کبوتر کیسے اُڑ گیا جمیل نقش؟


کبوتر کیسے اڑ گیا؟

نور جہاں سے پوچھے جانے والے اور مستقبل کے شہنشاہ جہاں گیر کے سوال کا جواب یہ تھا کہ ایسے اڑ گیا۔ کبوتر اڑ گیا اور اب اس کی پرواز کو فضا کی پہنائیوں میں تلاش کرتے رہ جائیے۔

یہی سوال جمیل نقش سے پوچھنے کو جی چاہ رہا ہے کہ کبوتر کیسے اڑ گیا۔ پاکستان کے اس بے مثل مصوّر کی انوکھی خصوصیت یہ تھی کہ ان کی تصویروں کے کسی نہ کسی گوشے میں کبوتر ضرور موجود ہوتے تھے۔ خوبصورت عورت کے دلآویز خطوط ہوں یا ساکت حیات کے نقوش، دو چار کبوتر تصویر کے کونے میں غٹر غوں کرتے نظر آتے تھے۔ کبھی کبھی کبوتر اس عورت یا ساکت حیات سے زیادہ معنی خیز نظر آتے تھے۔ یاد آیا کہ منٹو نے اپنے افسانے ’’دھواں‘‘ میں ایک خاص کیفیت کے بیان کے لیے لکھا ہے کہ کبوتر دم پُخت کی ہوئی ہنڈیا معلوم ہو رہے تھے۔ جمیل نقش کی ایک تصویر کے کبوتروں نے مجھے منٹو کی یاد دلا دی اور ساری تصویر جیسے دھواں دھواں ہو گئی۔

پاکستان کے بہت اچھوتے مصوّر تصدّق سہیل کی باتوں سے مجھے بہت مزہ آیا کرتا تھا۔ بڑی انوکھی تصویریں بنانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے پرانے دوستوں اور پاکستان کے دوسرے مصوّروں کے بارے میں فقرے بازی کرتے رہتے تھے۔ وہ جمیل نقش کے کبوتروں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر اعتراض کرنے سے باز نہ آتے، ’’ایک وہی کبوتر چلا آ رہا ہے اس کے پاس۔ اسی کو بار بار پینٹ کیے جا رہا ہے۔ اس سے کہو کوئی دوسرا جان دار بھی دیکھے۔‘‘ خود تصدّق سہیل کو طوطے پینٹ کرنے کا شوق تھا۔ وہ بھی ہر جگہ طوطا بٹھا دیا کرتے تھے، بعض ایسی جگہوں پر بھی جہاں طوطا مینا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’جمیل نقش پر آپ کے فقرے کبوتر اور طوطے کی لڑائی ہیں۔‘‘ وہ زور دار قہقہہ لگا کر کہتے۔ ’’طوطے اور کبوتر میں کوئی لڑائی نہیں ہوتی۔ وہ کیا شعر ہے کبوتر با کبوتر۔۔۔‘‘ وہ شعر جانتے بوجھتے بھول جایا کرتے۔

جمیل نقش کی آخری نمائش جو میں نے دیکھی اس میں کبوتر نہیں تھے۔ وہ تصویریں موئن جو ڈرو کے مچھیروں کی تھیں اور تنو مند خواتین کے ساتھ مچھلیاں تھیں۔ بانہوں میں سمائی ہوئی، گود میں بھری ہوئی طاقت ور مچھلیاں جو کبوتروں کی طرح تصویر کے ایک کونے پر قناعت نہیں کرسکتی تھیں۔ تصدّق سہیل ہوتے تو وہ ان مچھلیوں کے بارے میں رائے زنی ضرور کرتے مگر اس سے پہلے وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔

طوطے کے بعد کبوتر بھی اڑ گئے۔ ایسا لگتا ہے کراچی کے آسمان پر اب چیل کوّے منڈلاتے رہ جائیں گے۔

