جھوٹی جنت کا دعویدار


تینوں نوجوان ایران کے مشھور علمی شہر نیشاپور میں اپنے اپنے علاقوں سے علم حاصل کرنے پہنچے اور تینوں قریبی دوست بنے ان میں سے ایک کا نام عمر اور دو نوجوانوں کے نام ایک جیسے یعنی حسن تھے۔

تینوں کو آگے چل کر قدرت نے لازوال شہرت عطا کی۔ پہلے دو دوستوں کی شہرت کے ساتھ احترام اور محبت وابستہ ہے کیونکہ عمر نامی نوجوان بعد میں عمر خیام جبکہ حسن نام کا پہلا نوجوان خراسان کے سلجوقی حکمرانوں کا انتہائی ذھین اور قابل اعتماد وزیراعظم بنا جسے دُنیا نظام الملک طوسی کے نام سے جانتی ہے۔ جبکہ ان کے برعکس تیسرے دوست کو وہی شہرت ملی جو ابلیس کو ملی تھی کیونکہ اس کا مسلک وہی تھا جس پر ابلیس ہمیشہ اُتراتا رہا۔ یعنی انسانوں کو گمراھی اور بربادی کی طرف دھکیل کر اس پر تکبر بھی کرنا۔

اس تیسرے آدمی کو دُنیا حسن بن صباح کے نام سے جانتی ہے، اگر جھوٹ، فریب، مکاری، حرص اقتدار اور دغابازی کے علاوہ ظلم، قتل عام اور دہشت انگیزی کو ایک ہی جسم میں تلاش کرنا ہو تو حسن بن صباح پر ہی نگاہ ٹھرے گی۔ اس کا ہنر ہی یہ تھا کہ وہ جھوٹ ایسی روانی اور اعتماد کے ساتھ بولتا کہ کمزور ذہن کے لوگ اور جذباتی اذھان اس سے نہ صرف متاثر ہوتے بلکہ اس کی ہر بات کو اپنے ایمان اور عقیدے کا حصہ بناتے۔

اس بے حس اور بے ضمیر آدمی کو طاقت اور اقتدار کی اتنی تڑپ تھی کہ اس کے حصول کے لئے اپنے لوگوں، دوستوں اور محسنوں کو کیا اپنے بیٹوں تک کو قتل کرنے سے گریز نہیں کیا۔

غربت اور گمنامی کے دنوں میں وہ اپنے پرانے ہم سنق اور خراسان کے وزیراعظم نظام الملک طوسی کے پاس مدد کے لئے پہنچا تو اس نے دوستی کی لاج رکھتے ہوئے محل کا کوتوال مقرر کیا لیکن چند ہی دنوں بعد وزیراعظم کے خلاف بھی سازشیں شروع کیں۔ جو اس کا محسن بھی تھا سو یہاں سے بھگا دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد مصر میں نمودار ہوا تو حالات کو دیکھ کر اسماعیلی مذہب اختیار کیا جس کے وجہ سے دربار تک رسائی ممکن ہوگئی، خلیفہ مستنصر کے بیٹے نظار کی حمایت میں سامنے آیا تو ہوشیار اور طاقتور وزیر بدر جمالی کی نظروں میں آیا جس نے پکڑ کر عیسائی لٹیروں کے حوالے کیا مگر چند دن بعد بھاگ گیا اور ایران پہنچا، یہاں قزوین شہر میں ڈیرہ ڈالا اور ایک روحانی بزرگ کا روپ دھارا، رفتہ رفتہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے خصوصًا خواتین اس بہروپیے پر مٹنے لگیں۔

اب جو بھی خوبصورت خاتون اس کے ہاں آتی وہ ایک ڈائری میں اس کا نام اور پتہ درج کرتا۔

