمام گھر ہیں۔ ایک گھر کے لوگ مسلم لیگ میں ہیں۔ دوسرے کے پیپلز پارٹی سے وابستہ اور اب چند گھر تحریک انصاف قبول کر چکے ہیں۔

ان لوگوں نے طے کر رکھا ہے کہ لوگ اگر تبدیلی چاہیں تو وہ تبدیلی اسی محل کے کسی رہائشی کے ذریعے ہو۔ ایم این اے یا ایم پی اے اسی محل کی چاردیواری میں رہنے والا ہو، جیت کا ڈھول صرف یہاں بجے۔ یہ ایک طبقہ ہے جو یہاں کے لوگوں کی گردنوں پر سوار ہے۔ سندھ کا وہ ضلع جسے پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے۔ لاڑکانہ وہاں چار سو سے زائد لوگ ایڈز کے مریض نکلے ہیں۔ سندھ کے دیگر علاقوں سے بھی ہر روز درجنوں نئے کیس سامنے آ رہے ہیں۔

اسی سندھ سے خبر آئی کہ گندم کے سرکاری گوداموں میں کرامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ گندم کی بوریاں مٹی کی بوریوں میں بدل گئیں۔ جانے کس کی کرامت ہے۔ جنگلات کی زمینیں حکومتی افراد نے ذاتی استعمال میں رکھ لی ہیں۔ ہزاروں اور لاکھوں ایکڑ کوئی بے زمین کاشت کرتا تو ملک کو اناج سے بھر دیتا۔

کیا کوئی جانتا ہے کہ جس بلوچستان کو ہم پسماندگی کا طعنہ دیتے ہیں، جہاں سرداروں کی گرفت ہماری توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے وہاں آج بھی نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ باقی سب صوبوں کی نسبت زیادہ قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ کراچی نے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی قیادت فراہم کی تھی مگر یہ بھی سراب ثابت ہوا۔ کراچی کا ہر بھائی بڑے بھائی کے حکم کا تابع رہا۔بڑے بھائی نے الگ ہی طبقاتی تقسیم ڈھال لی۔

نچلے طبقات اگر سیاسی طور پر سرگرم اور فعال ہوئے بھی تو انہیں پیدائشی رہنماﺅں کے منشی‘ باڈی گارڈ اور سیاسی اتالیق سے زیادہ عزت نہیں مل سکی۔

انڈونیشیا کے صدر جوکو ودودو ایک لکڑ ہارے کے بیٹے ہیں۔ خود بھی بچپن اور اوائل جوانی میں جنگل میں محنت مزدوری کی۔ ساتھ ساتھ پڑھا۔ فارسٹری میں ماسٹر ڈگری لی۔ پھر فرنیچر سازی کے کورسز کئے۔ اپنا فرنیچر کا کام شروع کیا۔ ہر وقت لوگوں کی مدد پر کمربستہ رہتے۔ لوگوں نے جکارتہ کا میئر منتخب کر لیا۔ ایسا لاجواب کام کیا کہ انہوں نے صدر بنا دیا ۔ دو سال قبل برازیل کی صدارت کا منصب چھوڑنے والی دلما روسف کبھی ایک گوریلا فائٹر رہی تھیں۔

بائیں بازو کے سوشلسٹ نظریات نے ان کی شخصیت بنانے میں مدد دی۔ قید کاٹی‘ سزا ملتی رہی۔ ایک ٹانگ اور پاﺅں سرکاری تشدد سے متاثر ہوئے ۔ اسی دلما نے 40ارب ڈالر کے عالمی قرض کو ادا کرنے کی حکمت عملی تیار کی۔ دنیا میں کوئی ایک مثال نہیں کتابوں سے لائبریریاں بھری پڑی ہیں۔ ایسی کتابیں جن میں تبدیلی اور عزم سے لبریز لفظ اور جملے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ کتابیں ٹیکنو کریٹس کی ہیں۔ یہ ٹیکنو کریٹس ہیں جو اپنا وقت امراءکو فروخت کر کے زندگی کا ضروری سامان خریدتے ہیں۔

ٹیکنو کریٹس سے سیاسی جماعتیں اتنی بیزار ہیں کہ وہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی باقاعدہ ایک جماعت سمجھتی ہیں۔ ٹیکنو کریٹس کو برا بھلا کہا جاتا ہے کہ وہ منتخب نہیں ہوئے۔ پاکستان کے 21کروڑ باشندوں میں سے صرف 342 قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔ چند سو صوبائی اسمبلی کے رکن بن جاتے ہیں۔ کچھ سینٹ کے اراکین ہیں۔ بلدیاتی اداروں کو کبھی سیاستدانوں نے عزت نہیں دی لہٰذا دو ڈھائی ہزار لوگ پارلیمنٹرین کہلاتے ہیں۔

یہی منتخب ہونے کے دعویدار اورجمہوریت کے محافظ ہیں۔ باقی کسی کی قابلیت ان سے برتر ہے نہ انتظامی صلاحیت۔1985ءکے بعد جتنے انتخابات ہوئے سب میں ایسے لوگ منتخب ہوتے آئے جو ووٹ خرید سکتے تھے اور بریانی کھلا سکتے تھے۔ آپ سمجھیں اس بریانی میں آئی ایم ایف سے قرض لے کر چکن یا مٹن ڈالا جاتا ہے۔ بریانی کے عوض ووٹ لینے والے اور بریانی نظریات کو فروغ دینے والوں نے کوئی سیاحتی پالیسی بنائی نہ صنعتی پالیسی‘ زرعی ملک 71 برس سے زراعت کو ترقی نہیں دے سکا۔

ہر سال بجٹ بھیک اور قرض مانگ کر بنایا جاتا ہے۔ ہر سال تھر میں سینکڑوں بچے مر جاتے ہیں۔ غذا اور علاج نہیں ملتا۔ ملک کی یہ حالت سیاستدانوں نے کی ہے اور جب وہ ناکام ہو جاتے ہیں تو معین قریشی آتا ہے۔ پہلی بار ان سیاستدانوں اور طاقتور افراد کی فہرستیں بنتی ہیں جنہوں نے قرضے معاف کرائے۔زرعی ترقیاتی بنک کو ڈبو دیا۔ اربوں کے قرضے معاف کرانے والوں کی کچھ لسٹیں میرے پاس ہیں۔

سب سیاستدان یا سرکاری افسر ہیں۔ کوئی ایک ٹیکنو کریٹ نہیں۔ ماہرین بہت ہیں۔ بہت سے لوگوں کو میں جانتا ہوں جن سے عالمی ادارے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہم اس وجہ سے انہیں مسترد کر دیتے ہیں کہ ایک ڈر ہے‘ ان کی کارکردگی ہمارے جمہوری لوگوں کی استعداد کا پردہ چاک نہ کر دے۔ آج کل پھر شور ہے کہ حکومت ٹیکنو کریٹس کو اہم ذمہ داریاں دے رہی ہے۔ تو کیا اہم ذمہ داری کسی غیر تربیت یافتہ کو دی جا سکتی ہے۔ ہمارا سیاستدان صرف لوگوں کو مینج کرنا جانتا ہے، قومی مسائل کو حل کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).