سچ بتائیے، کبھی کبھی شوہر کو پھینٹی لگانے کو جی چاہتا ہے نا؟


اللہ مجھے معاف کرے۔ میری بتیسی اونچے ٹبوں پر اُگی کپاس کے پھولوں کی مانند کھلی پڑ رہی ہے۔ مارے خوشی کے دل میں لڈو سے پھوٹ پڑے ہیں۔ بھئی کیا کروں خبر ہی ایسی ہے کہ دل شاد ہوگیا ہے۔ ارے ایک میرا تھوڑی، یقین جانیں ہر اُس بی بی کا جو ریت روایت اور رواج کی گھمن گھیریوں میں پھنسی، کہیں اولاد کی زنجیروں میں جکڑی اور کہیں رشتوں کی لڑیوں میں پروئی اس گھریلو زندگی میں ہونے والی لعن طعن اور مارپیٹ قسم کی صورت کا سامنا کرتی ہے اور سچ تو یہ ہے کیسے اور کن جذبات سے کرتی ہے؟ یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں۔ آپ اِس اتنی لمبی تمہید سے اکتا تو نہیں گئے ہیں۔ تو لیجئیے پہلے خبر پڑھیے۔

ایک بیچارے ستم رسیدہ مصری شوہر نے اپنی بیوی کے خلاف اس کی مبینہ زیادتی پر ایک مقدمہ درج کروایا ہے جس کی بڑی دھوم مچی ہے۔

مصری شوہر نے کہا ہے کہ اُس کی بیوی اُسے اکثر زودکوب کرتی ہے۔ اُسے اِس تشدد کی بنا پر ماضی میں کئی بار چوٹیں بھی آئی ہیں۔ دراصل گھریلو اختلاف کی وجہ سے جب بھی تلخ کلامی ہوئی اور اس نے شدت پکڑی۔ بیوی گھونسوں، مکّوں اور جوتوں سے مرمت کردیتی ہے۔

اب میرے پیارے ہم سب قارئین میرے ہونٹوں سے اگر بے اختیار ہی شاباشے شیر دی اے بچیئے ٹھنڈ پا دتی اے کالجے وچ۔ (شیر کی بچی نے کلیجے میں ٹھنڈ ڈال دی ہے۔) کی آواز آئی تو اس میں میرا کیا قصور؟

ابھی تھوڑی دیر قبل سیما پیروز سے اسی خبر پر بات ہوئی۔ ہنستے ہوئے بولی۔ میں نے تو میاں کو بھی پڑھائی تھی اور ساتھ میں تبصرہ بھی کیا تھا۔ بات ہوئی نا۔ ہم جیسی پڑھی لکھی عورتوں کو ایک زور دار گونج کے ساتھ چپ کروا دیا جاتا ہے۔ سراسر غلطی صاحب بہادر کی ہی ہو مگر مردانہ انا کا شملہ سدا اونچا رہنا چاہیے۔ اُس کی کسی بات کی ہیٹی ہو، یہ ہرگز ہرگز گوارا نہیں۔ تابعدار اولاد کا بھی زور ماں پر ہی چلتا ہے۔ دفع کریں امی آپ بس چپ ہوجایا کریں۔ اور شومئی قسمت سے اگر کہیں خاتون خانہ بھی بھڑک اٹھی تو پھر معاملہ ہلدی چونے والا ہی ہوتا ہے۔

یہاں مصری اور پاکستانی مرد کے حوالے سے تصویر کا ایک اور رُخ بھی مجھے یاد آرہا ہے۔ ذرا اسے بھی سُن لیجئیے۔ میرے محلے کے ایک بے حد شریف النفس پی ایچ ڈی ڈاکٹر جو بہت سال سعودیہ رہے۔ وہاں سے ایک مصری خاتون بیاہ کر لائے۔ خاتون بہت ملنسار اور محبت والی تھیں۔ ایک دفعہ جب میں مصر جا رہی تھی، تو اس خاتون نے اپنی چھوٹی بہن بوسیما تلبہ جو قاہرہ جدید میں رہتی تھی کے لیے ایک پیکٹ میرے ہاتھ بھیجا۔ اب جب دو گھنٹے کی خجل خواری کے بعد اُن کے چھوٹے سے فلیٹ میں پہنچی اورباتیں واتیں شروع ہوئیں۔ خاتون نے پاکستانی شوہروں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے تھے۔ بدذات مصری شوہروں کے اُس نے لتّے لیے۔ اُن کے ظلم و ستم کے افسانے سنائے۔ دراصل وہ خود طلاق یافتہ تھی۔ ایک بیٹی کے ساتھ کسمپرسی کی سی زندگی گزار رہی تھی۔ یہ قصیدہ گوئی بند ہونے میں ہی نہیں آرہی تھی۔ میں نے ہنستے ہوئے ہاتھ جوڑ دئیے۔ بوسیما تلبہ بس بھئی بس میرے صبر کو اتنا نہ آزماﺅ۔ ہماری زبان کی ایک کہاوت ہے۔