شہر کے نواح میں ایک پہاڑی پر بنا قلعہ پسند آیا تو وہاں قیام کرناشروع کیا کیونکہ اس انتہائی وسیع وعریض قلعے کا مالک اس کا ایک عقیدت مند تھا کچھ عرصہ بعد یہاں مریدوں کی تعداد بڑھنے لگی تو اس نے قلعے کے مالک کو یہاں سے بھگا دیا۔ یہاں اس پر حشیش ( بھنگ ) کا انکشاف ہوا اور یہاں ایک شیطانی منصوبہ اس کے ذہن میں آیا آگے اس نے اس منصوبے کو عملی شکل دینا شروع کیا، چونکہ قلعہ ایک سرسبز و شاداب اور روح پرور جگہ پر تھا اور اس کی وسعت میلوں میں تھی اس لئے ایک بڑے حصّے میں ایک پر اسرار ”جنت“ بنادی گئی۔

جہاں خوبصورت اور پھلدار درخت تالابوں پر جھولتے رہتے طرح طرح کے پرندے ان درختوں پر چہچہاتے اوران تالابوں کے کنارے حوریں ٹھل رہی ہوتیں (یہ حوریں وہی خوبرو خواتین تھیں جو اس کی عقیدت مند تھیں اورجنھیں وہ کڑے انتخاب کے بعد اپنی ڈائری میں درج کرتا تھا) اس جنت میں داخلے کے لئے کم عمر اور جذباتی نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا۔ جن کی عمریں بارہ سے سترہ سال کے درمیان ہوتیں۔

ان نوجوانوں کو بھاری مقدار میں حشیش اور بھنگ پلا کر بے ہوش کیا جاتا اور پھر خفیہ راستوں کے ذریعے انھیں ”جنت“ میں چھوڑ دیا جاتا، ہوش آتا تو وہ ایک اپنے آپ کو ایک طلسم کدے میں پاتے یہاں شراب، حشیش اور حوروں کے ساتھ کچھ دن گزرتے اور یہ جادو سر پر چڑھ جاتا تو پھر سے بے ہوش کرکے شیخ یعنی حسن بن صباح کے سامنے لایا جاتا جو مخصوص طریقوں سے ان نا سمجھ نوجوانوں کے ذہن کو جکڑ لیتا (حسن بن صباح کو ہپنا ٹزم پربھی عبور تھا ) یہیں سے وہ نوجوان ابلیسی ذہن والے حسن بن صباح کے فدائین (خودکش ) بنتے اور دُنیا بھر میں موت بانٹتے پھرتے، ان نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جاتی کہ موت کے بعد آپ مستقل طور پر اس جنت میں چلے جائیں گے جہاں عارضی طور پر آپ نے کچھ دن گزارے تھے۔

عظیم متقی بادشاہ نورالدیّن زنگی سے نظام الملک طوسی تک کتنے بادشاہ اور اکابرین مارے گئے۔ کتنے عالموں مصلحوں اور مخالفین کی گردنوں پر تلواریں اتریں۔ شاید گننے سے بھی باہر۔ ایران کا بادشاہ تنگ آگیا اور حملے کے لئے روانہ ہوا تو ابلیسِ وقت نے اشارہ کیا اور راستے میں بادشاہ کا سر اُڑا دیا گیا جبکہ لشکر نے پسپائی اختیار کر لی۔

حسن بن صباح کی موت کے بعد اس کا بیٹا اس شیطانی سلسلے کا امام بنا اور یوں یہ سلسلہ ڈیڑھ سو سال تک ایک عذاب کی صورت قائم رہا، حتٰی کہ ان سے بھی بڑا فتنہ ہلاکو خان وہاں پہنچا اور قلعے کو ملیامیٹ کرنے کے بعد وھاں موجود تمام سپاہیوں کو پکڑا اور چُن چُن کر تہہ تیغ کیا۔ اور یوں یہ عذاب ایک دوسرے عذاب کے ہاتھوں بالآخر فنا کی گھاٹ اُتر گیا۔

قارئین کرام!

میں نے کہانی ختم کردی اب یہ ذمہ داری آ پُکی ہے کہ اپنا اپنا حسن بن صباح اور اس کی جھوٹی جنت بھی تلاش کریں اور اس سے چھٹکارا پانے کا راستہ بھی۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).