بہت دفعہ سوچا لیکن کبھی ہمّت نہیں پڑی کہ جمیل نقش سے پوچھ کر دیکھوں کہ کبوتروں سے اس قدر دل چسپی کے پیچھے کیا کہانی ہے۔ مگر اصل کہانی تو تصویر کے پردے میں تھی اور اس سے بڑھ کر کوئی کیا کہہ سکتا تھا۔ میں نے جمیل نقش کا نام اس وقت سنا، جب میں اسکول کا طالب علم تھا۔ ان کا نام ادبی کتابوں، رسالوں پر نظر آتا تھا۔ لکھنے والے کی حیثیت سے نہیں بلکہ سرورق کے مصوّر کی حیثیت سے۔ ان کے بنائے ہوئے سرورق مُنھ سے بولتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اسکول کے زمانے سے جن ادبی رسالوں کو بہت شوق سے پڑھتا تھا، ان میں رسالہ ’’سیپ‘‘ بھی شامل تھا۔ اس کے مدیر نسیم درانی تھے مگر رسالہ شروع ہوتا تھا جمیل نقش کی تصویر سے۔ ان کا بنایا ہوا سرورق رسالے کا عجیب و غریب اختصاص تھا۔ سرورق کی تصویر رسالے کے مزاج کی پابند نہ ہوتے ہوئے بھی پوری طرح ہم آہنگ اور ہم مزاج نظر آتی تھی۔ اس زمانے میں رسالہ ساقی کے جام بدوش سرورق، نقوش کے لیے اسلم کمال اور فنون کے لیے موجد کے سرورق اپنی شہرت رکھتے تھے مگر جمیل نقش تو منفرد مصوّر تھے۔ وہ رسالے کے سرورق کو ایسی تصویر بنا دیتے جو ان کے فن کی آئینہ دار ہوتی۔

اسی زمانے میں جمیل نقش کو میں نے نسیم درانی اور عبید اللہ علیم کے ساتھ دیکھا۔ وہ مستحکم ادیب تھے اس لیے ہم پر ان کا بہت رعب تھا۔ ملاقات ہوئی تو جمیل نقش اولمپیائی مخلوق کے بجائے بظاہر سیدھے سادے اور دوست نواز مخلص آدمی معلوم ہوئے، مگر اپنے فن میں سرتاسر ڈوبے ہوئے۔ ان کے گھر کے دروازے دوستوں کے لیے کُھلے رہتے تھے اور مصوّروں، فن کاروں کے ساتھ ادیب شاعروں کا جمگٹھا لگا رہتا تھا۔ اس دور میں ادیبوں شاعروں اور مصوّروں میں ایسی دوریاں نہ تھیں۔ کراچی کی محفلوں میں ساتھ ساتھ گھومتے ہوئے نظر آتے تھے۔ پھر ایک دوسرے کے کام کی سمجھ بھی تھی۔ جمیل نقش نے عبیداللہ علیم کے مجموعے کا سرورق بنایا۔ پھر دوسرے مجموعے کا سرورق بھی بنایا۔ عشرت آفرین کی کتاب کو بھی اپنی تصویر سے مزین کیا۔ صابر ظفر کے بہت سے مجموعوں کے سرورق بنائے، ایک سے ایک یادگار۔ ان کی فنّی زندگی کا ایک پورا حصّہ رسالوں، کتابوں کے سرورق سے عبارت ہے۔

میرا اندازہ ہے کہ اس وقت وہ معمولی اُجرت پر غیرمعمولی ہُنر مندی کے ساتھ تصویر بنا دیا کرتے تھے۔ ایک تصویر اور مجھے یاد ہے۔ شمس زبیری نے شاہد احمد دہلوی کے انتقال کے بعد رسالہ ’’نقش‘‘ کا سرورق ان سے بنوایا اور جمیل نقش نے شاہد احمد دہلوی کا خاکہ بنا دیا۔ یہ خاکہ مجھے اس وقت سے پسند تھا۔ پھر جب اپنے والد کے ساتھ مل کر شاہد احمد دہلوی کی تحریروں کا انتخاب ’’بزم شاہد‘‘ کے نام سے کیا تو اس کے سرورق کے لیے اسی خاکے کا انتخاب کیا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ خاکہ رسالے پر چھپ گیا مگر اصل خاکہ کسی نے محفوظ رکھنے کی کوشش میں نہ کی۔ خاکہ اچھا تھا لیکن اس سے بڑھ کر کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن جمیل نقش کا کام لاکھوں روپے کی قیمت کا حامل بن جائے گا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2