اسپغو ل تے کُجھ نہ پھول۔ بس ڈھکی رہیں۔ مقدرسے آپ کی بہن کو اچھا شوہر مل گیا ہے تو یہ اُن کی خوش نصیبی ہے۔ وگرنہ اگر میں پھٹ پڑی تو پھر سب کچھ پھیتی پھیتی ہوجائے گا۔

ایک اور بڑا مزے کا واقعہ سُن لیں۔ ہماری دوست کی بیٹی کی موٹی تازی خادمہ آئے دن نیلوں نیل ہوئی رہتی۔ اپنی مالکن سے جھڑکیاں بھی کھاتی، لعن طعن بھرے طعنے بھی سُنتی کہ لعنت ہے تم پر۔ ڈوب مرو کہیں جا کر۔ کمبخت ڈھائی پسلی کا وہ نشئی، شرابی تم سے سنبھالا نہیں جاتا۔ سارا سارا دن تیرے میرے گھروں میں جوتے چٹخاتی اور کولہو کا بیل بنی پھرتی ہو۔ جو کماتی ہو۔ وہ اجاڑ دیتا ہے۔ کمبخت ایک بار ہلدی چونا لگوانے والا کر دو۔ سدا سکھی ہوجاﺅ گی۔ بات خانے میں بیٹھ گئی۔ بس تو ایک دن جب مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا۔ اُس نے کلاوے میں بھر کر زمین پر وہ پٹخنیاں دیں کہ درد بھری چیخوں کے ساتھ جو آوازیں سنائی دیں وہ بس معافی کی ہی تھیں۔ وہ دن اور آج کا دن سکھی ہوگئی۔

واقعی نسخہ تو بڑا ہی کام کا نکلا۔ ویسے آپ سے کیا پردہ۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ متوسط گھرانوں کی جب ایک پڑھی لکھی عورت گھر کی معیشت کی گاڑی کے چلو اگلے نہ سہی پچھلے پہیے بنی سربراہ کے ساتھ شانہ بشانہ اس گاڑی کو چلانے میں اسی کی طرح کولہو کا بیل بنی ایسی صورت کا سامنا کرتی ہے کہ جب خیر سے یہ اللہ کی اعلیٰ اور افضل مخلوق کِسی چھوٹی سی بات پر ہنگامہ کھڑا کرلیتی ہے۔ زبان کے تیروں سے چھلنی کرنے کے ساتھ کبھی کبھی ہاتھ کے کرتب بھی دکھانے پر اتر آتی ہے۔ تب ایک حسرت بھرا الاﺅ تو اندر ضرور بھڑک کر صدا لگاتا ہے کہ آئے ہائے نہ سیکھا، نہ سیکھا یہ جوڈو کراٹے۔ جو کہیں آتا ہوتا تو بس لمحوں میں ہی صاحب بہادر کے اِس تماشا برپا کرنے کے شوق کا تیا پانچہ کردیتا۔ بیچاری کمزور ناتواں مخلوق آنسووں کے کھارے پانیوں میں چہرے کو نہلاتے ہوئے تصور میں ہی اِس فرضی صورت کے حسین انجام سے لُطف اندوز ہونے لگتی ہے۔

اب ایک اور دلچسپ سا بڑا ہی ذاتی قصہ سُن لیجیئے۔ میاں کی ممانی گذشتہ سال فوت ہوئیں۔ چند دنوں بعد فرمانے لگے۔ بھئی بڑی ہی جنتی بی بی تھی۔ ہمیشہ شوہر سے کہتی تھیں خدا کرے میرا مرنا آپ کے ہاتھوں میں ہو۔ اب ایک بار سُنا۔ دو بار سُنا۔ تیسری بار بھی رقت آمیز لہجے میں یہ گوہر افشانی سُن لی۔ چوتھی بار جب بولنے لگے میری کمبخت زبان خاموشی اور مصلحت کی پٹڑی سے ایک گڑگڑاہٹ سے نیچے لڑھک پڑی اور گونجنے لگی۔

”صاحب اگر آپ یہ سب مجھے اس لیے سُنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ میں بھی اُن نیک بی بی کی طرح کسی ایسی ہی خواہش کا اظہار کروں تو اطمینان رکھیے کہ مجھے ایسا کوئی ارمان اور چاہت نہیں۔ کسی نہ کسی نے تو پہلے جانا ہی ہے۔ یہ آپ بھی ہوسکتے ہیں اور یہ میں بھی ہو سکتی ہوں۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).